یہ واقعہ معروف سعودی عالم دین، اسلامی اسکالر اور داعی شیخ محمد بن عبد الرحمن العریفی نے بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اردن میں، میں نے ایک درس دیا اور نماز کے حوالے سے کچھ باتیں کیں۔ درس کے بعد ایک نوجوان نے کہا کہ میرا قصہ میری نماز کے ساتھ ہے۔ آپ کو سنانا چاہتا ہوں۔
وہ اردنی کہنے لگا: ”میں شرابی تھا، اپنے دوستوں کے ساتھ شراب پی کر ایک دن میں نے نماز پڑھنے کا ارادہ کیا۔ جب نماز شروع کرنے لگا، میری نظر مسجد کی دیوار پر لکھی اس حدیث پر پڑی:
”جو نماز تمہیں برائی سے نہ روکے ایسی نماز قبول نہیں ہوتی۔“
(شیخ نے صراحت کی کہ یہ حدیث ضعیف ہے)
نوجوان کا بیان ہے کہ میں نے سوچا ایسی نماز کیوں پڑھوں، جو قبول ہی نہیں ہو گی۔ میں نے دس سال نماز نہیں پڑھی۔ ایک دن ایک پارٹی میں، میں ایک جدہ کے نوجوان کے ساتھ پیٹھا شراپ پی رہا تھا۔ اس نوجوان نے مجھ سے پوچھا تمہاری گرل فرینڈ کہاں ہے؟
میں نے جواب دیا میری کوئی گرل فرینڈ نہیں۔ وہ کہنے لگا: تم زنا نہیں کرتے؟ میں نے کہا: نہیں۔ اس نے کہا تم زنا نہیں کرتے، پھر تم نماز کیوں نہیں پڑھتے؟
وہ جدہ کا نوجون کہنے لگا: دیکھو خدا اور بندے کے مابین کچھ رسیاں ہیں۔ ماں باپ سے حسن سلوک رسی ہے، روزہ رکھنا رسی ہے، صدقہ کرنا رسی ہے، نماز رسی ہے، جب تم ماں باپ سے حسن سلوک نہیں کرتے، تم ایک رسی کاٹ دیتے ہو، روزہ نہ رکھ کر دوسری رسی کاٹ دیتے ہو، صدقہ نہ دیکر تیسری رسی کاٹ دیتے ہو۔ پھر وہ کہنے لگا کم از کم ایک نماز والی رسی تو نہ کاٹو، کبھی تمہارے کام آئے گی۔
اس (اردنی) نے کہا: میں وہاں سے اٹھا، اپنے گھر آیا، غسل کیا اور مغرب اور عشاء کی نماز پڑھی اور اس دن سے لیکر آج تک میری کوئی نماز نہیں چھوٹی۔
اچھی کہانی ہےنماز کسی کو کسی وقت بھی راہ راست پر لانے سکتی ھے