اوسلو میں اسلامک کلچرل سنٹر میںبرطانیہ سے لارڈ نذیر احمد کا خطاب
ہمیں پاکستان نے وہ عزت نہیں دی جو ہمیں برطانیہ یا ناروے نے دی ہے
اوسلو ( احسان شیخ)ہاؤس آف لارڈ برطانیہ کے رکن اور اسلامی دنیا کی معروف شخصیت لارڈ نذیر احمد نے کہا ہے کہ ہمیں پاکستان نے وہ عزت نہیں دی جو ہمیں برطانیہ یا ناروے نے دی ہے ۔ اسلامک کلچرل سینٹر ناروے میں گرینڈ فیملی ڈنر کے موقع پر اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ہم یہاں بغیر وسائل کے آئے تھے اور آج کامیاب زندگیاں گزار رہے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال 22 جولائی میں رونما ہونے والی دہشت گردی جس میں 77 بے گناہ انسانوں کی جانیں ضائع ہوئیں اس بات کی دلیل ہے کہ یوتھ گینگ کلچر اب ناروے میں بھی پہنچ چکا ہے ۔ لہذا صورتحال کو ایک معاشرتی مسئلہ سمجھتے ہوئے اس کے حل کیلئے سنجیدہ اقدامات اٹھانا ہونگے ۔ لارڈ نذیر احمد نے کہا کہ میرے نزدیک سب سے بہتر مسلمان اور پاکستانی وہ ہے جو اچھا شہری بن کر اپنے خاندان کی سرپرستی کرے اور معاشرہ میں موجود مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ مسائل کے حل کیلئے اپنا کردار مثبت انداز سے ادا کر سکے ۔
انہوں نے کہا کہ جو قومیں وقت کی پابندی نہیں کرتیں وہ ترقی نہیں کر سکتیں ۔ یہ بات انہوں نے پروگرام کے ڈیڑھ گھنٹہ دیر سے شروع ہونے کے حوالے سے تنقیدی لیکن خوبصورت انداز میں کہی ۔ لارڈ نذیر صاحب کا یہ پیغام ان تمام تنظیموں کیلئے لمحہ فکریہ ہے جو وقت کی پابندی نہیں کرتیں ۔ دراصل ہمارے ہم وطن اکثر غیر ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے وقت پر نہیں پہنچتے جس کی وجہ سے وہ ان کا انتظار کرنے کی وجہ سے پروگرام دیر سے شروع کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔
یورپ میں بسنے والے غیر ملکی پس منظر کے حامل لوگوں کو درپیش چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارا سب سے بڑا چیلنج اپنی نوجوان نسل کو محفوظ اور باعزت مستقبل فراہم کرنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم دراصل چھوٹے اہداف لیکر ان ملکوں میں آئے تھے لیکن وقت کا غلام بن کر ہی رہ گئے ۔ ہم نے محنت کر اپنے مالی وسائل کو بڑھایا اور پاکستان میں بڑی بڑی کوٹھیاں اور جائیدادیں بنائیں جن کی شاید ہمیں ضرورت نہیں ۔ لہذا ان سے فارغ ہو کر ہمیں اپنے وسائل کو نوجوان نسل پر استعمال کرنا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان ملکوں میں 16-14گھنٹے ٹیکسی چلاتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے ہم اپنے بچوں کو وقت نہیں دے پاتے ۔ ہمیں اپنے بچوں کو وقت دیتے ہوئے ان کی دلچسپیوں سے روشناس ہونا چاہیے اور ان کی مرضی کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے ان کی تعلیم پر توجہ دینی چاہئے ۔