آہ! بیچاروں کے اعصاب پہ۔۔۔

ممتاز میر

قرآن میں صرف مسلمانوں کے لئے نہیں پوری بنی نوع انسان کے لئے ہدایات ہیں ۔زندگی کے مسائل کے لئے رہنمائی ہے چاہے وہ اللہ کو مانیں یا نا مانیں۔یعنی اگر مسائل پیش آئیں تو مسلمانوں کا یا دنیا کے لوگوں کا مسائل کے حل کے لئے کیا طرز عمل ہونا چاہئے؟شاید بات کچھ لوگوں کی سمجھ میں نا آئے تو ہم مثال پیش کرتے ہیں۔ماحولیات کی تباہی فی الوقت پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔اور مسلمانوں نے اس کے لئے بڑے بڑے مقالے لکھ دیئے ہیں۔کیا یہ مقالے انہوں نے دل سے لکھے ہیں؟نہیں!مسلمانوں کی یہ اوقات نہیں کہ دل سے اتنے گمبھیر مسئلے کا حل پیش کر سکیں۔جو کچھ بھی لکھا گیا ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں ہی لکھا گیا ہے۔مگر دنیا میں کسی کو کوئی فرق نہیں پڑا۔مسئلہ ہر گزرتے دن کے ساتھ گہرا رہا ہے۔کیوں؟اسلئے کہ جو ماحولیات کو تباہ کر رہے ہیں وہ قولاً تو سدھرنے کے دعوے کرتے ہیں مگر عملًا وہ پہلے سے زیادہ بگاڑ پیدا کررہے ہیں۔بالکل یہی حال مسلمانوں کا بھی ہے۔قولاً تو قرآن و حدیث سے محبت کے دعوے کئے جاتے ہیں ۔عوام کو اس سے رہنمائی حاصل کرنے کی ہدایات دی جاتی ہے مگر عملًا اسے اٹھا کر طاق پر رکھ دیا گیا ہے۔وہ بھی سر سے اوپر والی نہیں سب سے اوپر والی طاق پر۔کیونکہ نمک مرچ شکر تو دن بھر لگنا ہے اور قرآن سال میں ایک بار ۔بلکہ کچھ گھرانوں میں تو مردے کو سنانے کے لئے ہی اتارا جاتا ہے۔
بات بہت لمبی ہو جائے گی اگر ہم یہاںقرآن و حدیث کی تمام ہی ہدایات کا ذکر کردیں۔فی الوقت صرف دو احادیث کا ذکر مناسب رہے گا۔ جو اب ہمارے موجودہ مسائل کے حل کے طور پر باقی بچی ہیں۔(۱)حضور ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کی دوبارہ اصلاح میرے طریقے پر چل کر ہی ہو سکے گی۔(۲)تمھارے علما اس زمین کی پیٹھ پر دنیا کی بدترین مخلوق ہونگے ۔سارے فتنے وہیں جنم لیں گے اور لوٹ کر وہیں آئیں گے ۔یہ دونوں احادیث ہم نے پڑھی ضرور ہیں مگر ہمارے لکھاریوں کے مضامین میں ،ہمارے ادبا شعرا اور مقررین کی گفتگو میں کہیں ان کا ذکر نہیں ہوتا۔ان دونوں احادیث کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے جیسے یہ ایک بوجھ ہوں (واقعتا یہ علما پر بوجھ تو ہیں) یا ان میں کوئی رہنمائی موجود نہ ہو ۔
یہ تمام باتیں ہمارے دماغ میں اس وقت بجلی کی طرح کوند گئیںجب ہم نے سوشل میڈیا پرمعروف صحافی اورسوشل ایکٹیوسٹ جناب سمیع اللہ خان کا ایک مضمون آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈکے مرثیے کے طور پر پڑھا ،ساتھ ہی علامہ کا یہ شعر بھی تھوڑی گڑبڑ(تصرف)کے ساتھ گونجا کہ ، ہند کے شاعر وصورت گرو افسانہ نویس ؍آہ !بے چاروں کے اعصاب پہ’’ملا ‘‘ ہے سوار۔ان کے مضمون کے ساتھ ہی پرسنل لابورڈ کا ہدایت نامہ بھی نظر نواز ہوا۔اس ہدایت نامے میں بورڈ کے جنرل سیکریٹری حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب ہدایت دے رہے ہیں کہ صورتحال بہت ہی نازک ہے (حجاب کے معاملے میں)اسلئے بورڈ کی میٹنگ میں یہ طے کیا گیا ہے کہ مسئلے کو سڑک پر لانے کی بجائے قانونی طریقہء کار اور گفت و شنید کے ذریعے حل کیا جائے ۔اپنے مضمون میں جناب سمیع اللہ خان نے سوال اٹھا یا ہے کہ پرسنل لاء بورڈ کو بھارت کی عدالتوں پر اتنا بھروسہ کیوں ہے؟جبکہ بورڈ کی قیادت اس غیر الہٰی بھروسے پر منہ کی کھا چکی ہے۔ہم مزید اور یاددلادیں کہ بورڈ کی قیادت مسلم پرسنل لاء کے معاملے میں بھی جوکہ اس کا مقصد قیام تھا منہ کی کھا چکی ہے۔مگر اس کے باوجود ہمیں شکایت مسلم پرسنل لاء بورڈ یا اس کے کسی بھی رکن سے نہیں ہے ۔بلکہ سمیع اللہ خانصاحب سے ہے۔وہ شکایت کیا ہے اس پر ہم بعد میں گفتگو کریں گے پہلے ہم مسئلہء حجاب پر قانونی کارروائی پر بات کرتے ہیں۔مسئلہء حجاب پر خود مسلمانوں کو مکمل یکسوئی حاصل نہیں ہے ۔حجاب خود قرآن سے پوری طرح واضح نہیں ہوتا کہ کیسا اور کتنا حجاب کیا جانا چاہئے ۔اور اس کی وجہ بھی ہے ۔اسلام کسی ایک قوم کسی ایک خطے یا طبقے کے لئے نہیں آیا ہے ۔ اسی لئے اللہ نے اپنی طرف سے کوئی ’’حجاب کوڈ‘‘ نہیں تھوپا۔بلکہ مقصدیا کیا چاہئے بتاکر چھوڑ دیا ہے۔ہاں احادیث ضرور وضاحت کرتی ہیں۔مگر انھیں احادیث سے اختلاف بھی پیدا ہوتا ۔اور دو موقف سامنے آتے ہیں جس کی بنا پر مسلمانوں میں بھی دو گروپ بن گئے ہیں۔ ایک گروپ چہرے کو چھپانے پر سختی سے کاربند ہے تو دوسرے گروپ نے چہرے کو کھلا رکھنے کے نام پر عملًا حجاب ہی کی نفی کردی ہے ۔ اب گورے گورے گالوں کو چھپانے کی بجائے کالے کالے بالوں کے گرد کپڑے کے ایک ٹکڑے کو لپیٹ لینے کو بھی حجاب ہی سمجھا جارہا ہے ۔ کیونکہ لباس باقی کا جسم تو ڈھانک ہی لیتا ہے۔آپ کے مسئلہء حجاب کی عملی صورتحال یہ ہے اور وہ بھی اس وقت جب غیر مسلم خواتین بہت ہی سخت قسم کا حجاب کر رہی ہیں جنھیں دیکھ کر ہم سوچتے ہیں کاش ہماری خواتین میں بھی اتنی حیا پیدا ہوجائے۔اسکے باوجود ہمارادوسرا گروپ اپنی رووش پر قائم ہے ۔یہ کورٹ میں پیش ہونے والے ہمارے وکلاء کو دیکھنا چاہئے کہ وہ غیر مسلم خواتین کے اس پردے سے کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔اب آئیے بابری مسجد کی طرف ۔بابری مسجد کا معاملہ تو مسلمانوں میں کبھی بھی کہیں بھی اختلافی نہیں رہا۔ہندؤوں میں بھی شر پسند گروہ کو چھوڑ کرکسی نے بابری مسجد کو رام مندر نہیں سمجھا۔یہ معاملہ ہمیشہ آئینے کی طرح صاف رہا۔یہاں تک کے مسلمانوں کے خلاف فیصلہ دینے والے جج بھی اس جگہ کو رام مندر نہ کہہ سکے ۔ انھوں نے بابری مسجد شہید کرنے والے شر پسندوں کو مجرم بھی گردانا۔مگر فیصلہ دیتے وقت ان کی ہمت جواب دے گئی۔گو کہ فیصلہ لکھتے وقت جو اشارے ان کے لئے ممکن تھے انھوں نے درج کئے بس آخر میں ڈنڈی ماردی۔اب سوچئے کہ آئینے کی طرح صاف معاملے میں یہ ہو سکتا ہے تووہ معاملہ جو خود مسلمانوں کے درمیان اختلافی ہو اس کا کیا حشر ہوگا؟اور ہمارے علما واضح اشارات کے باوجود کوئی بین الاقوامی تحریک کھڑی نہ کرپائے تو اب کیا کریں گے ۔
اب آئیے سمیع اللہ خان صاحب کی طرف ۔ہر دوسرے تیسرے روز ان کی کوئی نہ کوئی تحریر نظر سے گزرتی ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ خانصاحب بہت پڑھے لکھے ،صاحب مطالعہ اور ملت کے درد میں ڈوبے شخص ہیں۔مگر معلوم نہیں آجکل کے لوگوں کو کیا ہوگیا کہ ان میں ملت کے درد کا سمندر تو ٹھاٹھیں مارتا ہے دین کے درد کا نالہ خشک ہو گیا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ اب ہمارے دانشوروں کو اسلام ناکافی لگتا ہے۔ہمیں لگتا تو یہی ہے کہ خانصاحب کو یہ معلوم تو ہوگامسلم بچوں کا جو ۴فیصد کچرابچتا ہے اسے مدرسوں میں جھونک دیا جاتا ہے۔یہ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ وہی بچہ جب گروہ علما میں شامل ہو جاتا ہے تو مسلمانوں کے سر کا تاج بن جاتا ہے ۔پھر یہ رونا دھونا کیوں؟ہم خانصاحب سے جو حسن ظن رکھتے ہیں اس کے سبب یہ ممکن نہیں لگتا کہ انھوں نے درج بالا احادیث پڑھی نہ ہوں گی۔پڑھی تو ہوں گی مگر عام لوگوں کی طرح وہ بھی ان احادیث کو موجودہ زمانے کے لئے غیر متعلقirrelevant سمجھتے ہیں ۔جبکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان احادیث پر عمل کرکے ہی قوم کی حالت بدلے گی چاہے ہزار سال لگ جائیں۔دوسرا کوئی شارٹ کٹ راستہ قوم کی حالت میں مثبت تبدیلی نہیں لا پائے گا۔مگر مسئلہ ہے صبر کا ۔ چونکہ اس طرح نتائج ہم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ پائیں گے اسلئے ایسے راستے پر چلنے کا فائدہ ۔فائدہ تو ہے بلکہ بہت بڑا فائدہ ہے مگر دنیا پرستوں کو نظر نہیں آتا۔وہ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ کی دنیا بھلے ہی ناکام ہو جائے آخرت یقینا کامیاب ہو جائے گی۔اور جناب ! ہمارے پاس تو بڑی بڑی مثالیں ہیں ۔بس ایک ہی سب سے بڑی مثال دیتے ہیں۔حضرت نوح کو ۹۵۰ سال دعوت و تبلیغ کا کام کرنے کے بعد بھی کامیابی ہاتھ نہ آئی تھی ۔تو کیا حضرت نوح ناکام تھے؟برادر محترم ! جس طرح آج قرآن و حدیث کی رہنمائی کو irrelevant سمجھا جا رہا ہے بالکل اسی طرح ابھی سو سال پہلے اسلامی نظام کو بھی موجودہ زمانے کے لئے غیر متعلق سمجھا جاتا تھا ۔کیا اپنے کیا غیرسب یہ سمجھتے تھے کہ اب اسلام کی بنیاد پر کوئی حکومت نہیں چلائی جا سکتی ۔گو کہ اس وقت بڑے بڑے عالم موجود تھے ۔امام الہند تھے ،شیخ الاسلام تھے مگر مودودی نام کے ایک بچے نے اسلام کو اس دنیا کے لئے انتہائی متعلق بنا کر دکھا دیا۔یہ مولانا مودودی کی کتنی بڑی خوش قسمتی ہے کہ امام الہند اور شیخ الاسلام کے چاہنے والے آج بھی مولانا مودودیؒ کو علما میں نہیں گنتے۔آج وہی قومیں جو کل تک اسلام کو موجودہ زمانے کے لئے ناممکن سمجھتی تھیںآج اسلام کوکسی حال اقتدار دینا نہیں چاہتیں۔نا بیلٹ سے نا بلٹ سے۔
اس دنیا میں تھڑدلے،بزدل ،ناکارہ نامرد لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ایسے لوگوں کے لئے شاعر کہتا ہے۔قبل آغاز ہی انجام کا ڈر ہوتا ہے ؍دور اندیش بڑا تنگ نظر ہوتا ہے۔گذشتہ ۴؍۵ دہائیوں میں جن لوگوں نے ناممکن کو ممکن بنتا دیکھا ہے وہ بھی جنگل میں جا کر رہنے کو یا حضور ﷺ کے طریقے پر چل کر دوبارہ اصلاح کو نا ممکن سمجھتے ہیں ۔وہ سمجھتے ہیں کہ ہزار نا سہی سو سال تو لگ ہی جائیں گے ۔اور اتنا وقت کس کے پاس ہے ۔مگر فتح بہرحال انھیں ملتی ہے جو اتنے دور اندیش نہ ہوں۔جب افغانستان پر روس نے حملہ کیاتو عام طور عام لوگ نہیں خاص لوگ ، یہاں تک کہ امریکی مراکز دانش تک یہ کہہ رہے تھے روس واپس جانے کے لئے کہیں نہیں جاتا۔مگر روس ذلیل و خوار ہو کر واپس گیا ۔ پھر امریکہ کو طالبان سے دو دو ہاتھ کرنے کا شوق چرایا۔اس وقت بھی دور اندیش بڑے بڑے دعوے کررہے تھے ۔اور طالبان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس گھڑی ہے اور ہمارے پاس وقت ۔چلئے اسے چھوڑیئے ۔یہ تو مردوںکی باتیں ہیں۔خواتین کی طرف آئیے۔ابھی کل ہی کی بات ہے۔شاہین باغ کس نے برپا کیا تھا؟حجاب کو لمحوں میں بین الاقوامی شناسائی کس نے دلائی؟شر پسندوں کی بے قابو بھیڑ کے سامنے کلمہء حق کس نے ادا کیا؟پوری ملت اسلامیہ مرحومہ سے پوچھا جائے کہ کیا ہمارا کوئی عالم دین ایسا کرپاتا؟ہم اس سے پہلے بھی لکھ چکے ہیں ہم مدرسوں میں پڑھے مسلکی علم حاصل کرنے والے کو عالم دین نہیں سمجھتے۔وہ جو دین اور دنیا دونوں کا علم رکھتا ہو وہ ہمارے نزدیک عالم دین ہے چاہے مدرسے میں پڑھا ہو یاناپڑھا ہو۔مسلمانوں کو اب نئے علما ڈھونڈنا چاہئے۔ہمارے یہ فرسودہ علما نا جیل جا سکتے ہیںنا سینے پر گولی کھا سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔7697376137

اپنا تبصرہ لکھیں