راجہ محمد عتیق افسر
اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات قرطبہ یونیورسٹی پشاور
03005930098, attiqueafsar@yahoo.com
آج ہمیں یہ گمان ہے کہ ہم آزاد ہیں اور ایک مہذب دنیا میں رہتے ہیں ۔ حقائق کی پردہ پوشی نہیں ہو سکتی کیونکہ میڈیا آزادبھی ہے اور متحرک بھی ۔ مظلوم کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا کیونکہ جمہوری حکومتیں آزادیٔ رائے کا حق دیتی ہیں ۔عدالتیں آزادانہ فیصلوں کے ذریعے جرائم کا حساب لیتی ہیں۔اور یہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی ایسے ادارے موجود ہیں جو قومی اور ملکی سطح پہ ہونے والے ظلم اور نا انصافی کا تدارک کر سکیں ۔ لیکن اسی مہذب دنیا کا وہ حصہ جو اس وقت بھارت کے نا جائز قبضے میں ہے وہاں صورت حال بالکل مختلف ہے۔ ریاست جموں و کشمیر میں ہر جانب اسلحے سے لیس بھارتی فوجی درندگی کی تصویر بنے گھوم رہے ہیں ،گھر جل رہے ہیں ، آنچل سنگینوں میں اٹے ہیں ، نوجوانون کو جیلوں میں قید کیا جا رہا ہے اور بے گناہوں کے خون سے سڑکیں رنگین ہیں، پلٹ گن کے فائر روزانہ سیکڑوں افراد کو معذور کیے دیتے ہیں ، اس پہ مستزاد تقریر ، تحریر اور اظہار کے تمام ذرائع پہ پابندی ہے ۔ مظلوم کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہو رہی ہے ۔ اور عالمی ضمیر ہے کہ برسوں سے جنجھوڑے جانے کے باوجود بھی بیداری کا نام ہی نہیں لیتا ۔
کشمیر کا مسئلہ اُس وقت اقوام متحدہ میں گیا تھا جب جنگ عظیم دوئم کی لگی آگ کی چنگاریاں ابھی پوری طرح ٹھنڈی بھی نہ ہوئی تھیں ۔ جنگ عظیم کے دوران جرمن فوجوں کی جانب سے یہودیوں کے قتل عام کو ایک عظیم المیہ قرار دیا گیا اور اسی کی آڑ میں یہودی ریاست کے قیام کے لیے عالمی برادری کی حمایت سمیٹی گئی ۔ اسرائیلی ریاست کا قیام ناگزیر گردانا گیا اور پوری دنیا میں منتشر قوم کو لا کر ارض فلسطین میں بسایا گیا پھر یہاں کے مقامی عربوں کو بے دخل کر کے یہاں ایک ناجائز یہودی ریاست کی بنا رکھی گئی ۔ جنگ عظیم میں یہود کا قتل عام بلا شبہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس سے انکار کی گنجائش نہیں لیکن اس قتل کے اعداد و شمار ایک مبالغہ تھے جس پر تحقیق کرنے کی آج تک اجازت نہیں ہے ۔ایک مفروضے کی بنیاد پر عالمی رائے عامہ نے اسرائیل کے قیام کو ناگزیر قرار دیا اور 1948 میں فلسطین کی سرزمین پہ اسرائیل نامی ایک ناجائز ریاست قائم کر دی گئی۔ اور دنیا کی بڑی طاقتوں نے اسے تسلیم بھی کر لیا ۔عالمی ضمیر نے ظالم کو مظلوم بنا کر اس کی حمایت بھی کی اور مظلوم فلسطینیوں کی آواز ِحق کو دبا ڈالنے میں کوئی کسر بھی اٹھا نہ رکھی ۔
حیرت اس امر پہ ہے کہ 1947 میں اسی وقت ریاست جموں و کشمیر میں قتل ِعام کیا گیا اور جموں میں لاکھوں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا گیا ۔ یہ قتل عام اتنا سنگین تھا کہ اس نے جموں کی آبادی کا تناسب ہی بدل ڈالا ۔ مسلم اکثریت کو مسلم اقلیت میں بدل ڈالا گیا ۔ یہ کوئی معمولی بات نہ تھی ۔ انسانیت کی دھجیاں اڑائی گئیں لیکن عالمی ضمیر بےپروائی کی چادر تانے خواب خرگوش کے مزے لوٹتا رہا اور پھر یکبارگی کیا قیامت آن پڑی کہ 1948 میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے انسانیت کا سہارا لیا گیا۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہکشمیر میں ہونے والے قتل عام کو اقوام عالم کے رو برو پیش کرتے وقت ہمارے وکلاء اور نمائندوں نے اسے انسانی المیے کے طور پر پیش ہی نہیں کیا ۔ بلکہ حق خود ارادیت کا مقدمہ بنا کر پیش کیا گیا جسے تسلیم تو کر لیا گیا لیکن یہ حق دیا نہیں گیا ۔ جو انسانیت کی کم سے کم حد کو بھی پامال کرچکے ہوں اُن سے کس حق کی ادائیگی کی توقع کی جا سکتی تھی ۔ بقول نسیم حجازی مرحوم ” بھیڑ کے بچے کی ممناہٹ سے بھیڑیا متاثر نہیں ہوتا لیکن شیر کے طاقتور پنجے کا وہ احترام کرتا ہے” ۔
عالمی ضمیر نے اس وقت بھی بے اعتنائی برتی جب بوسنیا میں قتل عام برپا تھا ، عالمی ضمیر اس وقت بھی خاموش رہا جب کوسوو کے مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا جا رہا تھا یہ عالمی ضمیر اس وقت بھی بیدار نہ ہوا جب برما کے روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ۔ یہ عالمی ضمیر اس وقت بھی بیدار نہ ہوا جب شام میں بے گناہوں پہ بمباری کر کے رقص ابلیس برپا کیا گیا ۔لیکن لسی پی کر سوجانے والا عالمی ضمیر نجانے کیوں بیدار ہوگیا جب امریکہ کو عراق پہ حملے کی ضرورت پڑی ۔ یہ نا ہنجار اس وقت بھی جاگ اٹھا جب امریکہ کو افغانستان پہ حملے کی ضرورت آن پڑی ، اس عالمی ضمیر کی نیند اس وقت بھی ٹوٹ گئی جب مسلم اکثریت کے ملک انڈونیشیا میں مشرقی تیمور کی ریاست بنانے کی بات ہوئی ۔یہ بختوںکا مارا اس وقت بھی ہڑبڑا کر اٹھا جب سوڈان کے جنوب میں دارفور کی ریاست قائم کرنے کی صدا لگائی گئی ۔ عالمی ضمیر کی نیند میں اس وقت خلل دیکھا گیا جب جب کسی غیر مسلم قوم کو مسلم آبادی پہ حملہ کر کے لاکھوں افراد کو لقمہ اجل بنانے کا حق دینا ہو یا مسلم اکثریت سے غیر مسلم اقلیت کو آزاد کرانا ہو ۔ گویا یہ عالمی ضمیر نہیں بلکہ عالمی صیہونیت کا نفس عمارہ ہے جو انہی کے ایجنڈے ااور خواہشات کا غلام ہے ۔ یہ عالمی ضمیر جب بھی بیدار ہوا ہے اسنے بھیڑیے کو بھیڑ ثابت کر کے درندگی کو جواز عنایت کیا ہے ۔
عالمی برادری کے کردار کو ایک طرف رکھیں تو دوسری جانب کشمیر کےمقدمے کو شاید ہم نے لڑنے میں ہی غلطی سے کام لیا ہے ۔ اسے ہم نے اقوام عالم کے سامنے صحیح انداز میں پیش ہی نہیں کیا ۔کشمیر پہ ہمارے موقف نے یہ تاثر پیدا کیا ہے کہ یہ پاکستان اور بھارت کے مابین سرحدی تنازعہ ہے ۔ کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا اور علاقے کو استصواب تک متنازعہ مانا گیا لیکن اسکے بعد دونوں ملکوں نے باہم مذاکرات کر کے ریاست کے بارے میں اصولی موقف کو کمزور کیا ۔ صرف یہی نہیں بلکہ دونوں اطراف سے کشمیر کی متنازعہ حیثیت کی خلاف ورزی کی گئی ۔ مسئلہ کشمیر کی مسلم اکثریت کی بقا کا ہے اسے نہ تو صحیح معنوںمیں اٹھایاگیا نہ اپنے ہی موقف پہ ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا گیا۔کشمیر کے مسئلے کو کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کے لیے استصواب رائے پہ اتفاق ہوا تھا لیکن دو طرفہ مذاکرات کر کے ان کی امنگوں کے بر خلاف فیصلے کیے گئے ۔دوسری جانب اس مسئلے کو بزور قوت حل کرنے کے بھی کئی مواقع ہمیں قدرت نے عنایت کیے لیکن ہم نے گرم لوہے پہ ضرب کاری لگانے کے بجائے وہ قیمتی مواقع بھی ضائع کر دیے ۔
ریاست جموں و کشمیر کا مسئلہ محض دو ممالک کے درمیان سرحدی تنازعے کا نہیں بلکہ ریاست جموں و کشمیر کی مسلم اکثریت کی بقا اور سالمیت کا ہے۔دنیا کے دیگر خطوں میں اکثریت نے اقلیتوں کو دبانے کی کوشش کی ہے لیکن کشمیر کے معاملے میں کہانی کچھ الٹ ہے ۔ اس وقت کی ڈوگرہ حکومت جو کشمیر کی اقلیت کی نمائندہ حکومت تھی نے جبر اور استبداد کے بل پر مسلم اکثریت کو نہ صرف دبانے بلکہ اسے ختم کرنے کی کوشش کی اور اس کے ان ناپاک عزائم کو بھارت سرکار آگے بڑھا رہی ہے ۔2019 میں بھارت کی جانب سے کشمیر کے حوالے سے کی گئی قانون سازی نے کشمیر مین ہندو انتہاء پسندی کو قانونی جواز دے کر قتل عام کا راستہ ہموار کر دیا ہے ۔اس نازک موڑ پر امت مسلمہ کے کردار کی اشد ضرورت ہے لیکن ایک طرف تو امت خوابیدہ شیر کی مانند ہے اور دوسری جانب امت کےمقتدر طبقے نے امت کا درد محسوس ہی کب کیا ہے۔امت کے ایک بڑے حصے نے کشمیر کو تر نوالے کی طرح بھارتی بھیڑیوں کے سپرد کر دیا ہے اور خود تماشائی بنے بیٹھے ہیں ۔ امت کی خاموشی از خود ایک بڑا جرم ہے لیکن یہی نہیں کچھ مسلم ممالک کی جانب سےبھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں چڑھانا کشمیری عوام کے زخموں پہ نمک پاشی کے مترادف ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بنیادی فریق کشمیری عوام ہی ہیں ۔ کوئی بھی حل ان کی مرضی کے بغیر ناقابل قبول ہوگا۔اس لیے کشمیر کے مسلمانوں کو از خود تحریک آزادی کے لیے کردار ادا کرنا ہو گا ۔ یہاں دو راستے نکلتے ہیں ایک یہ کہ کشمیری قومیت کی بنیاد پر مسئلے کو اٹھایا جائے اور سیکولر اور لبرل بنیادوں پہ اس مسئلے کو پیش کیا جائے ۔اس طرح عالمی برادری اس مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھے گی اور کوئی اقدام اٹھائے گی ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کشمیری عوام ازخود تحریک مزاحمت برپا کریں اور اس کی حمایت کے لیے امت مسلمہ میں ایک جاندار سفارتکاری کریں اور پوری امت سے اپنی پشت پناہی کے لیے تعاون حاصل کریں ۔ مسلم ممالک کا دباؤ عالمی برادری اور بھارت کو راہ راست پہ لے آئے ۔
جہاں تک تعلق ہے سیکولر اور لبرل خطوط پہ کشمیری قومیت کو بنیاد بنا کر اس مسئلے کو پیس کرنے کا تو اس طریق کار میں جان نہیں ہے ۔مسئلہ الحاق کشمیر کا ہے تو بھارت تو دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریہ ہے ۔ ایک سیکولر ریاست کے قیام کے لیے ایک سیکولر اور جمہوری ریاست سے علیحدگی کا کوئی جواز بنتا نہیں ہے ، قومیت کی بنیاد پہ اٹھائی جانے والی اس تحریک کے پاس کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہوگی اور یہ خود بخود تحلیل ہو جائے گی ۔سیکولرازم اور لبرل ازم ایسا کوئی محرک نہیں جس کے لیے لوگ جانی و مالی قربانی اور ایثار کا مظاہرہ کریں ۔ اگر کچھ لوگ اس کی بنیادوں کو تاریخ کے تناظرمیں تلاش کر رہے ہیں ۔ ان کے خیال میں تاریخی طور پہ کشمیر ہندوستان کا کبھی بھی حصہ نہیں رہا اس لیے اسے ایک الگ ریاست ہی ہونا چاہیے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں کشمیر کی جغرافیائی حیثیت بھی بدلتی رہی ہے آخر کس تاریخ کو بنیاد بنا کر اس جغرافیے کی آزادی کا مطالبہ کیا جائے ۔ پونچھ ، راجوری وغیرہ پہلے خودمختار ریاستیں تھیں اگر تاریخی حیثیت کو تسلیم کیا جائے تو ان ریاستوں کو بھی مستقل ریاستیں ہی ہونا چاہیے ۔ موجودہ دور میں کشمیری قوم پرستوں نے ڈوگرہ راج کو مرکز ومحور گردان کر اس تحریک کو پروان چڑھانے کی کوشش بھی شروع کر رکھی ہے ۔ اگر ڈوگرہ حکومت کو کشمیر کا اصل وارث مان لیا جائے تو جو قتل عام ہوا وہ تو ڈوگرہ حکومت نے ہی کروایا اور جو تحریک آزادی اٹھی تھی وہ ڈوگرہ حکومت کے خلاف ہی اٹھی تھی اور پھر بھارت سے الحاق کا جو ڈھونگ رچایا گیا وہ ڈوگرا مہاراجہ ہری سنکھ نے ہی رچایا تھا ۔ اس صورت میں تو کشمیر کی تحریک آزادی کا جواز بالکل ہی کالعدم ہو جاتا ہے ۔ دوسرا یہ کہ ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑے گئے ہیں ان کا شکار صرف کشمیری مسلمان ہی ہوئے ہیں ۔ کشمیری ہندوؤں کا نہ تو قتل عام ہوا ہے نہ ہی ان کے ساتھ ظلم کا برتاؤ ہوا ۔ یہ امتیازی سلوک کشمیر کی مسلم اکثریت کے ساتھ برتا گیا ہے ۔ تحریک آزادی بھی مسلمانوں نے ہی شروع کی ، قربانیاں بھی مسلم آبادی نے دیں اور ان کی مدد کے لیے ریاست سوات کی جانب سے سے قبائلی لشکر اور پنجاب سے سکاؤٹ بھی آئے ۔ ان سب کی بنیاد کشمیری قومیت نہیں بلکہ مسلم بھائی چارہ ہے ۔
دوسرا راستہ یہ ہے کہ مسلمانان کشمیر خود کو امت مسلمہ کا جزو سمجھتے ہوئے اپنی بقا کی تگ و دو کریں۔ جب غاصب قوم سے آزادی کے لیے اجتماعی غیرت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے تو تصادم اور جنگ لازمی ہے ۔اور جب معاملہ فنا اور بقا کا ہو تو اپنی بقاکی جنگ لا محالہ لڑنا ہی پڑتی ہے۔اس راستے میں کامیابی اور ناکامی کا دار و مدار اس تحریک کے تسلسل سے جاری رہنے پہ ہے ۔ کشمیری مسلمانوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ آزادی کی تحریک محض ایک وقتی جوش کے نتیجے میں کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچتی بلکہ اس کے لیے قربانیوں کی داستان رقم کرانا پڑتی ہے ۔ کشمیری مسلمانوں نے اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے یہ تحریک برپا کی ہے اور اس کی خاطر وہ جان ہتھیلی پہ لے کر نکلے ہیں ۔ انہوں نے زبان کا استعمال بھی کیا ہے تحریر و تقریر کا راستہ بھی اپنایا ہے ، احتجاج بھی کیے ہیں ، ظلم برداشت بھی کیے ہیں ، ہجرت بھی کی ہے اور بھارتی فوج کے خلاف مسلح جدو جہد بھی کی ہے ۔مسلم اکثریت ہونے کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ کشمیر کا تعلق ایسے ہی ہے جیسے جسم کے ساتھ دھڑکتے دل کا ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دہائیاں گزرنے کے باوجود کشمیری عوام کے دلوں سے پاکستان کی محبت کو کھرچ کر نکالا نہیں جا سکا۔ کشمیر میں اٹھنے والی تحریک آزادی کی چنگاری اب شعلہ بن چکی ہے اور یہ کسی آتش فشاں کے پھٹنے کا سندیسہ دے رہی ہے ۔ اس وقت ملت اسلامیہ کشمیر کی امیدوں کا واحد مرکز اس وقت صرف پاکستان ہے جو اس مسئلے کا بنیادی فریق بھی ہے ۔ پاکستانی عوام نے ہر موقع پر کشمیر سے یکجہتی کا ثبوت دیا ہے اور دنیا کو باور کرایا ہے کہ پاکستانی عوام اپنے کشمیری بھائیوں کی پشت پہ کھڑے ہیں ۔ریاست پاکستان کی فوج اور حکومت دونوں کی جانب سے کشمیریوں کی بھرپور امداد اور خون کے آخری قطرے تک لڑنے کا پیغام دیا جاتا ہے ۔ لیکن محض تقریریں کر کے کشمیر کے زخموںپہ مرحم نہیں رکھا جا سکتا مسئلہ کشمیر کا دیر پا حل کچھ ٹھوس اورعملی اقدامات کا متقاضی ہے ۔ ماضی میں پاکستان کی جانب سے کشمیری عوام کا بھرپور ساتھ دیا گیا اور قومی غیرت کا بھرپور مظاہرہ کیا گیا لیکن قدرت کی جانب سے آزادیٔ کشمیر کے کئی مواقع ملنے کے باوجودہم نے فائدہ اٹھاتے ہوئے بروقت اور دانشمندانہ فیصلہ نہ کیا ۔اب ایک طویل عرصہ کے بعد قسمت ہمیں دعوت دے رہی ہے۔
کشمیر کا مسئلہ پاکستان کے لیے بقا کا مسئلہ ہے اس لیے اس آتش نمرود میں کودنا ہی ہوگا۔ اگر ہم نے کشمیری عوام کو مٹ جانے دیا اور ان کی امداد کا یہ موقع ضائع کیا تو گردش ایام ہمیں بڑے حادثات و سانحات کا شکار کر دےگی اور ہم اپنی تباہی و بربادی کا ماتم بھی نہ کر پائیں گے ۔گزشتہ ادوار پہ ماتم کناں ہونے کے بجائے ہمیں اس وقت سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے ۔قومی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے درست فیصلے کرنا ہوں گے۔ ہمیں آگے بڑھ کر ان کی پشتیبانی کرنے کی ضرورت ہے ۔ہمیں دنیا کو باور کرانا ہوگا کہ کشمیر میں لڑنے والے دہشت گرد نہیں بلکہ آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔کشمیر سے آنے والے مہاجرین و مجاہدین کے ساتھ انصار مدینہ والا سلوک کرنا ہوگا ۔اور انہیں یہ احساس دلانا ہوگا کہ آپ اکیلے نہیں ہم آپ کے ہمدرد ہیں ۔ہر لحاظ سے ان کی دلجوئی اور اشک شوئی کرنا ہوگی ۔اور اگر بھارت سرکار جنگ کا طبل بجائے تو آگے بڑھ کر بدر و حنین کی یاد تازہ کر دی جائے ۔
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک ِ غیر اللہ کو
خوفِ باطل کیا ، کہ خود غارت گر ِ باطل بھی تو
یہ سب کچھ کرنے کے لیے حکومت آگاہی مہم چلائے ، عوام کی تربیت کرے اور تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پہ جمع کرے اور اپنی تمام تر توانائیاں کشمیر کی آزادی پہ صرف کی جائیں ۔ آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کو تمام اہل کشمیر کی حکومت قرار دیا جائے اور انہیں کشمیر کی ترجمانی اور نمائندگی کا فریضہ سونپا جائے۔ آزاد حکومت پہ اعتماد کرتے ہوئے انہیں خارجہ امور میں آزادانہ حصہ دیا جائے ۔تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو مختلف ممالک میں سفارتی مشن سونپے جائیں تاکہ وہ رائے عامہ کو ہموار کر سکیں اور اس مشن کی رپورٹ اسمبلی میں پیش کریں ۔اسی طرح ریٹائرڈ سول و ملٹری افسران کو بھی اسی نوعیت کی ذمہ داریاں تفویض کی جائیں۔ اقوام عالم کے سامنے اس مسئلے کو انسانی المیے کے طور پر پیش کیا جائے ۔فوری طور پہ شہری دفاع کی تربیت کا بندوبست کیا جائے خصوصا آزادکشمیر میں ۔ اسی طرح سرحدی علاقوں میں دفاع کی غرض سے اسلحہ بھی پہنچایاجائے۔ سکول ، کالج ، یونیورسٹی اور مدارس کے طلباء سے مضامین بھی لکھوائے جائیں اور ان سے موثر اداروں اور بین الاقوامی تنظیموں ، بڑے صحافتی اور نشریاتی اداروں ، اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیموں اور اسلامی ممالک کی حکومتوں کو خطوط لکھوائے جائیں ۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو کردار ادا کرنے کا کہا جائے ۔ اقوام عالم کی ہر طرح سے ذہن کشائی کی جائے اور عالمی ضمیر کو بیدار کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے ۔ ملک بھر میں بھارتی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے اور بھارتی میڈیا اور اس سے پیوستہ بھارتی ثقافی یلغار کا کو بند کیا جائے ۔ہمیں اپنے ہر قول اور ہر فعل سے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ہم کشمیر کی آزادی کے لیے کمر بستہ ہیں ۔ اگر ہم اجتماعی طور پہ سنجیدگی کا مظاہرہ کریں تو اپنی منزل مراد کو پہنچ سکتے ہیں ۔ کشمیر میں بہایا گیا خونِ مسلم ان شاء اللہ رائیگاں نہ جائے گا ۔شہداء کے خون کی سرخی سے ہی آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
آملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک
بزمِ گل کی ہم نفس بادِ صبا ہو جائے گی
اور اگر اب بھی ہم نے راست اقدام نہ اٹھایا تو بعید نہیں کہ سقوط ِ غرناطہ اور سقوط ِ بغداد کی تاریخ دہرائی جائے اور ہمیں بھی ایک ایک کر کے گاجرمولی کی طرح کاٹ دیا جائے اور ہمارا نام ہڑپہ اور مو ئنجوڈارو کی تہذیبوں کے ساتھ لیا جائے اور ہمارے کھنڈرات پہ لگے نوشتہ دیوار میں یہ تحریر لکھی ہو کہ یہ وہ بدبخت قوم تھی جو اپنی قوت کو پہچان نہ سکی اور بقا کا سامان ہوتے ہوئے بھی فنا ہوگئی ۔۔۔