گل بہار بانو
محلہ میں کی قسم کے مسلم ہوٹل تھے ۔میں دس سال سے ان کو دیکھ رہا ہوں۔مگر صرف ان میں ایک ہوٹل ایسا ہے جو اس مدت میں مسلسل ترقی کرتا رہا ۔باقی تمام ہوٹل جہاں دس سال پہلے تھے آج بھی وہی پڑے ہوئے ہیں ترقی کرنے والے ہوٹل کے مالک سے میں نے ایک روز پوچھا کہ آپ کی ترقی کا راز کیا ہے ۔”بلکل سادہ ” انہوں نے جواب دیا جو چیز دوسرے ہوٹل والے کلو میں خریدتے ہیں اس کو ہم چوروں میں خریدتے ہیں ۔خریداری کے وقت ہم پورے بازار کو دیکھتے ہیں اور جو چیز جہاں کفالت سے ملتی ہے اس کو وہاں سے لے لیتے ہیں ۔زیادہ مقدار اور نقد خریداری کی وجہ سے ہم کو اور بھی سستی پڑ جاتی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ہنس کر کہا ” گاہک سے نہیں کمایا جاتا ،بازار سے کمایا جاتا ہے ” ۔عام طور پر دکاندار کا یہ حال ہے کے جو گاہک سامنے آ جائے اس کی جیب سے زیادہ سے زیادہ پیسہ نکلوانے کو دکانداری سمجھتے ہیں ۔یہ دکانداری نہیں لوٹ ہے۔اور جس دکاندار کے بارے میں یہ مشہور ہو جائے کہ وہ لوٹتا ہے اس کے یہاں کون خریداری کے لیے جائے گا یہی وجہ ہے کہ اس قسم کے دکاندار زیادہ ترقی نہیں کر پاتے لہزا کم قیمت میں چیز گاہک کو دیں تا کے وہ زیادہ مقدار میں مارکیٹ کے اندر چیزیںبیچ سکے .جو دوکاندار لٹیرا مشہور ہو جائے وہ کبھی کامیاب نہیںہو سکتا