ایسٹر اور عید قربان میں مماثلت
شازیہ عندلیب
ارشاد باری تعالٰی ہے کہ
اے مسلمانوں ان کے خداؤں کو جھوٹانہ کہو ایسا نہ ہو کہ وہ تماارے سچّے خدا کو جھوٹا کہیں۔
بالکل اسی طرح ہمیں ان کے تہواروں کا احترام بھی لازم ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ ہم بھی ان کے طریقے اختیار کریں کیونکہ انکا احترام کرنا اور ان کے طریقے اپنانا دو مختلف چیزیں ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ کئی احباب پاکستان سے پوچھتے ہی ں کہ کیا آپ بھی ایسٹر کی چھٹیاں اور تہوار منا رہے ہیں تو ان کے لیے عرض ہے کہ ہم بھی ایسٹڑ کی چھٹیاں انجوائے کر رہے ہیں کیونکہ جو لوگ پاکستان سے باہر کسی بھی سلسلے میں مقیم ہیں تعلیم یا جاب کی وجہ سے تو ان پر لازم ہے کہ وہ انکے تہواروں کا احترام کریں اور چھٹیوں میں اپنے احباب سے اپنے طریقے سے میل ملاپ کریں۔جبکہ ناروے کا شمار انممالک میں ہوتا ہے جو کہ سب سے ذیادہ تہواروں کی چھٹیاں مناتے ہیں مگر سب سے کم مذہب پر چلتے ہیں۔ایسٹر کی آمد سے پہلے ہی ہر جانب پیلے رنگ کی مختلف اشیاء نمایاں ہو جائیں گی۔دوکانوں مارکیٹوں اسکولوں اور گھروں کی کھڑکیوں اور بالکونیوں اور باگات میں پیلے پھولوں کے گلدستے اور ڈیکوریشنز بدلتے موسم کے ساتھ بہت دلکش لگتے ہیں۔
آجکل دنیا بھر میں عیسائی ایسٹر کا تہوار منا رہے ہیں ۔ اس حوالے سے تمام عیسائی ممالک میں ایسٹر کی چھٹیاں چل رہی ہیں اب عنقریب یہ اختتام پذیر ہیں۔تہوار تو یہ عیسائیوں کا ہے مگر چھٹیوں سے سبھی مذاہب کے لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں۔ہر ملک میں وہاں کے مقامی رسم و رواج کے مطابق یہ تہوار منایا جاتا ہے جو کہ مختلف ہو سکتا ہے لیکن اس کی وجہ ہر جگہ ایک ہی ہے اور وہ ہے حضرت عیسیؑ کے سولی پہ لٹکانے اور آسمانوں پر زندہ اٹھا لیے جانے کا واقعہ۔اس حوالے سے گرجا گھروں میں پادری بیانات دیتے ہیں جبکہ اسکولوں میں مذہب کی کتابوں کے حوالے سے یہ قدیم تاریخ تھوڑے تھوڑے فرق کے ساتھ پڑھائی جاتی ہے۔یہ واقعہ نہ صرف بائبل میں درج ہے بلکہ قرآن حکیم میں بھی اس کا ذکر موجود ہے۔
یہ بات ایک اٹل حقیقت ہے کہ تمام مذاہب بنیادی طور پر اسلام کی ہی تعلیم دیتے ہیں۔یعنی ایک اللہ اور اس کے رسولوں اور عقیدہء توحید کی تعلیم۔تمام مزاہب کی ابتدائی اور حقیقی تعلیمات ہر طرح کے شرک کی نفی کرتے ہیں۔اگر آپ قدیم زبانوں جن میں سنسکرت،عبرانی اور لاطینی اور یو نانی زبانیں شامل ہیں کے تراجمپڑہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر مذہب نے ایک اللہ کی وحدانیت اور انسانیت سے محبت کا پیغام دیا ہے۔اسی لیے ہمیں تمام مذہبی کتابوں تورات،انجیل بائیبل زبور اور قرآن حکیم میں کئی واقعات اور مقامات میں مماثلت نظر آتی ہے۔جیسے ہم لوگ رسول پاک کا یوم پیدائش عید میلا دالنبی کا تہوار مناتے ہیں تو عیسائی حضرت عیسیٰ کا یوم پیدائش کرسمس مناتے ہیں۔
اسی طرح عید قربان کا واقعہ حضرت ابراہیم علیہم کے بیٹے کی قربانی اور ان کی زندگی بچا کر ایک مینڈھا قربان کرنے کیے واقعہ کی یاد دلاتا ہے۔جبکہ اس سے پہلے حضرت ابراہیم کو بھی بادشاہ وقت نمرود مردود نے آگ کی نذر کیا تھامگر وہ آگ گلزار ہو گئی۔جبکہ حضرت عیسیٰ علیہم کو سولی پر چڑھایا جانے لگا تھا اور انہیں آسمانوں پر اٹھا لیا گیا تھا۔یہ واقعات دراصل خدا کی وحدانیت خدائے برتر کے معجزات اور کرشمات کا کھلا ثبوت ہیں۔ہم مسلمانوں پر تمام پپیغمبروں اور مذاہب کا احترام لازم ہے۔ااسی لیے اللہ تعالیٰ نے تمام مذاہب کا احترام کرنے کا حکم دیا ہے۔
اوسلو سے ایسٹر اور اسلام پہ لکھی جانے والی فوزیہ وحید کی تحریر کے مطابق ہے تو یہ ایک مذہبی تہوار مگر اس پر معاشرتی اور سماجی رنگ ذیادہ غالب ہے۔آج کے دور میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو مذہب سے یا تو بالکل بیگانہ ہیں یا پھر مذہب سے بیزار ہیں ۔ ان کی اس بات سے اتفاق ہے لیکن اس کے ساتھ مزے کی بات یہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی فرد جس قدر بھی مذہب سے بیگانہ ہو گا وہ مذہبی تہوار اور رسم و رواج میں اسی قدر نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لے گا بلکہ وہ جوش و خروش میں ہراول دستہ میں نظر آئے گا ۔اس کی ایک مثال ہمارے ہاں کے عید شب برآت کے تہوار ہیں۔روزہ کوئی رکھے نہ رکھے مگر چاند رات کی سرگرمیوں اور عید ملن پارٹیوں کے مزے اور عیدی لوٹنے کے لیے سب تیار نظر آتے ہیں۔اسی طرح شب برآت پر ہر سال آتش بازی میں لاکھوں کے نوٹ اڑانے اور چراغاں کرنے میں کثیر زر مبادلہ خرچ کرنا معمول کی بات ہے۔جبکہ ان پٹاخے پھلجھڑیاں بیچنے اور چھوڑنے والوں سے کوئی جا کے شب برآت کا مطلب پوچھے چاند رات میں چوڑیاں بیچنے اور چڑھانے والوں سے کوئی عیدد کا مقصد اور چاند رات کے معنی قرآن و حدیث کی رو سے پوچھے تو سب آئیں بائیں کر کے کھسک جائیں گے۔یورپین ممالک میں اسکولوں میں بچوں کو کسی بھی تہوار سے پہلے بچوں کو اسکولوں میں نہ صرف پڑہایا جاتا ہے بلکہ تہواروں کی چھٹیوں سے پہلے خاص عملی کام اور پروگرام بھی ہوتے ہیں جیسے ایسٹر سے پہلے ایسٹر کی تقریبات اس سے متعلق اسباق اور انڈوں اور پام کے درختوں سے بنائی جانے والی سجاوٹی اشیاء کی نمائش کے ساتھ ساتھ حضرت عیسیٰ کاقصہ یو ں بتایا جاتا ہے کہ پہلی کلاس کا نرسری تک کے بچوں کو یہ اسباق ازبر ہوتے ہیں انہیں نہ صرف ایسٹر کا مطلب پتہ ہوتا ہے ۔ بلکہ یہ بھی یاد ہوتا ہے کہ ایسٹر کے کس دن کیا واقعہ پیش آیا تھا۔
ہمیں بھی ان سے سبق لینا چاہیے کہ رمضان اور عید سے پہلے اسکولوں کالجوں اور دیگر اداروں مں رمضان اور عیدالفطر کے مقاصدکے ساتھ ساتھ مختلف عملی کام جیسے کارڈز بنوانا دور دراز عزیزوں دوستوں کو بھجوانا اور اس کے علاوہ ناداروں،بیماروں اور مصیبت زدہ افراد کو بھی اپنی خوشیوں میں کسی نہ کسی طرح شامل کریں۔اس کے علاوہ ان گمنام اور چھپے ہوئے سفید پوشوں اور ضروتمندوں کو بھی تلاش کر کے انہیں بھی ان تہواروں کی خوشیوں میں شامل کریں۔جیسے ہسپتالوں میں لا وارث مریض،جیلوں کے وہ قیدی جن کے مقدمات کی پیروی کرنے ولا کوئی نہیں،وہ لوگ جو لا علاج بیماریوں میں مبتلاء ہیں۔اس کے علاوہ یتیم خانوں اوردارلامان میں مقیم مصیبت زدہ اور لا وارث بچوں اور لوگوں کو بھی ضرور اس موقع پر یاد رکھیں۔یہ کام نہ صرف ادارے کریں بلکہ انفرادی ،خاندانی اور تنظیمی سطحوں پہ بھی کریں۔تاکہ ہم نہ صرف خود اچھی مثال قائم کریں بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے بھی رول ماڈل بنیں۔
well said