( پہلی قسط)
تحریر : سید ندیم حسین.
ڈاکٹر ندیم سیّد طب کے پیشے سے وابستہ ہیں اور ادب سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔آپ کالم نگار اور شاعر بھی ہیں۔تاہم ندیم سیّد صاحب نے اب سفر نگاری کی صنف میں طبع آزمائی کر کے اپنی قلم نگاری کے جوہر دکھائے ہیں۔ناروے کی پاکستانی کمیونٹی میں اردو ادب کے افق پر یہ ایک قیمتی اضافہ ہے۔
اردو فلک ڈاٹ نیٹ کے قارئین کے لیے ایک خاص تحفہ۔۔۔
ہمارے ایک دوست کہا کرتے ہیں ” یار اسیں اونٹھ تے وی بیٹھے ہویئے تے سانوں لت تے کُتا وڈ جاندا اے (یارہم اونٹ پہ بھی بیٹھے ہوں تو ٹانگ پہ کتا کاٹ لیتا ہے)”.
کبھی کبھی واقعی ایسے ہوتا ہے. میں آج صبح اوسلو سے میڈرڈ کے لیئے نکلا تو اپنے ذھن میں بہت پُر سکون اور خوش تھا۔ کہ چُھٹیوں پہ جا رہا ہوں. جاب اور دوسرے کاموں سے کچھ دِن فراغت ملے گے۔ میں اپنی سلطنت کا خود ہی بادشاہ ہوں گا۔ جہاں جی چاھے گا چلا جاؤں گا۔ جو دِل کرے گا کھا لوں گا۔ جب جی چاھے گا سو جاؤں گا. وغیرہ وغیرہ۔ جہاز میں بھی وقت کتاب پڑھتے اور چُھٹیوں کی پلاننگ کرتے گُزرا۔ میڈرڈ ایئر پورٹ پہ اُترا تو یاد آیا کہ میں نے تو چیک ہی نہیں کیا. میڈرڈ سے قرطبہ کی ٹرین کہاں سے لینی ہے۔ سامان کا انتظار کرتے ہوئے جلدی سے گُوگل پہ چیک کیا۔ تو معلوم ہوا کہ مجھے پہلے میڈرڈ کے سٹیشن آتوچا جانا ہو گا اور وہاں سے قرطبہ کی ٹرین ملے گی۔ میرا خیال تھا کہ میڈرڈ ایئرپورٹ سے ڈاٹریکٹ ٹرین قرطبہ جاتی ہے۔ لیکن یہ خیال خام ثابت ہوا۔ کیونکہ ایئرپورٹ سے آتوچا تک بس پہ 30-40منٹ لگنے تھے۔ یہیں سے کاٹنے والے کتوں نے ہمارے اونٹ کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیا۔ اب ہمارے لیئے بھی اپنی ٹانگ بچانا مشکل تھا۔ لیکن ہم مستقبل قریب میں نازل ہونے والے ہر عذاب سے انجان و بے خبرتھے اور چُھٹی کی خوشیوں میں مگن بس سے باہر کے نظارے دیکھ رہے تھے۔ اور سپین آتے ہی فراغت کے میسر لمحات سے لطف اندوز ہونا شروع کر دیا۔ لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ ہونی تو ہو کے رہتی ہے۔ ہوا یوں کہ جب ہم ریلوے سٹیشن کے قریب آتوچا سٹاپ پہ اُترے۔ تو قرطبہ کی ٹرین چلنے میں صرف دس منٹ باقی تھے۔ چنانچہ ہم تیزی سے ٹکٹ مشین کی طرف لپکے ۔ اسی دوران ذھن میں خیال آیا کہ شاہ جی آپ نے کون سا نوکری پہ پہنچنا ہے جو یہی ٹرین لینی لازمی ہے۔ اس لیئے سٹریس نہ کریں جناب۔ ہم نے خود ہی اپنے آپ کو اتنی تکریم سے مخاطب کیا تھا۔ کہ انکار کی گُنجائش ہی نہیں بچی تھی۔ چنانچہ فیصلہ کیا کہ اس ٹرین پہ نہیں جانا۔ بلکہ جو ڈیڑھ گھنٹے بعد جائے گی اس پہ جایا جائے ۔ اور اس دوران ریلیکس ہو کے کھانا کھایا جائے۔ لیکن ساتھ ہی سوچا کہ پیٹ پوجا سے پہلے ٹکٹ خرید لی جائے۔ لہذا ہم نے پھر ٹکٹ مشین کا رُخ کیا۔ مشین نے پہلے تو ہمارے ساتھ اشتراکِ کار سے انکار کر دیا۔ شاید اسے ایک اتنا ریلیکس بندا اچھا نہیں لگا ہو گا۔ لیکن ہم نے بھی ہمت نہ ہاری۔ اور مشین کی بے رُخی اور بے نیازی کے باوجود ٹکٹ نکالنے کی کوشش کرتے رہے۔ اپنی اُفتادِ طبع کے باعث ہم دوسری مشین پہ نہ گئے۔ چلے جاتے تو شاید بچت ہو جاتی۔ لیکن ہم بھی بضد تھے۔ کہ ایک ہی مشین پہ قسمت آزمائے جانا ہے۔ آخرکار ہم نے سمجھا کہ مشین مہربان ہو گئی ہے۔ اس نے سکرین پہ میسیج دیا کہ کرائے کی ادائیگی کر دیں۔ ہم نے جھٹ سے کارڈ ڈالا اور کوڈ بھی ڈال دیا۔ سکرین پہ کارڈ کے شرفِ قبولیت کی سند آئی تو ہم نے فاتحانہ مسکراہٹ سے کارڈ مشین سے نکالا۔ کچھ لمحوں کے لیئے ہمیں لگا کہ جیسے ایک مسلمان نے غرناطہ دوبارہ فتح کر لیا ہو۔ لیکن خوشی کا نشہ چند لمحوں بعد ہی ہرن ہو گیا۔ جب مہارانی مشین نے پیسے نگلنے کے باوجود ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا۔ اونٹ پہ بیٹھے شاہ جی کو واقعی کُتے نے کاٹ لیا۔ مہارانی مشین نے 106 یورو کھا لیئے اور ڈکار بھی نہیں مارا۔ اور شاہ جی بے بسی کی تصویر بنے مہارانی مشین کو دیکھ رہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا۔ کہ مشین جیسے ہنسی اُڑا رہی ہو۔ اور کہہ رہی ہو” بڑے خوش خوش آئے سو شاہ جی۔ ہون پتہ لگا جے” ۔ ہمیں سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ کہ مشین مہارانی کے اک پردیسی کو اس طرح دیدہ دلیری سے لُوٹنے کا کیا علاج کیا جائے۔ اتنے میں ریلوے کا ایک ملازم نظر آیا۔ جس کی غالباً ڈیوٹی تھی۔ کہ وہ ہمارے جیسے مظلومینِ مشین کی داد رسی کرے۔ ہم نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اور اس شخص کو غیبی امداد سمجھتے ہوئے فوراً مدد کے لیئے پُکارا۔ پہلے تو اس خُدائی تحفے کو ہماری نارویجن زدہ انگریزی کی سمجھ نہ آئی ۔ پھر وہ اپنی سپینش زدہ انگریزی میں بولا۔ نو انگلش نو انگلش۔ ہمیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اب کیا کِیا جائے ۔ اتنے میں دور بیٹھی ایک خاتون نے صورت حال بھانپ لی اور قریب آ کے پوچھا کیا بات ہے۔ ہم نے اپنی نارویجن زدہ انگریزی کا خوب استعمال کیا ۔اور ایک ہی سانس میں مہارانی مشین کے ظُلم کی داستان سُنا دی۔ اُس نے کہا کہ نیچے گراؤنڈ فلور پہ کسٹمر سروس پہ جاؤ۔ ہم نے دوڑ لگائی ۔ لیکن کسٹمر سروس پہ رش کی وجہ سے ہمیں پندرہ بیس منٹ انتظار کرنا پڑا۔ خُدا خُدا کر کے جب باری آئی تو پتہ چلا کہ یہ کسٹمر سروس مقامی ٹریفک کے لیئے ہے۔ انٹر سٹی ٹرین کے لیئے کسٹمر سروس الگ ہے۔ دس پندرہ منٹ وہ ڈھونڈنے میں لگ گئے ۔ وہاں ایک لمبی قطار تھی جس میں ہم تقریباً بیس منٹ کھڑے رہے۔ البتہ وہاں موجود عملے نے تعاون کیا اور اپنے سسٹم میں چیک کر کے بتایا کہ ڈاکو مشین کوشش بسیار کے باوجود کارڈ سے پیسے نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ کیونکہ ٹکٹ جاری نہیں ہوا تھا۔ ہمارے بے قرار دِل کے لیئے یہ خبر باعثِ طمانیت تھی۔ کسٹمر سروس والے نے بتایا کہ ٹکٹ جاری نہ ہو تو پیسے نہیں کٹتے چاھے مشین پہ او کے لکھا ہوا آ جائے ۔ تب ہماری سانس میں سانس آ ئی۔ پھر سوچا کہ ایسی محبت سے ہم باز آئے۔ یہ مشین والا عشق دوبارہ نہیں کرنا۔ لہذا ہم ایک کاؤنٹر کے سامنے لائن حاضر ہو گئے۔ تقریباً 30 منٹ بعد ہماری باری آئی۔ تو آنے جانے کی ٹکٹ خرید کے یوں لگ رہا تھا۔ غرناطہ کے بعد اب قرطبہ پہ بھی ہمارا قبضہ ہو گیا ہے۔ اب ٹرین کے جانے میں چند منٹ ہی باقی تھے ۔ جس میں کھانے کے لیئے وقت نہیں تھا۔ ہم نے پانی کی ایک بوتل خریدی اور سوچا کہ ٹرین میں کھانے کی کوئی چیز لے لیں گے۔ کیونکہ دُکان پہ بھی رش تھا۔ لیکن شومئی قسمت کہ ٹرین میں کھانے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ شاہ صاحب نے سارا سفر بھوکے کاٹا۔ قرطبہ سٹیشن پہ اُتر کے ریسٹورنٹ تلاش کیا لیکن سب کچھ بند ہو چُکا تھا۔ اب آخری اُمید ہوٹل کا ریسٹورنٹ تھا۔ قرطبہ سٹیشن سے ہوٹل تک ٹیکسی والا ٹریفک اشارے دیکھے بغیر ایک ہی سپیڈ سے ٹیکسی چلا رہا تھا۔ میں نے اُسے کہا بھائی کوئی ٹریفک قانون شانون ہے یہاں۔ ؟ وہ کہنے لگا جی اس وقت کچھ نہیں ہوتا۔ میں نے سوچا ہو سکتا ہے اس نے اللہ تعالی’ سے کوئی معائدہ کر رکھا ہو کہ اس کا ایکسیڈنٹ نہیں ہو گا۔ لیکن میرا تو ایسا کوئی معائدہ نہیں۔ میں نے اسے کہا۔ کہ وہ گاڑی کو ہولے ہولے چلائے ۔ بھوک کے مارے بُرا حال ہے کہیں دِل کا جام چھلک ہی نہ جائے۔ بالآخر ہم ہوٹل پہنچ ہی گئے۔ ٹیکسی سے اُترتے ہوئے یوں احساس ہو رہا تھا جیسے ہم نے میراتھن جیت لی ہو۔ لیکن بھوک کے مارے پیٹ میں چوہے نہیں ہاتھی دوڑ رہے تھے۔
اور یوں ہماری چُھٹیوں کا آغاز ہوا۔
جاری ہے۔۔