شاہد جمیل اوسلو
ناروے
پچھلے دنوں فیس بک پر مجھے اپنی ایک تصویر لگانے کا موقع ملا۔تصویر تو کچھ عام سی تھی اور شائید اسکا پیغام بھی کچھ پرانا سا لگ رہا تھا۔لیکن اس کے باوجود لوگوں نے تو جیسے طوفان کھڑا کر دیا۔پہلے پہل تو مجھے کچھ سمجھ نہ آئی کہ آخر ماجرا کیا ہے۔؟کیونکہ تصویرکے نیچے کمینٹ سیکشن میں لوگوں نے عجیب و غریب خیالات کا اظہار کیا ہوا تھا۔کچھ کی بحث شروع ہو گئی اور چند ایک میرے پیچھے بھی پڑ گئے۔میں نے بہت حیرانگی اور باریکی سے سوچنا شروع کیا کہ آخر مجھ سے ایسی کون سی غلطی سرزد ہو گئی ہے کہ میرے جاننے والوں نے کمال خیالات سے میری اور میرے پیغام کی اچھی خاصی دھنائی کر دی ہے۔اس تصویر کا پیغام تھا نیا پاکستان!!
نیا پاکستان کا نعرہ سب سے پہلے عمراں خان نے 2013 کے الیکشن میں متعارف کرایا تھا۔اس ملک میں سینکڑوں ہزاروںکی تعداد میں سیاستدان بستے ہیںجو سب اکثریت اپنے بزرگوں کی لگی لگائی اور سجی سجائی دوکانوں کے مالک ہیں۔لیکن کتنی ستم ظریفی کی بات ہے کہ ان سیاستدانوں کے منہ سے میں نے کبھی نیا پاکستان یا اس سے ملتا جلتا کوئی پیغام نہیں سنا۔اس کے باوجود یہ سب محب وطن اور سچّے پاکستانی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔اس پر اگر کوئی نئے پاکستان کانعرہ لگا کر نو جوانوں کے دلوں میں پیار و محبت امن اور پاکستان کے مستقبل کے لی ے محبت کا جذبہ اجاگر کرتا ہے تو ایسے شخص کے متوالوں پر فقرے بازی اور طعن و تشنیع کے تیر چلائے جاتے ہیں۔
پاکستان میری جان ہے میری عزت میرا مان اور میرا سب کچھ ہے۔پاکستان ہے تو میں ہوں۔ میری رگ رگ میںپاکستانیت لہو بن کر بہتی ہے۔نیا پاکستان پر تنقید ایک طرف رہی یہاں تو سرعام واشگاف الفاظ میں تذلیل کر دی جاتی ہے اور میں اس بات کا خود گواہ ہوناور اس کی شدید مذمت کرتا ہوں ۔میں مانتا ہوں کہ پاکستان کے حالات بہت خراب ہیں۔وہاں قانون کی دھجیاں خود قانون کے رکھوالے بکھیرتے ہیں۔جہاں ملاوٹ کرنے والے سر عام اپنا کام کرتے ہیں۔جہاں عوام کو تعلیم صحت اور صفائی کی سہولیات ہی میسر نہیںہیں۔جہاں ظلم و تشدد اور دہشت گردی نے ملک کے کونے کونے میں تباہی مچا رکھی ہے۔جہاں یہ نام نہاد سیاستدان اپنے جبڑے اور چونچیں کھولے ہوئے اپنے اپنے دانت تیز کیے ہوئے اس ملک کے جسم سے بوٹیاں نوچ نوچ کے کھا رہے ہیں۔
لیکن اس کے باوجود یہ میرا ملک ہے۔مجھے اس سے بے انتہا پیار ہے۔اگر کسی کے گھر کو آگ لگ جائے تب بھی وہ اپنے گھر ک چھوڑ کر بھاگ نہیں سکتا۔بلکہ وہ اپنے گھر کی آگ کو بجھانے کی ،اپنے گھر کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔یا یوں کہ لیجیے خدا نہ کرے کسی کا بازو ٹوٹ جائے تو وہ اپنا بازو کاٹ کر پھینک نہیں دیتا ۔بلکہ وہ اسے مرمت کرا کے اپنے ہی گلے کے ساتھ اسے باندھ لیتا ہے۔یہاں بھی یہی مثال صادر آتی ہے۔ہم وطن پرست لوگ نہ تو اس سے بھاگ سکتے ہیں اور نہ ہی اس کا کوئی حصہ کاٹ سکتے ہیں۔یہ وطن ہماری جان ہے ہماری پہچان ہے۔ یہ ملک ہمارے بزرگوں کی امانت اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کا امین ہے۔
ہمیں آج خود سے یہ وعدہ کرنا ہو گا کہ ہم سب اپنے اپنے حصے کا دیا ضرور جلائیں گے۔دوسری جنگ عظیم میں جرمنی دوسرے ممالک کا مقروض ہو گیا تھا۔لیکن وہ آج دنیا کے چند انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے۔کیونکہ وہاں کے لوگوں نے اپنے وطن سے محبت کا حق ادا کر یا ہے اور اپنے اپنے حصے کا کام کیا ہے۔
ہمیں ہ سوچ اپنانی ہو گی کہ ہم نے اپنے ملک کو کیا دیا ہے؟بجائے یہ سوچنے کے کہ ہمیں اس ملک سے کیا ملا؟یہ سوچنا ہو گا کہ ہم نے اس ملک کے لیے کیا کیا ہے؟آج ہمارا ملک جس پریشانی اور مشکل سے گزر رہا ہیاس سے نکلنے کا بہترین طریقہ اپنے وطن سے پیار محبت دیانتداری اور بغیر لالچ کے کام کرنے جیسے زریں اصولوں پر ہی عمل ہے۔
آج یہ سطریں لکھتے ہوئے میرے ہاتھ لرز رہے ہیںاور آنکھوں میں نمی ہے۔میرے ان چند ٹوٹے پھوٹے فقروں سے کسی کے دل میںیہ بات اتر جائے تو میں یہ سمجھوں گا کہ میں نے اپنا حق ادا کر دیا ہے۔مولا کریم میرے وطن کو ہر میلی نگاہ سے بچائے اور اس میں بسنے والوں کے دلوں میں پیارو محبت کے ننھے سے پودے کو بھر پور و توانا تنا اور شجر سایہ دار بنا دے آمین!!
خدا کرے کہ میری یہ ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل، جسے اندیشہء زوال نہ ہو