ایک خوابناک دیہاتی زندگی

Henrik_Pontoppidan_1917ہنرک پھون چھوپی تین
ترجمہ: صدف مرزا، ڈنمارک
فصلوں کی کٹائی کے بعد جب موسمِ گرما کے پرندے بھی دور دراز کو ہجرت کر چکتے ہیں۔ بیج اور اناج وغیرہ سب جب کھلیانوں میں سمیٹ دیا جاتا ہے اور لوگ موسمِ سرما کی شدت کو خوش آمدید کہنے کی تیاریوں میں مشغول ہوتے ہیں۔ اچانک وہ ایک تسلسل کے ساتھ سورج کی تابانی سے منور دن کو مسرت آمیز حیرت سے دیکھتے ہیں۔
ننھی کونپلیں اور اناج کے دانے جو ایک عرصۂ دراز سے زمستانی خشونت کے سامنے سرنگوں ہو کر کہیں کیچڑ کے نیچے منہ چھپائے تھے۔ اچانک کروٹ لے کر اٹھے اور گڑھوں کے کناروں اور کٹی ہوئی فصلوں کے بعد ڈنٹھل بھرے کھیتوں سے باہر استعجاب بھری شادمانی سے گردوپیش پر نگاہ ڈالتے ہیں۔
لیکن اچانک ایک رات ملک بھر پر برفانی سردی نے حملہ کر دیا اور لوگ جو صبح کھڑکی سے باہر پھولوں کوکھلکھلاتا دیکھتے تھے اب درختوں کے سر جھکائے ہوئے پژمردہ پتوں کو دیکھتے۔ خوبصورت نظاروں کو طوفانی ہوائیں اڑا لے گئیں۔ چراگاہیں مغموم ہو گئیں اور سیاہ گندم کے کھیت مریض نظر آنے لگے۔ اکتوبر کی گہری دھند کے ساتھ آہستہ روی سے موسمِ سرما روباہی قرمزی رنگ لیے ہوئے سرخی مائل بھورے جنگلوں پر چھانے لگا۔
لیکن جاگیردار اپنے پرتعیش گھر کی گرم نشست گاہ میں استراحت فرما رہا ہے اور اس کی بیوی بھی نرم گرم جوتا پہن کر ہنگامہ خیز موسمِ گرما کے سامان کی باقیات سمیٹنے میں مصرف ہے۔ انہیں عسرت سے کوئی علاقہ نہیں۔ وہ تو آرام سے بیٹھ کر خداوند کے بابرکت اور طویل موسمِ سرما کے آرام سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ یہ موسم ان کو کوئی زحمت نہیں دیتا بلکہ اناج کو بھوسے سے لگ کرنے والی مشین کی سریلی گنگناہٹ اور بھوسے سے غلہ الگ کرنے والے تختے پر مزدوروں کے کام کاج کی مصروف اور دلپذیر آوازوں سے مزید حظ اٹھاتے ہیں۔
البتہ موسمِ گرما کا ایک ادھورا تقاضا تھا جو ابھی ان کو مکمل کرنا تھا اور وہ تھا مائیکل کا عظیم الشان جشن۔
امیرمیس مونس کا خوبرو بیٹا، الاعو ملازمین کے لیے بنی کوٹھڑیوں کی کھڑکی کے پیچھے کھڑا دوپہر کی نیند کے بعد انگڑائی لے رہا تھا۔
اس نے گھر میں کام کرنے والی خادمہ این کو راہداری سے گزر کر اصطبل کی جانب جاتے ہوئے دیکھا جہاں ایک بیمار گائے بندھی تھی جس کے تھنوں میں تکلیف تھی اور جس کا دودھ ہر تین گھنٹے کے بعد دوہنا تھا۔ الاعو نے پائپ پینا بند کیا اور دروازے کے پیچھے لگی کیل سے اپنی ٹوپی اتاری اور باہر کی طرف چل دیا۔
اصطبل میں پہنچ کر وہ این کے عین پیچھے جاکھڑا ہوا۔
این نے دودھ دوہنے کا برتن ہاتھ سے رکھ دیا تھا اور آرام سے بیٹھ کر کام کرنے کے لیے اپنا لبادہ اوپر اٹھا کر لمبیجراب کا ایک تسمہ باندھ رہی تھی۔
الاعو اسے پیچھے جا کر اس کی ٹانگوں کو تھامنا چاہتا تھا لیکن اچانک ہی این پیچھے مڑی اور جونہی اس نے دیکھا کہ پیچھے کون ہے تو اس نے فوراً لباس نیچے کیا اور شرم سے سرخ ہو گئی۔
”تم ڈری تو نہیں؟” الاعو نے کہا اور بدستور دروازے میں ہی کھڑا رہا۔
”نہیں” این نے درشتی سے کہا اور دودھ دوہنے کا برتن اٹھا کر کھاد سے بھری کھرلی کی طرف چل پڑی۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا دامن سمیٹ کر گھٹنوں کے درمیان رکھا اور ایک سرخ گائے کے پیچھے جابیٹھی۔ جیسے ہی اس نے گائے کا تھن اپنے ہاتھ میں تھاما، گائے نے سر موڑ کر اذیّت بھری آنکھوں سے اسے دیکھا۔
این اٹھارہ برس کی ایک فربہ لڑکی تھی جسے دہقانوں کے اس ڈیرے پر لڑکے اور مرد کبھی سکون سے نہ رہنے دیتے۔ وہ قریبی کچی بستی جسے ”اوہوسین” کہا جاتا، رہتی تھی۔ اس بستی میں کھیتوں اور گھروں میں کام کرنے والے مزدور رہتے تھے۔
این اتنی مسکین اور ژولیدہ سر دکھائی دیتی تھی کہ سب ضمیر کی ملامت کے بغیر اس کے ساتھ جیسا چاہتے سلوک کرتے اور ایسا تو ممکن ہی نہیں تھا کہ مرد اس کے قریب سے گزرتے ہوئے اس کے بدن کے ابھار پر چٹکی نہ کاٹتے ہوں۔
اگرچہ اب تک یہ شیطانی تعاقب اس کو اپنی ہوس کا نشانہ تو نہ بنا سکا تھا لیکن اس طرز سلوک نے اس کی ذات میں ایک غصہ بالخصوص اس کی نظر میں ایک سختی پیدا کر دی تھی۔ وہ قریب سے گزرتے ہوئے مردوں کی دست درازی سے محتاط رہنے کی کوشش کرتی ہے۔
الاعو نے جس دن سے این کو رقص کی محفل میں دیکھا تھا، اسی دن سے اس کو اپنی قانونی جاگیر سمجھنے لگا تھا۔ اگرچہ وہ اس بات سے بخوبی باخبر تھا کہ این کی بات کھیتوں میں کام کرنے والے ایک لڑکے ماچھئس سے طے ہو چکی ہے۔
ماچھیئس ایک فرومایہ مسکین سا لڑکا تھا جس سے سب لوگ ہر طرح کا چھوٹا موٹا اور مشقت بھرا کام کرواتے جیسے بیت الخلا کی صفائی، کیچڑ بھرے جوہڑوں اور تالابوں کی صفائی وغیرہ۔
اب واقعہ یہ نہیں تھا کہ این حسن و جمال کا مرقع تھی۔ وہ اپنے پرانے اونی رومال جس کی بدوضع گرہ اس کی ٹھوڑی کے نیچے لگی تھی، گائے کے نیچے سر نیہوڑائے بیٹھی ہوئی وہ انسان کی بجائے ایک بھوتنی ہی لگتی۔
لیکن الاعو بھی ٹھان چکا تھا کہ اسے ہر صورت میں حاصل کر کے رہے گا۔ پچھلے دنوں اس نے مزید پیش قدمی کی۔ وہ دونوں ہاتھ پاجامے کی جیبوں میں ڈالے اور پائوں آگے پسارے اس کے برابر ہی بیمار گائے سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔
پائپ ہنوز اس کے منہ میں دبا آگے پیچھے ہو رہا تھا۔
اس نیچی چھت کے نیچے جہاں تیرہ تپتی ہوئی گائیں اپنی چپکی ہوئی دمیں اپنی کمر پر مار رہی تھیں، موسمِ گرما کی ہلکی سی حدت تھی۔ اس نیم تاریک کمرے میں مویشیوں کے بھاپ اڑاتے گوبر ملے پانی کی تیز ناگوار بدبو تھی جس میں گاجروں اور چقندروں کی بو بھی شامل تھی۔
وہ دونوں وہاں تنہا تھے۔ الاعو کی ذرا سی حرکت پر اس کے بدن میں ایک تھرتھری سی ہوتی اور اس کے فربہ ہاتھوں تک بھی اس کی لہر پہنچتی، بیمار گائے نے دوبارہ سر موڑ کر ایک صابر سی اذیت کے ساتھ اس کی طرف دیکھا۔ الاعو نے اسکے رویے کی جھجک کو دیکھا اور مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔
”آسانی سے دودھ دوہنے دیتی ہے”
اس نے گائے کے حوالے سے اپنا پائپ منہ سے نکالے بغیر کہا
”ہاں”
اس نے ایک مطمئن مسکراہٹ کے ساتھ دیر تک اسے دیکھا
اصطبل کی کھڑکی سے جھانکتی سورج کی ایک شعاع چوڑی پٹی کی صورت میں الاعو کے زردی مائل گھنگریالے بالوں پر پڑی ہوئی تھی۔ بالوں کی ایک لٹ پیچھے کو مڑی ہوئی ٹوپی میں سے جھانک رہی تھی۔
اچانک اس نے دیکھا کہ این کے بالائی بدن میں ایک لرزاہٹ پیدا ہوئی۔ اس نے غور سے دیکھا تو آنسوئوں کے قطرے اس کے گدلے رخساروں پر راستہ بنا رہے تھے۔
”اوہ، کیا ہوا ہے” اس نے بالآخر پائپ اپنے منہ سے نکال ہی دیا۔
این نے گائے کا تھن بھی ہاتھ سے چھوڑ دیا اور اپنا رومال سے بندھا ہوا سر اپنے بازو پر رکھ لیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد الاعو کو اس کی شوں شوں کی آواز سنائی دی۔
”خدا مجھے پوچھے… تمہارا تو دماغ پھر گیا ہے۔ این کیا ہوا ہے؟”
”تم میری جان چھوڑ دو، میں نے تم میں سے کسی سے بھی کبھی کچھ نہیں کہا۔ تم لوگ میرا پیچھا چھوڑ دو…”
”خدایا… ننھی این! جہاں تک میں جانتا ہوں، میں نے تمہیں کبھی کوئی تکلیف نہیں دی۔ مسئلہ کیا ہے۔ میں تو تم سے صرف یہ پوچھنے آیا تھا کہ کل مائیکل کی ضیافت میں تم پر میری ہمرقص بننا پسند کرو گی۔ یہ تو کوئی ایسی بری بات نہیں کہ اس کے لیے رونا دھونا مچایا جائے۔ خیر اب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم اچھے دوست تو رہ سکتے ہیں نا”
وہ جانے کے لیے مڑا۔
اتنے میں این خاموش ہو چکی تھی اور اس نے الاعو کی بات واضح طور پر سننے کے لیے اپنا سر بازو سے اٹھا لیا تھا۔
لیکن اسی اثنا میں باہر سے قدموں کی آہٹ ابھری۔
الاعو سُرعت سے کھرلی سے نکلا اور عقبی دروازے سے باہر کھسک گیا۔
قدموں کی آہٹ الاعو کے ابا کی تھی جو دوپہر کے طویل قیلولے سے فراغت پاکر اس جانب آرہا تھا۔ وہ پرسوچ انداز میں اپنا ہیٹ لیے گھر کی اونچی پتھریلی سیڑھیوں پر سب سے نچلی سیڑھی پر کھڑا تھا۔ وہ اپنے پائپ کی نوک سے کان کے پیچھے کھجا رہا تھا۔
الاعو کا باپ ایک قبول صورت آدمی تھا جس کا شیو کیا ہوا چکنا چہرہ اور سرخ سوجے ہوئے ہونٹ ہمیشہ ایسے محسوس ہوتے جیسے ان پر چربی کی تہہ جمائی گئی ہو۔ اس کی تنگ پیشانی پر چھوٹے گھنے گھنگریالے بال تھے جو اس کے سر کے پیچھے تک جاتے ہوئے قلموں کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔
وہ چند لمحے وہیں اپنی سوچوں میں ڈوبا کھڑا رہا کہ اسی اثناء میں دروازے سے گائوں کا چرواہا، ”چھوٹا لائوس” اندر آیا۔ اس کے کندھے پر بیلچہ تھا۔ وہ بارہ تیرہ برس کا ایک مدقوق سا بچہ تھا جس کے شانے قدرے مڑے ہوئے اور گھٹنے جھکے ہوئے تھے۔ اس کے سر پر ایک پرانی فوجی ٹوپی تھی جو اس کے سردی سے نیلے پڑتے کانوں کو ڈھانپے ہوئے تھی۔پیروں میں بھاری لوہے سے منڈھی لکڑی کی کھڑائوں تھیں اور اس کے ہاتھوں کی انگلیاں سیاہ اور سخت گیلی زمین پر شلجم (اور اس قبیل کی سبزیاں) کھود کر اکڑی ہوئی تھیں۔
جب وہ اندر آیا تو اس نے بیلچہ دیوار کے سہارے کھڑا کر دیا اور سر کندھوں میں دبائے کسی بوڑھے ہاری کی طرح لمبے قدموں سے چل پڑا۔ ابھی اس نے ذرا ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ اس نے بیلچے کے گرنے کی آواز سننی۔ وہ فوراً مڑا اور بیلچے کو واپس اٹھا کر دیوار کے ساتھ کھڑا کر دیا۔
”ہاں چھوٹے لائوس” بالکل ٹھیک ایسے ہی کام ہونا چاہیے، اس کے مالک نے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا اور اپنا بالآخر اپنا ہیٹ سر پر پہن ہی لیا۔ چھوٹے لائوس نے اپنا سر یوں اوپر اٹھایا جیسے پہلی مرتبہ اس کی موجودگی کو محسوس کیا ہو۔
طویل دوپہر کے آرام کی سُستی پر غالب آنے کے بعد اس نے اپنا پائپ جلایا اور کھلے دروازے میںکھڑا ہو گیا جہاں سے وہ اپنے مزدوروں کو کھیتوں میں ہل چلاتے دیکھ سکتا تھا لیکن اس وقت دھند اتنی گہری تھی کہ انسان مشکل سے گلی کی نکڑ تک ہی دیکھ پاتا تھا۔
صرف جنوب کی طرف ایک بوڑھے ہاری کی جھلک دکھائی دی جو اپنی ٹیڑھی میڑھی ریڑھی کے پیچھے چلا جا رہا تھا۔ ایک مریل جھکی کمر والا گھوڑا اس ریڑھی کو گندم کی کٹی ہوئی فصل کے ڈنٹھلوں کے درمیان بقدرِ استطاعت کھینچ کھانچ کر چلا رہا تھا۔
چار دن کی مسلسل بارش کی وجہ سے کیچڑ نے پورے شہر کی بری حالت کر دی تھی۔ گلی کی نکڑ سے موٹی بطخوں کی ایک قطار بڑی سہولت سے مٹکتے ہوئے راستے کے درمیان آئی اور بڑے اطمینان سے سڑک پر پھیلی کیچڑ میںدھپ دھپ کرنے لگی۔ شہر کے نمبردار کے مرغے کی بانگ کے علاوہ چار سو خاموشی کا راج تھا۔
اچانک گندم کی دھنائی کرنے والے تحتے کے پیچھے کوئی دھند میں کوئی کھانسا۔
چار غریب عورتیں کمر پر بھاری گٹھے لادے خاموشی سے ایک دوسرے کے پیچھے قطار کی صورت میں چلی آرہی تھیں۔ کیچڑ میں سے گزرتے ہوئے شڑاپ شڑاپ کی آواز کے ساتھ چھینٹے اڑ اڑ کر ان کے لبادے کے نیچے ٹانگوں پر پڑ رہے تھے۔
”کام میں خدا کی مدد شامل ہو”
میس مونسن نے باآوازِ بلند کہا۔ وہ ہمیشہ غریبوں کے لیے ایک ہمدردانہ اور مشفقانہ جذبہ رکھتا تھا۔
اس کے پاس سے گزرتے ہوئے ہرعورت نے زیرلب اس کا فرداً فرداً شکریہ ادا کیا۔
لیکن سب سے آخر میں گزرنے والی عورت اس کی طرف آئی۔ اپنی کمر سے بھاری بوجھ اتار کر زمین پر رکھا جبکہ باقی خاموشی سے اپنے راستے پر چلی گئیں۔
وہ کمر پرہاتھ رکھے ہائے وائے کرتی، پھولے سانسوں کے ساتھ گٹھے پر بیٹھ گئی۔
یہ این کی ماں تھی۔ وہ دراز قد اور ادھیڑ عمر کی عورت تھی۔ اس کا چہرہ زردی مائل بھورا اور کسی حنوط شدہ ممی کی طرح تھا۔ اس کے چہرے سے پسینہ اور گرد بہہ رہی تھی۔ اس کے کمزور جسم کے گرد لپٹا لبادہ بھیگ چکا تھا۔ اس کے کپڑے کے بنے ہوئے گیلے لمبے جوتے سوتی دھاگے کے ساتھ اس کی ٹانگوں سے بندھے تھے۔ جب وہ بیٹھی تو اس کی چھینٹے پڑیپنڈلیوں پر ابھری ہوئی گانٹھوں بھری نسیں بھی دکھائی دینے لگیں۔
ارے یہ تم ہو…؟ این کی ماں؟ تم جنگل سے آرہی ہو؟
عورت نے صرف سر ہلانے پر اکتفا کیا
ابھی تک اس کی سانس اتنی بحال نہیں ہوئی تھی کہ وہ بات چیت کر سکے۔
”ویستا جنگل سے؟”
”ہاں”
”اوہ… اچھا اچھا… اور گھر میں کیا حال احوال ہے؟”
”بس… اللہ رحم کرے” عورت نے آہ بھری اور اپنے لباس کے کونے سے اپنا کلیجی رنگ کا چہرہ صاف کرنے لگی۔
اچانک میس نے اپنا پائپ منہ سے کالا اور آنکھیں پھاڑ کر اسے سرتاپا دیکھا۔
”اوہ… خدا مجھے سزا دے (اللہ معاف کرے) کیا تم دوبارہ حمل سے ہو؟”
عورت نے خود کو خشک کرنا چھوڑا، لباس کے دامن سے اپنی ناک صاف کی اور جواب دیئے بغیر اپنا سر ہاتھوں سے تھام لیا۔
”کیا یہ گیارھواں بچہ ہے؟”
”ہاں۔ گیارھواں ہی ہے”
”ہاں… مگر… خداوند یسوع مسیح، مصیبتوں سے بچائے، کیا تم دونوں کبھی اس سلسلے کا اختتام نہیں ہونے دو گے؟ ہر بات کی کوئی حد ہوتی ہے۔”
”ہاں میس مونس… خدا ہی جانتا ہے کہ یہ سب کیا چکر ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہاں دنیا میں تم جیسے لوگ جو بچوں کو سب کچھ دے سکتے ہیں کم بچے پیدا کرتے ہیں اور ہم جیسے رزیل صرف بستر کے کنارے ڈکار بھی لے لیں تو بچہ پیدا ہو جاتا ہے۔”
میس کو اپنے منہ سے پائپ دوبارہ نکالنا پڑا۔ وہ عورت کی بات پر ہنسے بغیر نہیں رہ سکا۔
لیکن اتنے میں عورت نے اس پر ایک جلتی ہوئی نظر ڈالی اور کہا:
”ہاں میس مونسن! تم یہ بات آسانی سے کہہ سکتے ہو۔ تمہیں پتا ہونا چاہئے کہ اگر تم اس وقت میری جان چھوڑ دیتے تو آج سب کچھ مختلف ہوتا”
”اوہ اچھا… اچھا… زمیندار کا چہرہ سرخ پڑ گیا اور اس نے خوف آمیز احتیاط کے ساتھ ادھر ادھر نگاہ دوڑائی، ہمیں پرانی باتوں کے تذکرے سے گریز کرنا چاہئے مجھے معلوم ہے اور میں نے کئی مرتبہ تمہاری مدد بھی کی ہے۔”
عورت نے کچھ ناقابلِ فہم الفاظ بڑبڑائے اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ بڑی مشکل سے اس نے گٹھا اٹھا کر دوبارہ کمر پر رکھا۔
”اچھا، میرین، خدا حافظ۔ میس نے پیچھے سے ہانک لگائی۔
”کل مائیکل کے جشن کے لیے ضرور آنا اور اپنے سارے بچوں کو بھی لیتی آنا۔ میں کوشش کروں گا کہ کل تمہیں کسی چیز کی کمی نہ ہونے پائے۔
این کی ماں اور اس کا شوہر نشیبی بستی میں جسے ”اوہوسین” کہا جاتا رہائش پذیر تھے۔ یہ بستی ایک بڑے متعفن دلدلی جوہڑ کے احاطے میں آباد تھی جس میں ایک چھوٹی رستی ہوئی ندی بھی آکر ملتی تھی۔
اگرچہ ایک کلیسا اور آٹھ دس ڈیروں پر مبنی یہ شہر آسودگی اور سہولت کے ساتھ بلندی پر آباد تھا۔ یہ چڑھائی اسے جنوب مغربی ہوائوں کی تندی سے بچا لیتی تھی۔ بالخصوص موسمِ بہار میں جب ان زمینداروں کے پھلدار درخت پھولوں سے لدجاتے اوپر چڑھائی کا سارا راستہ سرسبز و شاداب ہو جاتا۔ کلیسا کی چھت پر لق لق اپنے گھونسلے بناتے تو شہر کا نظارہ خوابوں کی جنت سا ہو جاتا۔
عرصۂ دراز سے یہ شہر عام راستوں سے ہٹ کر ایک پرسکون تنہائی میں آباد تھا۔ ابھی تک اس تک روحانی تحریکوں کی پہنچ نہیں تھی جو ملک بھر میں باقی جگہوں پر لوگوں کے درمیان بدامنی، کینہ اور مخاصمت پھیلا رہی تھیں۔
کبھی کبھار جب زمینوں کی قیمت زیادہ ہوتی اور فصلیں بہتر ہوتیں تو ایک آدھ ڈیرے کی تعمیرِنو ہوتی۔ اس کا فرش پتھروں کی بجائے لکڑی کا بنا دیا جاتا، دیواروں اور فرش پر تیل کی پالش کی جاتی اور مہاگنی کا نیا فرنیچر رکھا جاتا لیکن تبدیلی کا یہ عمل رفتہ رفتہ ہوتا اور کوئی بھی شعوری طور پر یہ بات محسوس نہ کر سکتا تھا کہ یہ شہر اب بالکل اس غریب اور مفلوک الحال شہر سے مختلف ہو گیا ہے جو صرف چند نسلیں قبل یہاں نظرانداز کی گئی زمین پر آباد تھا۔ وہ زمانہ جب اپنی زمینوں سے فصلیں حاصل کرنے کے لیے خود زمینداروں اور ان کی بیویوں کو بھی اپنا خون پسینہ ایک کرنا پڑتا تھا۔
جب کہ اوہوسین کی حالت میں کوئی تغیّر و تبدل نہ ہوا تھا۔ ان کی اقدار بھی وہی رہتیں۔ وہ اسی مٹی گارے کے بنے جھونپڑوں میں رہتے اور ابتلا و آزمائش کے وقت ایک دوسرے کی مدد کو پہنچتے تھے۔ ایک جڑی ہوئی چھت اور ایک دوسرے سے ملحق دیوار کے ساتھ ہی وہ آپس میں دکھ بٹا سکتے تھے۔
روح رکھنے والے وجود جو اپنی پیشانیاں جوڑ کر اپنی سرنوشت پر صرف ماتم ہی کر سکتے تھے۔
دروازے کی دہلیزوں کے قریب خدا کی رحمت، بدحال کائی زدہ بچے بیٹھے تھے جو ان غرباء کے گھاس پھونس کے بنے برئے بستروں سے یوں برآمد ہوتے ہیں جیسے انڈوں میں سے جانور پیدا ہوں۔ جب کہ بالائی علاقے میں رہنے والے جاگیرداروں کے ڈیرے پر اونچے درجے کی دائمی اعلیٰ درجے کی نسل پروان چڑھتی ہے جبکہ ان جھونپڑوں میں لمبے بازو اور نامکمل بدوضع شانوں کے درمیان بڑے خالی سروں والے بے حال بچوں کی ایک کھیپ پیدا ہوتی جیسے انڈے کے چھلکے چٹخنے سے جنم لیتی ہے اور ان کے مقدر میں ان جاگیرداروں کی زمینوں اور دلدلی جوہڑوں میں اپنی ”اقدار” کو پروان چڑھانا ہے۔
لیکن کبھی کبھار خصوصاً جب موسمِ سرما کی آمد قریب ہوتی اور جسم فصلوں کی کٹائی کی جاں توڑ مشقت سے چور ہوتے۔
جب وڈیرے اپنے لدے ہوئے کھلیانوں اور گوداموں میں، اپنے نرم گرم مساکن میں آرام دہ زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے تو ان جھونپڑوں کے مکینوں میں سے کوئی بھیگی ہوئی تاریکی میں اپنے ننگے فرشوں والے گھر میں گرتے پڑتے پہنچتے ان کے خالی سروں میں ایک سرکش باغی سوچ یا سینے سے اٹھتی ایک صدا ایک جانگداز درد، ایک چیخ جو شدت سے گونجنا چاہتی لیکن یہ چیخ کبھی بلند نہ ہو پاتی۔ یہ ایک لخطے کے لیے ابھرتی اور پھر کسی نئی مشقت میں گم ہو جاتی کسی چھوٹی سی ندی کی طرح جو رستی ہوئی گہری دلدل میں مدغم اپنا وجود کھو دیتی۔
اندر دھواں بھرے مہمان خانوں میں میزیں سجی تھیں۔ جھنڈوں سے آراستہ رقص کے کمروں میں جو ابھی ان لوگوں کے لیے نشست گاہ کا کام دے رہے تھے جو یا تو کھانا کھا چکے تھے یا ابھی اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔
اگرچہ کمروں میں کھانے کی دو میزیں لگائی گئی تھیں اس کے باوجود لوگوں کو گروہوں کی صورت میں کھانا ملا۔ اوہوسین کی بستی کے لوگ، عمر رسیدہ بوڑھوں سے لے کر تین ہفتے کے شیرخوار بچوں تک اس ضیافت میں شریک تھے۔ حتی کہ بسترِ مرگ سے بھی مریض اپنے قدموں پر اٹھ کھڑے تاکہ وہ بھی اس دعوت کی رونق میں شامل ہو سکیں جس کا چرچا گزشتہ کئی ہفتوں سے ہو رہا تھا اور پچھلے چوبیس گھنٹوں میں زوروشور سے جس کی تیاری ہو رہی تھی۔
جن کمروں میں کھانا کھایا جا رہا تھا وہاں لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کے باوجود خاموشی تھی۔ لوگ بڑی خاموشی سے بس کھانا کھا رہے تھے۔
مٹی کی بڑی طشتریوں اور ڈونگوں میں سوپ، بکرے کا گوشت اور بھاپ اڑاتے آلوئوں پر مشتمل کھانا لایا جا رہا تھا لیکن جیسے کسی جادوئی زور سے لمحوں میں برتن خالی ہو جاتے۔ زمینداروں کی بیویاں جو ذاتی طور پر تو اس عملی کام میں کوئی حصہ نہیں لے رہی تھیں لیکن وہ ان کمروں میں چلتی پھرتی کام کرنے والی لڑکیوں کو تیزی سے کھانا پیش کرنے کے احکامات دے رہی تھیں۔
تازہ تازہ تلنے کی خوشبو برانڈی اور بیئر کی مہک میں مدغم ہو کر لگاتار ان لوگوں کو مزید ناخوش کر رہی تھی جو ابھی کھانے کے انتظار میں اپنے گڑگڑاتے شکموں پر ہاتھ باندھے ٹہل رہے تھے۔
پرانے زمانے میں اس ضیافت کو ہمیشہ مقدس مائیکل کے نام کی شام کے ساتھ منایا جاتا تھا لیکن بعد میں جڑدار پودوں کی کاشت کے جدید انداز اور توسیع کی وجہ سے زمین داروں نے اپنے فائدے اور اپنے اخراجات بچانے کی خاطر اس ضیافت کو فصلوں کے اختتام تک مؤخر کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس جشن کا انعقاد اپنے اپنے ڈیروں کی بجائے اس سرائے میں رکھ لیا تاکہ فصل ان کے آراستہ پیراستہ ڈیرے تک نہ جائے اور انفرادی ضیافتوں کی بجائے سب زمیندار مل کر ایک ہی بڑا جشن منایا کریں۔ اب تین گھنٹوں کے مسلسل طعام کے بعد بھی ابھی تک ان کمروں میں کھانے کا دور چل رہا تھا۔ اگرچہ اب کھانے کی میزوں کے گرد زیادہ لوگ نہیں بیٹھے تھے اس کے باوجود اندر بڑے کمرے اور باہر راہداری میں اژدھام بڑھتا ہی جار ہا تھا اور کیف و شادمانی کے عالم میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ سب لوگ بشمول جاگیرداروں کے ایک سرخوشی کے عالم میں جھوم رہے تھے۔ اکثر لوگوں پر سرور اور نشے کا غلبہ تھا جسے اوہوسین کی زبان میں Maddonnert (ٹُن) کہا جاتا تھا۔ لڑکے سر پر الٹی طرف پہنی ٹوپیوں کے ساتھ ایک دوسرے سے بغل گیر ہو رہے تھے۔ چند ایک چھوٹے جاگیردار جن کے ہاتھ کہیں سے ایک لائیٹر ہاتھ آلگا تھا باہر اپنے پاجاموں کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اور اپنی توندیں باہر نکالے، ہمسایوں کے گھر دوسرے علاقوں سے اتفاقیہ طور پر ہی آئی گاڑیوں کو ترحم بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
اوپر رقص کے کمرے میں اس سارے شور شرابے سے بے نیاز ایک عمر رسیدہ آدمی اپنی بڑی بڑی بے رنگ، نیم کور آنکھوں کے ساتھ ہوا میں گھور رہا تھا۔ اس کا لمبا کوٹ جس کی سلائیاں بوسیدہ ہونے کی وجہ سے سفید ہو چکی تھیں، اوپر اس کی گردن سے لے کر نیچے ایڑیوں تک اس کے بدن پر معلق تھا۔ نیلا پاجامہ ایک بوری کی طرح اس کی تڑی مڑی ٹانگوںکے گرد لٹک رہا تھا۔ البتہ اپنی عمر کے باوجود اس کے بال ابھی تک بھورے تھے اور صرف ٹوپی کے ہالے سے باہر ذرا ملگجے سے ہو رہے تھے۔
میس مونسن جو کہ پورے جشن کا میزبان بنا ہوا تھا اس کے پاس آیا اور اس کے کندھے پر بے تکلفی سے ہاتھ مار کر بولا۔
اچھا… تو تم یہاں ہوینیس ماچھیئس… کچھ کھایا پیا بھی ہے۔”
تم کل اپنی محبوبہ کے ساتھ باہر گئے تھے… میرا مطلب ہے لائوٹے کے ساتھ کھیتوں میں گئے تھے؟ سچ ہے نا؟”
بوڑھا آدمی جو اچانک سہم گیا تھا اپنے بڑے بھورے ہاتھوں کا چھجا سا بنا کر، ناقابلِ فہم انداز میں بڑبڑاتے ہوئے منہ کے ساتھ اس کی طرف دیکھنے لگا۔
ایک عمر رسیدہ شکل و صورت سے خادمہ دکھائی دینے والی لیکن جالی کے لباس میں ملبوس خالی خالی بھوری آنکھوں والی ایک عورت، عورتوں کے ٹولے سے نکل کر ان کی طرف آئی اور اپنا ہاتھ اس کی آستین پر رکھا۔
”وہ کہہ رہا ہے کہ کل تم لائوٹے کے ساتھ باہر کھیتوں میں گئے تھے؟”
”ہاں ہاں… اب اس نے بیٹھی ہوئی اور تقریباً ناقابلِ سمجھ آواز میں کہا۔”
”لیکن بہت ہی آہستہ روی سے کام ہوا… بہت ہی آہستہ”
”ہاں، لائوٹے اب بوڑھی بھی تو ہو گئی ہے نا ینیس ماچھئیس”
”وہ کہہ رہا ہے کہ لائوٹے بوڑھی ہے” عورت نے ینیس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے دہرایا۔ وہ اس سے تھوڑی چھوٹی تھی۔
”ہاں، یہ تو کہا جاسکتا ہے” اس نے جواب دیا اور اپنے چھوٹے سے سر کو ہلایا۔
”اب وہ زیادہ کام کرنے کا قابل بھی تو نہیں رہی میسن مونسن۔ بیچاری مریل پنجر… اب اس کی کارکردگی بہتر بھی نہیں بنائی جاسکتی میس مونسن”
”ہاں بھئی…لیکن وہ ہے بھی تو چھوٹی اور کچھ زیادہ ضروریات بھی نہیں ہیں اسکی۔ تم اسے دانہ دنکا تو دیتے ہو نا؟”
تین مٹھیاں بھر کر… میس مون… تین مٹھیاں۔ اور ہاں چابک بھی” اس نے جیسے ہنسنے اور رونے کی درمیانی کیفیت میں کہا۔
”ہاں، وہ بوڑھی ہو چکی ہے ینیس۔ اب اس سے زیادہ توقع بھی تو نہیں کی جاسکتی۔”
”وہ کہہ رہا ہے کہ لائوٹے بوڑھی ہو چکی ہے” عورت نے کہا۔ وہ باری باری سوالیہ انداز میں دونوں کی جانب دیکھ رہی تھی۔
لیکن جب وہ کچھ بھی نہ سمجھ سکی تو اس نے ساری گفتگو خود اپنے ہاتھ میں لے لی۔
”ہاں ہاں۔ جلد ہی ہم سب بھی ضعیف اور ناتواں ہو جائیں گے میس مونسن۔ لیکن انسان کو شکایت نہیں کرنی چاہیے… کیونکہ ہمارا آقا تو ہم سب کا خیال رکھتا ہے۔ چھوٹے، بڑے،سب کا… اور اگرچہ اب ہر ایک کی ہر خواہش توپوری نہیں ہو سکتی۔
لیکن اس کے باوجود ہمارے پاس شکرگزاری کے لیے بہت کچھ ہے لیکن جب انسان بوڑھا ہو جاتا ہے تو تھوڑی مشکل تو ہو ہی جاتی ہے نا
ہر چیز ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور انسان کو پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ کہاں جائے… خیر
”کوئی بات نہیں میٹے… تمہارے پاس ماچھیئس تو ہے نا”
”ماچھیئس…” اس نے آہستگی سے دہرایا اور پھر اپنے ایپرن کے کونے کو ہاتھ میں لیے، (جسے وہ بات کرتے ہوئے اضطرارای طور پر انگلیوں سے مروڑتی رہتی تھی) بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا۔
”ہاں… خدا جانتا ہے… مجھ نہیںپتا… لیکن یہ بات تو ہے”
اس نے کہا اور ایک نیم خوف اور تجسّس سے زمیندار کی طرف دیکھا۔
”میرا خیال ہے کہ ماچھئیس بہت عجیب ہو گیا ہے اور پھر یہ… برانڈی… میس مونسن…”
اچانک اس کی آواز میں ایک خوف سا در آیا
”اگر اسے کچھ ہو جائے… تو ہمارے پاس تو صرف وہی ہے۔”
”نہ… نہ… میٹے… ہمیں حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے… چلو اب اندر جائو۔ ایک پیالی کافی یا شربت پیو اور خوش رہو آخر میں سب ٹھیک ہو جائے گا”
میس مونسن نے کہا اور ساتھ ہی اپنے پسندیدہ انداز میں اس کے کاندھے پر ہاتھ مارا اور انہیں اپنے ساتھ اندر کمرے میں لے گیا۔
اسی دوران ان کے گرد ہلکے پھلکے رقص کا آغاز ہو چکا تھا۔ جو جلد ہی عروج پر آکر پوری رقص گاہ میں پھیل گیا۔ چھت اور دیواروں پر بلب جلا دیئے گئے تھے۔ بوڑھے اپنے کوٹ اتار کر پھینکنے لگے اور سب سے پہلی اور بہترین ”کتیا” کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اس کی مزاحمت کے باوجود سرور انبساط سے بھری چیخیں مارتے چل پڑے۔ کمرے کے ایک کونے میں ذرا اونچائی پر دو وائلن نواز بیٹھے وائلن بجا رہے تھے۔ ان کے بدن پسینے سے شرابور تھے۔
دیوار کے ساتھ لمبائی میں لگی نشستوں پر بیٹھے لوگ رقص دیکھنے میں محو تھے۔ یہیں پر ایک مضحکہ خیز شکل رکھنے والا لڑکا جس کی عمر کا کوئی اندازہ نہیں ہو رہا تھا، بیٹھا اپنی بڑی بڑی ساکت آنکھوں کے ساتھ لگاتار این کو دیکھ رہا تھا۔ وہ میس مونس کے خوبرو بیٹے کے ساتھ محوِ رقص تھی۔
وہ اگرچہ کوتاہ قامت تھا لیکن اس کے گھٹنوں پر رکھے غیر معمولی طور پر بڑے ہاتھ نیلاہٹ آمیز سرخی لیے ہوئے تھے۔
اس کے کندھوں پر پتلے سیدھے بالوں والا ایک بہت بڑا سر دھرا تھا۔
یہ ماچھئیس تھا۔
اس نشست کے عین سامنے کی نشستوں میں سے ایک پر اس کی ماں بیٹھی تھی اس کی گود میں ماچھئیس کے اونگھتے ہوئے باپ کا ہاتھ تھا جسے اس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام رکھا تھا۔
اتنے میں داخلی دروازے کی طرف حرکت ہوئی۔ یہاں سے رئیس پادری کا سفید وجود دکھائی دیا۔ اس کیساتھ اس کی بھاری بھرکم اہلیہ زمینداروں اور ان کی بیویوں کے جلو میں نمودار ہوئے۔ ایک لمحے تک خاموش وجد کے سے عالم میں رقص کو دیکھنے کے بعد اس نے اپنی بابرکت خواہش کا اظہار کیا کہ اسے اس مجمعے سے چند الفاظ کہنے ہیں۔ اس اثنا میں میس مونسن اسے تقطیر کی ہوئی شراب Punch کا گلاس پیش کر چکا تھا۔ موسیقی کو بند کرنے کا اشارہ کر دیا گیا اور ہال میں مکمل سکوت طاری ہو گیا۔ رقص کرنے والے جوڑوں نے ایک دوسرے کو چھوڑ دیا لیکن وہ رقص کے اسی دائرے میں کھڑے رہے انہیں یہ سننے کی کوئی خاص تمنا نہیں تھی کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔
اس کی تقریر حرف بحرف وہی تھی جو کہ گزشتہ دس برسوں میں اس موقع پر پیش کی جارہی تھی۔ یہ رٹی رٹائی تقریر اب تک اس پر ایسی رقت طاری کر دیتی کہ اس کی آواز بھیگ جاتی اور اس کی خوبصورت آنکھیں اشک آلود ہو جاتیں۔
اس نے کہا کہ وہ بہت فخر و انبساط کے ساتھ اس مجمعے کو دیکھتا ہے جس میں سب امراء اور غربائ، چھوٹے بڑے ایک سی مسرت کے ساتھ خوشگوار فصل کی کٹائی کے بعد بلندو بالا ہستی کے حضور شکرانہ پیش کرنے کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔
اس نے خدا سے دعا کی کہ وہ ان خوبصورت ٹیلوں کے درمیان بسے امن کے اس گہوارے کو حاسدین کی نظر اور شرانگیز شیاطین سے اپنی پناہ میں رکھے اور اس بھائی چارے کی فضا کو مستحکم کر دے۔
آخر میں اس نے ایک مصنوعی وقفہ کیا اور ایک چھوٹا سا قدم آگے بڑھایا اور ایک بشپ کی سی شان کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔
”میں نے سنا ہے کہ…
”عزیز دوستو! اس نے کہا اور اپنے ہاتھ سے مجمعے کو اوپر ایک معتبرانہ اشارہ کیا۔
میں نے سنا ہے کہ… مجھے بتایا گیا ہے… کچھ لوگ اس جگہ کو ملک کے ”مردہ نقاط” کہہ کر پکارتے ہیں۔
”خدا ہی ہے جس نے ہمیں مرگِ عظیم سے حیات بخشی اور وہی ہے جو ہمیں موت سے رہا کرے گا”
یہ موڑ بھی سامعین کے لیے نیا نہیں تھا لیکن وہ باادب فرش پر نظریں گاڑے سنتے رہے۔ اب وہ ہال میں گیا تاکہ ان سب سے انفرادی طور پر مل سکے۔
تقریر کے بعد موسیقی ایک نئی زندگی کے ساتھ دوبارہ جاگ اٹھی جبکہ پادری اور اس کی بیوی ان زمینداروں اور ان کی بیویوں کے گھیرے میں سرائے کے ذاتی کمرے کی طرف چل دیا جہاں شام کے کھانے کی میز کو پرشکوہ انداز میں آراستہ کیا گیا تھا۔ میز پر بھنی ہوئی بطخ، روایتی انداز میں ٹھنڈی پیش کی جانے والی مرغیاں، ارغوانی شراب اور آلوبخارے بھری پیسٹری موجود تھی۔
پادری کی تقریر کے دوران الاعو اور این ہال سے غائب ہو چکے تھے۔
ماچھئیس کی ماں ہراساں بیٹھی ان دونوں کے اور اپنے بیٹے کے بارے میں سوچ رہی تھی جو کہ خود بھی ہال سے جا چکا تھا۔
شراب کے ہلکے سے نشے میں وہ اپنا ہلتا ہوا سر لے کر انہیں ہر طرف تلاش کر رہا تھا۔ کمروں کی طرف اور باہر باغ میں اس نے ہر تاریک گوشہ چھان مارا لیکن اسے کچھ بھی دکھائی یا سنائی نہ دیا۔
پھر وہ آہستہ قدموں سے اپنے گھر کی جانب چل پڑا۔ راستے میں وہ میس مونسن کے ڈیرے کے قریب سیگزرا جو کہ بلند گودام کے عقب میں واقع ایسے لگتا تھا جیسے تاریک نگرانی کے میناروں کے حصار میں ہو۔
اس نے اپنے اپنے بڑے بڑے ہاتھوں کو سختی سے مٹھیوں کی صورت بھینچ لیا۔ بے دردی سے اپنے ہونٹوں کو کاٹا۔
کیسا ہو کہ ایک طوفانی رات کوئی اس گھاس پھونس کی چھت کو پھونک ڈالے؟ تاریکی میں اس کے ہونٹ لٹکے ہوئے تھے۔
اس سوچ نے اسے ایک لمحہ کو مسرت بخشی۔ وہ چشمِ تصور میں اس بھڑکتی آگ کو دیکھنے لگا۔ ساری مخلوق اندھا دھند بھاگ رہی تھی۔ زمینداروں کا سا شہر راکھ کا ڈھیر بن چکا تھا۔ وہ اپنی سوچوں کی ہلچل اور اپنے سینے میں مچلتی اس صدا سے واقف تھا جو ہر چیز کو جلا کر راکھ کر دینا چاہتی تھی۔ ایسا کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا لیکن اس سوچ سے آگے کچھ نہیں ہوتا تھا… اس سے آگے کبھی کچھ بھی نہ ہوتا تھا۔ اسے بہت اچھی طرح علم تھا کہ اس جشن سے اگلے روز سب کچھ ختم ہو جائے گا اور مئی کے ایک دن وہ اور این رشتۂ ازدواج میں بندھ جائیں گے۔
اور پھر ایک روز جب میس مونسن کی یہ جاگیر اس کے بیٹے کے ہاتھ آجائے گی تو وہ اپنی لمبی اونی جرابیں پہنے، اپنی ٹوپی ہاتھ میں لے کر اس کے پاس کوئی کام حاصل کرنے کی التجا لے کر آئے گا۔ کوئی بھی کام، گائیوں کی غلاظت دھونے، کیچڑ بھرے جوہروں کی صفائی یا سور کے گوشت کے پارچے بنانے کا کام…
… اور پھر یہی ہوا۔
Henrik Pontoppidans ‘Idyl’
Sandinge Menighed. En Forteeaelling (1883).
سے لیا گیانیا اور مختصر ورژن (صدف مرزا)
٭…٭…٭

اپنا تبصرہ لکھیں