ڈاکٹر شہزاد مقصود احمد بسرا)
” آپ شام کو جا رہے ہیں؟”
”نہیں تو۔ میں آج شام گھر پہ ہی ہوں”
”میرا مطلب ہے کہ آپ شام جا رہے ہیں”
”بھئی کہا توہے کہ آج شام کو کہیں نہیں جائوں گا”
”آپ بھی حد کرتے ہیں۔میں آج شام کی نہیں، مُلک شام کی بات کر رہا ہوں”
”اُفوہ توآپ Syria کی بات کر رہے ہیں۔
وہاں تو میں ICARDA (International Center for Agricultural Research in Dry Areas) کی دعوت پر بین الاقوامی ورکشاپ میں شرکت کے لیے 13نومبر کو شام کے دمشق کے بعد دوسرے بڑے شہر اور تہذیبی مرکز ‘حلب’ جا رہا ہوں۔اُسی کی تیاری کے لیے آج شام کو گھر ہی رہوں گا”۔
اِس کے بعد سے ‘شام’ کو ”مُلکِ شام” کہنا شروع کر دیا۔جیسے بچپن میں کہانیاں پڑھا کرتے تھے جو عموماََ یوں شروع ہوتی تھیں
” مُلکِ شام کا ایک سوداگر۔۔۔۔۔”
”اُس نے مُلکِ شام کا قصد کیا۔۔۔” وغیرہ وغیرہ
روانگی سے ایک روز قبل ایک دوست نے پوچھا۔”کب جانا ہے”
”میں ‘صبح شام’ جا رہا ہوں”
توجواب موصول ہوا۔”یہ آپ ‘صبح شام’ کہاں جاتے ہیں؟”
سُنا ہی تھا کہ مشرقِ وسطی میں دنیا کے خوبصورت ترین لوگ بستے ہیں۔مُلکِ شام دیکھا تو اِس بات پہ ایمان لے آئے۔ جو سُنا تھا وہ کم تھا۔ جو دیکھا وہ کہیں بڑھ کے تھا۔ایک قیامت برپا تھی۔مستند روایات کے مطابق قیامت کی نشانیاں شام میں ہی ظہور پزیر ہوں گی۔کانا دجال یہیں سے وارد ہو گا۔ حضرت عیسی بھی شام سے ہی ظہور پزیر ہوں گے۔ جوج ما جوج قوم بھی دیوار چاٹتے چاٹتے مُلکِ شام سے ہی نمودار ہو گی اور بڑا فساد مچائے گی۔ اور تو اور میدانِ حشر بھی شام ہی میں برپا ہو گا۔ اِن دجال کے چیلے اور چیلیوں نے اِس مِسکین اجنبی پر بھی تو ایک قیامت ہی ڈھا دی۔
پہلے تو انواع و اقسام کے کھانے کھلائے پھر اگلی ہی رات کو ورکشاپ کے شرکاء کے لیے خصوصی عشائیے کا اہتمام کر دیا۔تبدیلیء آب و ہوا، قِسم قِسم کے بدیسی کھانے۔ نتیجتہََ عشائیے کے دوران ہی دردِشکم شروع ہو گیا۔قہوے، منٹ، انٹ ایسڈ، سب ٹوٹکے بے اثر۔
ۖۖ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دو ا کی
ہوٹل پہنچے تو درد کی شدت اتنی بڑھی کہ ماہیء بے آب کی ماند تڑپنا شروع کر دیا۔کوئی نصف شب ایک دجال صفت معالجِ ماہرِ جراہی (اسپیلشلسٹ سرجن) تشریف لائے۔جناب عقل ہی سے نہیں انگریزی سے بھی پیدل تھے۔ اُنہیں اُتنی ہی انگریزی آتی تھی جتنی ہمیں عربی ۔سو کمال کی ” کمیو نیکیشن” تھی،الفاظ سے زیادہ اشاروں سے گفتگو ہو رہی تھی۔
ہم نے کہا۔ ”شکم دردََ شدیدََ کثیرََ”۔ کھانا لحم کثیراََ۔ مطلب پیٹ میں بہت درد ہے جو غالباََ زیادہ گوشت کھانے سے ہوا۔
مگر جناب صرف سرجری ہی کرنا جانتے اور چاہتے تھے ۔سو فوری آپریشن کا فیصلہ سُنا دیا۔ اُن کا خیال تھا زیادہ امکان کھانے کی بے احتیاطی ہی ہے مگر احتیاطََ اپنڈکس اور پتے کی پتھری بھی نکال دینی چاہیے کیونکہ کبھی کبھی اِن وجوہات سے بھی ایسی درد ہو جاتی ہے۔ دوسرے غالباََ اُن کو آپریشن کا مجھ سے زیادہ فائدہ تھا کہ میں ICARDA جیسے امیر ادارے کا مہمان تھا۔جب پتا چلا کہ میں صرف 4 روز اور قیام کروں گا اور ”انا مہاجر، انا مسکین ”۔ مطلب میں مقامی نہیں ہوں اور اپریشن افورڈ نہیں کرتا تویہ طے ہوا کہ ایسا علاج کیا جائے کہ یہ ”عجمی مسکین مہاجر مریض” اپنے وطن ”الباکستان” کو سُدھارے اور باقی علاج وہیں کروائے۔
معالج نے” گاہک” ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر اُسے علاجِ سخت کی سزا تجویز کی۔ ڈھیر ساری ادویات مع انجکشنوں کے منگوائے۔اور درد کے لیے ایک انجکشن تیار کرنا شروع کر دیا تو ہم نے قمیض کے بازو کا کف لپیٹنا شروع کر دیا۔ مگر متشّدد معالج نے درشتگی سے کہا کہ
انا ”انتر مسکولر” but not here اور ہماری پشت کی طرف اِشارہ کیا۔ہم نے درد کے باوجود ایسے انجکشن لگوانے سے انکار کر دیا اور بازو آگے بڑھایا۔ داکتر صاحب درشتگی سے گویا ہوئے
”دِس انجکشن شدید (بازو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)درد کثیراََ۔
ہم نے کہا کہ بھئی ہم بچے نہیں ہیں۔ کافی بڑے ہو گئے ہیں اورعرصہ دراز سے انجکشن بازو پر ہی لگواتے ہیں ۔ مگر بے سود۔اُس کے تیور بتاتے تھے اُس کی بات مانے بغیر چارہ نہ تھا۔ سو رُخ دیوار کی جانب کر کے اُلٹے لیٹ گئے۔ اُس ظالم کو ہم ویسے بھی نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔مگر درد کی شدت میں جب کوئی کمی نہ ہوئی تو ایک گھنٹے بعدوہی عمل ہمارے خفیف سے احتجاج کے باوجود دوسری طرف دوہرایا گیا۔تکلیف تو کچھ خاص کم نہ ہوئی البتہ بیٹھنا بھی مشکل ہو گیا۔ ہمارے آنسو دیکھ کر ظہور بولا
”ڈاکٹر صاحب۔ کیا بہت تکلیف ہے”
ہم گویا ہوئے۔”یہ تشکر کے آنسو ہیں۔اپنے لوگوں کو تو ہماری قدر ہی نہیں۔ یہ غیر ہو کے بھی ہماری قدر پہچانتے ہیں۔ دیکھو ڈاکٹر نے ہمیں ‘سےّد شہزاد احمد’ لکھا ہے”۔ہم نے نسخہ اُن کے ہاتھ میں تھمایا۔
مگر لوگ کہاں دوسروں کی عزت دیکھ سکتے ہیں۔ ظہور متاثر ہوئے بغیر بولا۔”سےّد عربی میں جناب کو لکھتے ہیں”
ڈھیر ساری گولیوں اور کیپسولوں کے علاوہ اب اگلے تین روز صبح شام انٹی بائیوٹک انجکشن بھی لگوانا تھے ۔ طے یہ ہو ا کہ شا م کو ایک نرس ہوٹل آیا کرے گی جبکہ صبح ICARDA کے ہیلتھ سنٹر سے انجکشن لگوایا جایا کرے گا۔ اگلی صبح انجکشن لیئے ICARDA کے ہیلتھ سنٹر میں پہنچے تو قدرے بہتر تھے ۔ وہاں ایک انتہائی خوش شکل اور شائستہ مزاج ڈاکٹر تھیں۔یہ سُن کے ہمارے پسینے چُھوٹ گئے کہ سنٹر میں کوئی مرد ڈاکٹر یا کمپونڈر نہیں صرف یہی لیڈی ڈاکٹریہاں کا واحد عملہ ہیں۔ تفصیلی چیک اپ کے بعد آپ نے بھی دجال صفت ڈاکٹر صاحب سے اتفاق کیا اور انجکشن تیارکرناشروع کردیا ۔ امید تھی کہ اب کے بار انجکشن بازو پر ہی لگے گا کیونکہ یہ دوسری قسم کے تھے مگر دل میں ایک عجیب سا اندیشہ تھا اور رات والے واقعے کا اثر بھی ۔ دوسرے یہ خاتون تھیں ۔ ابھی کوٹ اُتار کے کف کو ہاتھ لگایا ہی تھا کہ ڈاکٹر صاحبہ نے شرما ئے بغیر وہی فرمایا جو ہم رات کو سُن چکے تھے۔
ہم نے گھگھیائی آواز میں درخواست کی کہ اگر گنجائش ہے تو ہم کف ہی اوپر کرتے ہیں ۔ مگر ڈاکٹر صاحبہ نے ہمیں بیڈ پر چپ چاپ اُلٹے لیٹنے کا حکم دیا ۔ پھر تو اچھے بچے کی طرح حکم کی تعمیل کی۔ انجکشن کی تکلیف تو خاص نہ ہوئی البتہ سردی کے باوجود پسینہ آیا۔ ملکِ شام میں شام کو جو نرس آئی تو نہ ہم زیادہ شرمائے نہ وہ ۔ہم وطن دوستوں حَسن اور ظہورکے تیمارداری کی شاندار پاکستانی روایات کے اعلی مظاہرہ نے ہمیں دیارِغیر میں پُرسکون رکھا۔چونچہ ہماری صحت کافی تیزی سے بہتر ہو رہی تھی اور ہم ورکشاپ میں بھی بھرپور حصہ لے رہے تھے اگرچہ بیٹھنے میں کچھ تکلیف تھی۔ شام کوہماری خبر گیری کے لیے ہوٹل میں یہ دوست آے تو مسکراتے ہوئے بولے
”ڈاکٹر صاحب ابھی وہ حسین و جمیل نرس آئی نہیں اور آپ انجکشن کے لیے تیار ہیں”
ہم جھنجھلا کے بولے۔”او ظہور کے بچے۔ہمارے ساتھ جو دو دِن سے ہو رہاہے ہم چِت لیٹنے میں تکلیف محسوس کرتے ہیں۔اِس لیے یوں لیٹنے میں آرام محسوس کرتے ہیں”۔
تیسرے دن ہم دمشق روانہ ہوگئے ۔پہنچے تو شب 9بجے کا عمل ہوگا کہ خیال آیا کہ ابھی ایک انجکشن باقی ہے۔ سوچا دفع کرو کافی ہوگئی شامی حُسن سے منہ موڑتے۔ مگر حَسن اور ظہور نے اصرار کیاکہ آپ بہتر ہو رہے ہیں انجکشن مس نہ کریں ۔ سو انجکشن جیب میں ڈالے ہسپتال کی تلاش میں نکل پڑے۔ طے کیا کہ اب کی بار صرف مرد ڈاکٹر سے یا کمپونڈر سے ہی انجکشن لگوائیں گے اور بازو میں ہی لگوائیں گے خواہ سُوج جائے آخر حد ہوتی ہے۔ کوئی گھنٹہ بھر کی تلاش ِبسیارکے بعدبلآخر ایک ہسپتال نظر آیا ۔مگر اس ہسپتال جانا ناممکن تھا کہ عربی بورڈ تو نہ پڑھے جاتے تھے ۔ بورڈ پر تصویریں خواتین اور نوزائیدہ بچوں کی لگی تھیں اور خواتین کارش بھی تھا۔ دائیں بائیں سے پوچھا کہ کوئی مرد انہ ہسپتال یا ڈاکٹر کا کلینک آس پاس ہے ۔ مگر بے سود۔ جب کوئی ہسپتال نظر نہ آیا تو ایک دوکاندار سے مدد کے لیے رُکے۔ چونکہ اکژیت انگریزی سے نابلد تھی سو کچھ عربی کچھ انگریزی سے کام چلانے کی کوشش کی۔
ہم بولے۔”انا مریض۔ انا عجمی فرام الباکستان”
وہ کچھ نہ سمجھا۔
کہا۔” انا مریض۔ ہذا انجکشن”۔
وہ کچھہ نہ سمجھا
ہم جھنجھلا کے بولے۔” بیمارستان”اور اُسے انجکشن دکھایا تو بولا
You mean hospital
دھت تیرے کی ۔ ہم اِتنی محنت سے عربی بول رہے تھے اور وہ انگریزی جانتا تھا۔وہ شامی لڑکا ہماری مدد کے لیے تیار ہوگیا اور گھوم پھرا کے اُسی زچہ بچہ ہسپتال میں لے آیا ۔ ہم نے فیصلہ کر لیا کہ انجکشن ہی نہیں لگوائیں گے مگر حَسن اور ظہور کی مدد سے شامی لڑکا ہمیں کھینچ کے اندر لے گیا ۔بہت احتجاج کیا کہ یہ دوسری قسم کا ہسپتال ہے اور ہم ٹھہرے شرمیلے آدمی۔ دوسرے اِن لوگوں کو انگریزی اور ہمیں عربی نہیں آتی۔ اگر اس غلط فہمی میں یہ لوگ ہمیں اِسی ہسپتال ہی کا کیس سمجھ بیٹھے تو کہیں ہم مارے نہ جائیں ۔ مگر ہماری سُنتاکون ہے۔ جب ہوش آیا تو اپنے کو ایک کاؤنٹرکے سامنے پایا ۔ جہاں تین نوجوان شامی حُسن کا شہکار نرسیں بیٹھی تھیں ۔ہم نے گھبرا کے ترجمانی کے لیے مُڑ کے دیکھا تو وہ شامی لڑکا غائب تھا۔
ناچار شرماتے ہوئے جیب سے ڈاکٹر کا نسخہ نکال کے دکھایا تو کہنے لگیں
“Pharmacyمطلب دوائیوں کی دکان پہ جاؤ۔
ہم نے کوٹ کی جیب سے انجکشن نکال کر کاونٹر پررکھ دیا اور مسکین صورت بنائے کچھ عربی کچھ انگریزی کچھ اشارے سے کہا ۔
”انا مریض ۔ انابیمار۔ ہذا انجکشن ۔ انا مہاجر۔نو عربی”
تینوں کم بخت ایک دوسری کو کہنیاں مار کے کِھی کِھی دانت نکالنے لگیں ۔ ہم زِچ ہو کر واپسی کے لئے انجکشن اُٹھا نے ہی کو تھے کہ اُن میں سے ایک نے اٹھلاتے ہوئے انجکشن اُچک لیا اور اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا ۔ وہ ظالم مٹکتی لچکتی چل پڑی ۔ ہم اُس کے پیچھے پیچھے آہستہ خرام خواتین مریضوں سے بچتے بچاتے بمشکل اُس کے ساتھ چل رہے تھے اِس خوف کے ساتھ کہ زنانہ رَش میں اُسے کہیں کھو نہ دیں۔ حالات بتا رہے تھے کہ اُس نسوانی ماحول میں غالباََ ہم ہی واحد مرد تھے۔ وہ کئی راہداریوں سے گزر کے ایک لیبر روم معاف کیجیئے گا ڈریسنگ روم میں پہنچ گئی ۔ ہم شرماتے لجھاتے اور اپنے کو کوستے ڈریسنگ روم کے باہر ہی رُک گئے۔ہم فیصلہ کر چکے تھے کہ بھاگ لو۔ جا کرکہ دیں گے کہ انجکشن لگوا لیاہے۔اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے ہی والے تھے اُس نے ہمیں اندرآنے کا اشارہ کیا تو اگلے ہی لمحے ہم نے اپنے آپ کو اندر پایا۔ پردہ برابر کرکے اُس نے انجکشن تیار کرنا شروع کردیا اور ہم چپ چاپ اچھے بچوں کی طرح سرجھکائے آہستہ آہستہ نیم دلی سے بازو کا کف اوپر کرنے لگے ۔ایک موہوم سی امید تھی کہ یہ معصوم سی لڑکی انجکشن بازو پر ہی لگائے گی ۔ مگر اس نے شرماتے ہوئے انگلی سے ہمارے جسم کے اُس حصے کی جانب اشارہ کیا جو پچھلے تین روز سے شامی حُسن کے ہاتھوں مشقِ ستم تھا۔ سو وہی ہو ا جس کا ڈر تھا۔
چپ چاپ حسینہ سے منہ موڑ کربستر پر الٹے لیٹ گئے اور ہماری امیدوں ، آسوں اور اُمنگوں کی شا م میں شام ہو گئی ۔