نیویارک کے مضافات گرینچ ( تلفظ گَرَین اِچ ناٹ گرِین وِچ ) Greenwich کی ایک شارٹ سٹوری تھی کہ ایک بلڈنگ میں ایک نوجوان عورت “ جونسی “ کافی بیمار تھی اور اُس پر کوئی دوا اثر نہیں کررہی تھی ڈاکٹر حیران تھے کہ ایسی کیا وجہ ہے کہ دوا اثر نہیں کررہی ۔ اُس کی دوست سُو نے ڈاکٹر کو بلوایا لیکن ڈاکٹر کو جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ جونسی میں جِینے کی اُمید باقی نہیں رہی ۔ اُس وقت سردیاں تھیں اور خزاں کا موسم بھی ، عین اُس لڑکی کے کمرے کی کھڑکی کے سامنے ایک آئیوی بیل ( عِشقِ پیچاں کی بیل )تھی جِس پر بس کُچھ ہی پتے باقی رہ گئے تھے اب وُہ لڑکی یعنی جونسی خُود کو اور اپنی زِندگی کو اُن پتوں سے جوڑے بیٹھی تھی کہ بس چند دِن ہی باقی ہیں اور چند ہی پتے بھی ،جب آخری پتہ بھی گِر جائے گا تو وُہ بھی مر جائیگی ۔ وُہ کھڑکی میں بیٹھی آئیوی بیل کو تکتے رِہتی ، گِرتے پتوں کا شُمار کرتی رِہتی اور باقی ماندہ کا حساب لگاتی کہ اب کِتنے پتے باقی ہیں اور اُس کی زِندگی کے مزید کِتنے دِن بچ گئے ہیں ۔
ایک رات بُہت تیز طُوفان تھا ، ہوائیں بُہت تیز چل رہی تھیں ، جونسی کو پُوری اُمید تھی کہ آج بیل کا آخری پتہ بھی گِر جائے گا اور ساتھ یہ بھی پُختہ یقین کہ پتہ گِرنے کے بعد وُہ بھی زِندہ نہیں رہے گی ؛ شاید صُبح ہونے تک مرجائے ۔
لیکن ساری رات گُزر گئی وُہ ٹکٹکی باندھے پتے کے گِرنے کا انتظار کرتی رہی ، رات بُہت اندھیری تھی اُسے بس بجلی چمکنے پر ہی عشقِ پیچاں کی بیل کی جھلک نظر آتی تھی ، وُہ اِس انتظار میں تھی کہ پتہ اب گِرا کہ تب گِرا لیکن پتہ نہ گِرا ،اِسی اِثنا میں اُس کی آنکھ لگ گئی ،اگلی صُبح ایک روشن دِن تھا اور دُھوپ اپنی آب و تاب سے چمک رہی تھی ، اُس نے دوبارہ کھڑکی سے باہر دیکھا کہ پتہ گِر چُکا ہوگا ، لیکن وُہ پتہ ابھی تک وہیں موجود تھا۔ اب اُسے بھی یہ یقین ہونے لگا تھا کہ ابھی اُسے زِندہ رہنا ہے اِسی لئے پتہ نہیں گِرا اور اُس نے جینے کی اُمید پھِر سے شُروع کردی ۔ چند ہی دِنوں میں وُہ بھلی چنگی ہوگئی اور اپنی روٹین لائیف میں واپس آگئی ۔
کُچھ دِنوں بعد اُسے پتہ چلا کہ وُہ آخری پتہ تو جانے کب سے گِر گیا تھا لیکن اُسی کی بِلڈنگ میں رہنے والے ایک بُوڑھے پینٹر بہرمین نے وُہ طُوفانی رات میں وُہ آخری پتہ بس پینٹ کردِیا تھا کہ نہ پتہ گِرے اور نہ ہی اُمید ختم ہو ۔
اُمید ہماری زِندگی اور کامیابی میں بُہت اِہم کِردار ادا کرتی ہے ، اگر اُمید ہی باقی نہ ہو تو کامیابی کا حُصول مُشکل ہوجائے گا ۔ بسا اوقات ہم کئی توہمات اور وہمے بھی پال لیتے ہیں جو ہمیں آگے بڑھنے سے اور نئی شُروعات سے روکتے ہیں ، یہ ایسے آسیب اور عفریت کا رُوپ دھار لیتے ہیں کہ اِنسان اپنے مقاصد کے حُصول میں خُود کو کوشش کرنے سے بھی قاصِر پاتا ہے ۔ اگر آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں ، کُچھ بھی نیا کرنا چاہتے ہیں اُس کے لئے محنت کریں ، بہترین پلاننگ کریں اور سب سے اِہم بات اپنی کامیابی کا یقین اور اُمید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں ، سب اچھا ہوگا ۔
پیوستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ۔
یہ کہانی امریکن شارٹ سٹوری رائیٹر او ہینری کی ہے ۔ او ہینری اُن کا قلمی جبکہ ولیم سِڈنی پورٹر اصل نام تھا ۔ اِس شارٹ سٹوری میں ایک اور پہلو بھی ہے جو فی الحال اُوپر ڈسکس نہیں کِیا گیا اور وُہ پہلو ہے قُربانی کا ، دُوسروں کے لیے کُچھ کر گُزرنے کا جذبہ ۔ وُہ عُمر رسیدہ پینٹر بہرمین جِس نے اپنا ماسٹر پِیس تخلیق کرنے کا ہمیشہ سے خواب دیکھا تھا وُہ بالاخر “ آخری پتے “ ( دی لاسٹ لیف ) کی صُورت وُہ خواب ، شاہکار پینٹ کر گیا جِس نے نمونیا کی بیماری سے ہارتی ہُوئی اور موت کے وہم میں مُبتلا “ جونسی “ کی جان بچائی گو جونسی کی دوست سُو نے ہی اُس کو یہ پتہ پینٹ کرنے کی درخواست کی تھی لیکن اُس شدید سرد اور بھیگی رات میں پتہ پینٹ کرنا اپنی موت کو دعوت دینے کے برابر تھا ۔
میں اِس کو ایک موٹیویشنل انداز میں ختم نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن اِس کا موضوع ہی اُمید اور قُربانی ہے ۔ اُمید زِندگی ہے تو قُربانی اُس زِندگی کی آبیاری کرنے کے لیے ضروری عنصر ہے ۔ اُمید خواب ہے تو قُربانی اُن خوابوں کی تعبیر کا ایک راستہ ہے