تحریر نسرین مرزا
راولپنڈی
انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو
اس شہر میں جی کا لگانا کیا
باہر کسی گزرتی ہوئی گاڑی سے امانت علی خان کی ٓواز میں یہ غزل کانوں سے ٹکرا کر اولڈ ہوم کی افسردہ درودیوار سے ٹکرا رہی تھی جس سے گردونواح کا منظر اور سوگوار ہو گیا تھا ۔ مختلف کمروں میں رہنے والی خواتین اپنی روزمرہ کی مصروفیات میں سرگرم تھیں ۔ شہر کے پر آسائش مقام پر ایک انتہائی مہنگا اولڈ ہوم تھا جہاں ماہانہ خرچ 30 سے 40ہزار تک تھا اچانک گیٹ پر گاڑی کا ہارن سنائی دیا چوکیدار نے دروازہ کھولا ایک باوقار مگر افسردہ خاتون بیٹے کے ساتھ آفس میں داخل ہوئیں جلد ہی دفتر ی کاروائی ماہانہ خرچ اور کاغذات جمع کروا کر بیٹا ماں کو پھر آنے کا کہ کر رخصت ہو گیا وہ خاتون دوسری خواتین کے ساتھ کامن روم میں بیٹھ گئی انکی آنکھیں بار بار بھیگ رہی تھیں اور دماغ میں ماضی کی تصویریں چل رہی تھیں۔
وہ اپنے شوہر وقار اور 2بیٹوں اور ایک بیٹی کیساتھ محنت مشقت کر کے اپنے بچوں کو کسی قابل بنانے میں خود کو فراموش کر چکی تھی۔ پھر انھوں نے اپنا گھر بنایا اور بچوں کی شادیاں کیں لیکن پھر وقت گزرنے کیساتھ ایک بیٹا اور بیٹی ملازمت کے سلسلے میں دوسرے شہر چلے گئے اور اپنے دوسرے بیٹے بہو اور اسکے دو بچوں کیساتھ ہنسی خوشی زندگی گزاررہی تھیں مگر بہو اکثر شوہر سے الگ مکان کا تقاضا کر کے لڑ پڑتی مگر وہ صلح صفائی کوا دیتا پھر اچانک وقار کو دل کی تکلیف ہوئی پہلے سٹنٹ ڈالے گئے اور پھر بائی پاس ہو مگر دو سال میں ہی وہ اللہ کو پیارے ہو گئے جبکہ علا ج پر بھی کافی خرچ آچکا تھا۔صاعقہ کی تو دنیا ہی اندھیر ہو گئی تھی مگر کچھ عرصہ بعد ہی بیٹوں کو مکان بیچنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور اماں کو بوجھ سمجھنے لگے ۔صاعقہ اب احساس دلایا جانے لگا کہ وہ اب اس کی گھر کی مالک نہیں ہے اس لیے اس کو بیچ کر سب کو ان کا حصہ دیا جائے مگر ماں کو رکھنے کے لیے کوئی تیار نہیں تھا۔
لاچار والدین یا بزرگ حضرات کی مالی مدد کے سہارے زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں اور اپنے اہل خانہ کو یاد کر کے اداس رہتے ہیں مگر کوئی خوشحال اور تنہا مردوزن اس بات کی طرف راغب نظر آتے ہیں کہ گھروں میں خود کو بیکار اور فالتو محسوس کرنے کی بجائے اپنے ہم خیال ، ہم عمر اور ہم مرتبہ لوگوں کیساتھ مل کر زندگی میں خوشی اور ذمہ داریوں سے دور رہ کر گزار ی جا سکتی ہے۔ یا پھر بچے ملک سے باہر ہوں تو تنہا بڑے بڑے گھرون میں نوکروں کی فوج ظفر موج کیساتھ لاچار ، پریشان اور بے بس ہونے کی بجائے اولڈ ہوم انتظامیہ کی حفاظت میں آ جائیں جہاں مناسب خرچ دے کر زندگی اطمینان سے گزاری جا سکے کیونکہ بچوں کی مجبوریاں سمجھتے ہیں اس لیے زندگی سے شکوہ کرنے کی بجائے شکر گزاری کیساتھ معاشرہ کا فرد بننا چاہتے ہیں جہا ں انکی صلاحیتوں کو استعمال میں لانے کا موقع بھی ملے اور خوشگوار وقت بھی گزرے۔
اسلام بیٹے کو والدین کی ضرورت کا حکم دیتا ہے ۔ بہو شوہر کی معاونت اور خوشی کے لیے اسکا ساتھ دے تو گھر جنت بن سکتا ہے اس طرح داماد بیوی کے والدین کو بھی اپنا سمجھے تو معاشرے کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں کہا جاتا ہے کہ :
ۂ”اگر بیٹیاں والدین کو دیکھ بھال کی ذمہ دار ہوتیں تو کوئی اولڈ ہوم نہ ہوتا لیکن اگر وہ بہو بن کر بیٹے کے والدین کو بھی اپنا سمجھیں تو اولڈ ہوم آباد کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوگی اور یہ سمجھتیں کہ آج ان کا شوہر جس مقام پر ہے وہ والدین کی محنت کا صلہ ہے۔ ”
یورپ الجھنوں ، بے راہ روی اور خاندانی نظام کی کمزوری سے پریشان ہو کر مشرقی اقدار کو فروغ دینا چاہتے ہیں جبکہ ہماری نوجوان نسل بزرگوں کے علم تجربے اور سوچ کو غیر ترقی یافتہ اور پسماندہ خیال کرتی ہے یہ درست ہی کہ ہر شخص کے حالات دوسرے سے مختلف نہیں مگر بزرگوں کو بھی وقت کے ساتھ خود کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔
نوجوان نسل سے دوستی ،پیار اور درگزر کا رشتہ بنائے تاکہ گھروں میں خوشحالی آسکے۔