اوسلو یونیورسٹی کے محقق نے درازیء عمر کا راز دریافت کر لیا

چالیس سالہ ریسرچ کے چونکا دینے والے نتائج
اوسلو یونورسٹی میں بارہ ہزار افراد پر پچھلے چالیس سالوں کی تحقیق میں یہ معلوم کیا گیا کہ لمبی اور کم عمر پانے والے افراد میں کیا فرق ہے۔
اوسلو یونیورسٹی کے محقق ہینرک بورشٹاڈ یاکوبسن یو نیورسٹی میں اسٹریس پر تحقیق کر رہے ہیں جبکہ اس گروپ دی مائنڈ باڈی لیب The mind body lab کے سربراہ بھی ہیں۔
انہوں نے اپنی تحقیق کے نتیجے میں یہ خیال ظاہر کیا کہ طویل عرصہ تک منفی اسٹریس میں مبتلاء رہنے کی وجہ سے افسردگی، اور ڈپریشن کے اثرات جسم پر ظاہر ہوتے ہیں جبکہ بہت کم افراد اس پر قابو کرتے ہیں۔
روزمرہ کے کاموں میں تھوڑی بہت اسٹریس اچھی ہوتی ہے اس وجہ سے ہم اپنے کام پوریکر کے شام کو صوفہ پر ایک خوشگوار احساس کے ساتھ آرام کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ایک خاص ٹارگٹ کو پورا کرنے کے لیے کچھ وقت کے لیے اگر اسٹریس ہو جائے تو وہ بھی خطرناک نہیں لیکن طویل عرصے کی اسٹریس دل کی بیماریوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔جس میں بلڈ پریشر اور ہارٹ اٹیک جیسی بیماریاں شامل ہیں۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ ملازمت سے لوگ کتنے فیصد اسٹریس کا شکار ہوتے ہیں تاہم سن دو ہزار انیس کی تحقیقی سے یہ پتہ چلا ہے کہ بائیس فیصد افراد نے کام کی وجہ سے تھکن کی شکائیت کی ہے۔
اسی طرح اگر انسان دن بھر پریشانی میں گزارے رات کے وقت اسکی نبض تیز چلتی ہے۔
اس کا حل یہ ہے کہ
آپ اپنی روزمرہ کی روٹین سے وقفہ لیں اور کچھ دنوں کے لیے سستا لیں
ذیادہ سے ذیادہ وقت فطرت کے قریب گزاریں۔
کم از کم یومیہ بیس تا تیس منٹ کے لیے واک پر جائیں۔

لمبی عمرکے راز کا فارمولہ
اوسلو یونیورسٹی کے محقق یاکوبسن کا کہنا ہے کہ انہوں نے چالیس برس پر محیط طویل تحقیق سے جو نتائج حاصل کیے ہیں ان کے مطابق جو افراد سال میں کم از کم تین ہفتے کی مسلسل چھٹیاں لیتے ہیں اور ان میں تفریح کرتے ہیں وہ ذیادہ صحتمند اور طویل زندگی گزارتے ہیں۔ کیونکہ اس دوران انکا جسم نئے خلیے بنا لیتا ہے۔
لیکن انہوں نے کہا کہ ان چھٹیوں کے دوران اپنی ملازمت اور دوسرے امور کی فکریں نہ لیں۔اپنے آپ کو electronic devices برقی ڈیوائسز سے دور رکھیں۔
NTB/UFN

اپنا تبصرہ لکھیں