ایمان فروش مفتی اور فوجی ڈنڈا

ایمان فروش مفتی اور فوجی ڈنڈا
قاضی ضیاء الدین
پچھلے کئی روز سے میڈیا میں مفتی قوی کے ایمان شکن بیانات میڈیا میں گردش کر رہے ہیں۔
مولانا مفتی کے چھوڑے ہوئے شوشوں نے جہاں کمزور ایمان والوں کو تقویت دی ہے وہیں با ضمیر مسلمانوں کو بھی کچھ سوچنے پرمجبور کر دیا ہے۔اس نام نہاد مفتی کیے ایک لڑکی کے ساتھ غیراخلاقی حرکات وبیانات اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑگئے ہیں۔اس قسم کے نا عاقبت اندیش مفتی جو اسلام کے قوانین کا کھلے عام مذاق اڑائیں اللہ کے احکامات سے ہجو کریں اور اسلامی قوانین کو غلط رنگ دینے کی کوشش کریں۔انکا سد باب اس طریقے سے ہونا چاہیے کہ آئندہ کوئی اس قسم کی غیر اخلاقی حرکت کی جرآت نہ کرے۔
ایسے نام نہاد ا فراد نہ صرف مذہبی حلقوں میں بلکہ ہر شعبے میں پائے جاتے ہیں جو پانی کے تالاب میں گندی مچھلی کی مثل ماحول کی آلودگی کا باعث بنتے ہیں۔ایسے افراد کے ساتھ ایسا عبرت ناک سلوک کرنا چاہیے کہ وہ نشان عبرت بن جائی ان جیسے جھوٹے اور نا قص العقل افراد کی سرکوبی کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات پر غور کیا جا سکتا ہے۔ان کے کنٹرول کے لیے عدالتی نظام میں علیحدہ شعبہ قائم کیا جائے۔
۔جیسے ہی کسی فرد کا ایسا بیان یا حرکت منظر عام پر آئے جو کسی بھی لحاظ سے اس کے متعلقہ شعبے کے لیے باعث حزیمت ہو۔فوری طور پر اسکا پچھلا ریکارڈ اور تعلیمی اسناد چیک کی جائیں۔
۔اس کے بعد اسکا اسکول آف تھاٹ اور دماغی صحت کی جانچ کی جائے۔
۔یہ معلومات اس کے حلقہء احباب اور رہائش کے قرب و جوار سے حاصل کی جائیں۔
۔اگر یہ کام کوئی اور نہیں کر سکتا تو اس کام کے لیے ٹی وی پروگرام سر عام کے اینکر اقرار الحسن اور اسکی ٹیم کی خدمات حاصل کی جائیں۔
۔مفتی قوی نے چونکہ اسلام کا مذاق اڑایا ہے اسلیے اس پر اسلامی اسکالرز،اور عالم دین کو نوٹس لینا چاہیے۔
۔انہیں لوگوں کو یہ بتانا چاہیے کہ ایسے نقلی مفتیوں کی کیا پہچان ہے اور یہ کیسے اور کہاں پیدا ہوتے ہیں۔
۔یہ لوگ کس طرح سے پیسے لے کر یا اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اسلام دشمنی کرتے ہیں۔
ان کے لیے سزائیں تجویز کریںیا پھر فوجی ڈندا ستعمال کیا جائے کیونکہ یہ دینی حمیت اور قومی غیرت کا سوال ہے۔
اگر مفتی قوی کے بیانات کا تجزیہ کیا جائے تو اس سے دو باتیں واضع طور پر محسوس کی جا سکتی ہیں ایک تو انکا کمزور ایمان اور دوسرے ان کے برائے فروخت ہونے کی خصوصیت۔کیونکہ وہ جس انداز سے مبشر لقمان سے گفتگو کر رہے تھے او دوران گفتگو سر عام انہیں جیسے جھانسے دینے کی ناکام کوششیں کر رہے تھے۔ایسی غیر مہذب حرکتیں کوئی با ضمیر اور دین سے محبت کرنے والا اہل ایمان نہیں کر سکتا۔ایسے لوگ ہی اسلام اور دینی عالموں اور اسلامی اسکالرز کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔جنہیں کمزور ایمان والے مسلمان اور غیر مسلم ٹھٹھے مزاق کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ایسے ہی لوگوں کے بارے میں سورہ یوسف میں ایک موقعہ پر کہا گیا ہے کہ گیدڑوں نے چودھویں صدی کے عالموں سے پناہ مانگی تھی۔جس وقت حضرت یوسف کے بھائیوں نے انہیں کنویں میں ڈال دیا اور انکی قمیض جانوروں کے خون سے رنگین کر کے اپنے والد اور پیغمبر حضرت یعقوب علیہ السلام کو ثبوت کے طو رپر پیش کی اور جھوٹا بیان دیا کہ انہیں بھیڑیے کھا گئے ہیں۔حضرت یعقوب چونکہ خود بھی پیغمبری کے درجہ پر فائز تھے انہوں نے اپنی پیغمبرانہ صلاحیتیں استعمال کرتے ہوئے بھیڑیوں کو جواب طلبی کے لیے حاضر کر لیا۔اللہ تبارک نے ان جنگلی بھیڑیوں کو قوت گویائی نصیب کی اور بھیڑیوں نے پیغمبر خدا کے سامنے توبہ کرتے ہوئے کہا کہ
“ہم نے یوسف کو نہیں کھایا اگر ہم ایسا کریں تو حق تعالیٰ ہمیں چودھویں صدی کے علماء میں سے اٹھائے”
یہ واقعہ دنیا کی عظیم کتاب قرآن حکیم میں درج ہے۔مولانا قوی کے غیر اخلاقی اور تہذیب سے گرے ہوئے بیانات اور گفتگو دیکھ کر یہ واقعہ بے اختیار یاد آتا ہے۔اب یہ اس وقت کے علماء اور دیگر اسلامی اسکالر کی ذمہ داری ہے کہ وہ مل کر نہ صرف مفتی قوی بلکہ انکے دیگر ساتھیوں کو جو کہ ہمیشہ دشمنان اسلام کے لیے برائے فروخت ہوتے ہیں انکا کورٹ مارشل کے طرز پر احتساب کریں۔ انہیں کنٹرول کرنے کے لیے فوجی ڈنڈا استعمال کریں۔جیسے جنرل راحیل نے آپریشن ضرب سے طالبان کی صفوں میں دڑاڑیں ڈالی ہیں اسی طرح ان نقلی اور نام نہاد تماشا گر قسم کے مفتیوں کے ٹولوں کا بھی آپریشن کیا جائے۔تاکہ آئندہ کوئی سوچ سمجھ کر اس قسم کی بے بنیاد حرکتیں کرے۔

اپنا تبصرہ لکھیں