ایک نیم ادبی رپورٹ
جس میں یاد رفتگاں کے علاوہ ذکر عمر بہاراں بھی ہے
مقصود الہی شیخ ۔ بریڈفورڈ (یوکے
نومبراوردسمبر میں پاکستان گیا تو وہاں مسلسل سفر میں رہا ۔ اسلام آباد، لاہور، گجرات اور کراچی کے علاوہ خیرپور، پشاور اور فیصل آباد میں منعقدہ تین تین انٹرنیشنل کانفرنسوں میں شرکت کی ۔ تھکا دینے والی مصروفیت رہی مگر اچھے اور اونچے علم پرور لوگوں سے ملا ۔ بزم قلم کے بعض ممبروں سے بھی ملاقات رہی ( احمد صفی ، ناصرعلی سید) ادب کے حوالے سے کچھ سیکھا ۔ اسی دوران لاہورمیں ماہنامہ الحمرا کے ایڈیٹر شاہد علی خاں سے پہلی ملاقات ہوئی ۔ وہ خوش تھے ماہنامہ ” الحمرا ” نے بارہ سال پورے کر لئے تھے ۔ رسالے نے مولانا ظفر علی خان، مولانا حامد علی خاں اور پروفیسر حمید احمد خاں کی یادیں زندہ و تابندہ رکھیں ۔ اس ملاقات میں مجھے خیال آیا ماضی میں ماہنامہ افکار کراچی، شاعر ممبئی کی جبلیوں کے جشن کا اہتمام اورخمدمات کے اعترافی ایوارڈ ہفت روزہ ” راوی ” بریڈفورڈ جاری کر چکا ہے ۔ ایک بار نوشہرہ سے شائع ہونے والے رسالہ ابلاغ ( مدیرہ سیدہ حنا، مدیرحامد سروش ) کی معاون مدیرہ نسرین سروش صاحبہ کو اعتماد میں لیا کہ ” ابلاغ ” کی بارہویں سالگرہ ایک نئے طریقے سے مناتے ہیں ۔ وہ یوں کہ اس کے بارہ نئے خریدار متعارف کرا رہا ہوں اسے راز مین رکھئیے اور مناسب موقع آنے پر محترمہ سیدہ حنا کو سرپرائز دیجئے گا ۔ انہوں نے ایسا ہی کر کے وہاں سبھوں کو خوشگوار حیرت میں ڈال دیا ۔ ایک اداسی کا ذکر بھی لازم ہے ۔ کچھ عرصہ بعد سیدہ حنا کی وفات پربریڈفورڈ میں ایک تعزیتی مجلس بھی منعقد کی ۔ ان سے قبل شاعر موج فرازی ( + نام یاد نہیں آ رہے) اور کپتان حکمداد کی یاد میں شمعیں جلائی گئی تھیں ۔ میں تو اردو کی خدمت اور وطن عزیز کی ابلاغیات کے فروغ کا شوق رکھتا تھا مگر وطن میں ہمارے احباب بھی کچھ کم خوش نہ تھے کہ ولایت میں اردو کے چراغ روشن ہو رہے ہیں ۔ الحمرا کے مدیر سے ملاقات میں خیال یہی آیا کیوں نہ اس معیاری رسالے کے ٹین ایج کی طرف مڑنے کی یو کے میں بھی سالگرہ منائی جائے ؟
پاکستان سے واپسی پر میں علیل ہو گیا لیکن دوران سفر دو دوستوں ( ڈاکٹر الہی بخش اختر اعوان اور ھترمی صفیہ صدیقی) کی وفات کی خبر سننے کے بعد پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ ان کی اور بہت بڑے افسانہ نگار قیصر تمکین صاحب کی یاد تازہ کروں گا ۔ صحت ہونے پر اور جگہ کی دستیابی کے بعد کہ یہاں کسی مناسب جگہ کا ملنا بھی ایک مسئلہ ہے ۔ بالاخر سترہ مارچ کو ” رائٹرز کوآپ ” کے بینر تلے ایک یادگار مجلس کا اہتمام کرنے میں کامیاب ہو پایا ۔ حالات کچھ ایسے تھے کہ مختلف نوعیت کی دو دو اور الگ الگ محفلوں کا انعقاد ممکن دکھائی نہ دیا چنانچہ مشوروں کے بعد طے پایا یاد رفتگان اور سالگرہوں کا اہتمام ایک ہی روز کیا جائے ۔ پروگرام یوں ترتیب دیا جائے کہ سنجیدگی قائم رہے اور ناخوشگواریت کا کوئی پہلو سر نہ اٹھائے یعنی مرحومین کو خراج عقیدت اورساتھ ساتھ دیرینہ کرمفرما جناب محمد احمد سبزواری کی ویں نیز” الحمرا ” کی ویں سالگرہ سب اس طرح اکٹھا، ایک روز اور ایک جگہ مگر کسی زاوئیے کچھ بھی خلط ملط نہ ہو ۔ کدا نے توفیق دی اور ایسا ہو گیا ۔
پہلے سیشن میں ڈاکٹر الہی بخش اختر اعوان، صفیہ اختر اور قیصر تمکین کو بالتریب ڈاکٹر تمثیل اعوان، افضل قریشی اور مقصود الہی شیخ نے خراج پیسش کیا ۔ مقصود نے مہمانوں کے خیال اور وقت بچانے کی خاطراپنا مضمون نہیں پڑھا اور ڈاکٹر تمثیل کو دے دیا ۔ اسلام آباد سے ڈاکٹر ضیا الدین پشاوری جنرل سکرٹری ہندکو بورڈ کا پیغام پڑھا گیا ۔ صفیہ صیقی مرحومہ پر احمد صفی ابن صفی کے صاحبزادے کا مضمون ان کی بہن ثروت صدیقی نے پڑھا ۔ اونچے اور عالمی شہرت کے مصنف و صحافی آصف جیلانی نے صفیہ کی ادبی حیثیت اجاگر کرنے کے علاوہ ان کی انتظامی اور قائدانہ صلاحیتوں کا تذکرہ کیا ۔ آصف جیلانی اور مرحومہ روزنامہ ” جنگ ” لندن میں ایک ساتھ کام کرتے رہے ۔ ان کے بیان پر جناب منصور الحق صدیقی اور بیٹی ناعمہ متاثر ہوئے اور ان کی آنکھیں نم ہو گئیں ۔ محسنہ جیلانی کے مضمون کے بعد خدیجہ زبیر نے اپنے اظہاریہ میں صفیہ صدیقی کو اپنی محسن دوست کہا ۔ ان کا اظہاریہ کے بعد مقصود الہی شیخ نے چند الفاظ میں صفیہ کی شخصیت کا وہ پہلو بیان کیا جو دردمندی سے مملو اور قومی زبان کے لئے مختص تھا۔ خدیجہ کا درد بھرا اظہاریہ اور اور مقصود الہی شیخ کا مختصر خراج محفل کو متاثر کر گیا ۔ برصغیر کے معروف افسانہ و ناول نگار قیصر تمیکن پر ایک سیر حاصل مضمون افسانہ و ناول نگار جاوید اختر چوہدری نے پڑھا ۔ مقصود الہی شیخ نے قیصر کی ذات کی مقناطیسیت اور خوش گوئی پر تحسین کی ۔ انہوں نے بتایا کی ان کے یہاں نثری نشست کے بعد مشاعرہ اور ہال خالی کرنے پر گھر پر رات بھر مشاعری کی رسم رہی ہے ۔ ایک مرتبہ مشاعری ہوئی تو قیصر تمکین نے سب مہمانوں کو اپنے وسیع مطالعے کی بنا پر صبح تک جگائے رکھا اور کسی نے بوریت محسوس نہ کی ۔ قیصر تمکین کی نواسی آ منہ منیر نے لندن ائرپورٹ سے فون کر کے شرکت کی ۔ یہ بھی بتایا وہ اور دوسرے افراد خاندان اورمحترمہ صبیحہ علوی امریکہ سے واپس تو پہنچ گئے ہیں مگر اب ممکن نہیں کہ اتنی دورآ کر جلسہ میں شریک ہو سکیں ۔ جلسہ کامیاب رہا ۔ لندن سیصفیہ جی مرحومہ کی فیملی ( افراد)، برمنگھم سے طلعت سلیم ان کی صاحبزادی نیلوفر () اور برمنگھم سے ہی جاوید اختر چوہدری، مانچسٹر سے شیراز علی ۔ بلیک برن سے ڈاکٹر الہی بخش مرحوم کی فیملی( چار افراد) ۔۔ سب حاضر ۔ موسم اور ویک اینڈ ٹریفک کی مشکلات رکاوٹ نہ بن سکیں تاہم طبعیت وغیرہ کی اچانک خرابی کے باعث دس احباب کی غیرحاضری رہی . یہ کمی مقامی دانش وروں کی موجودگی نے محسوس نہ ہونے دی ۔
پاکستان سے ڈاکٹرانورسدید، پروفیسر معین الدین عقیل اور مسعود احمد برکاتی، تنویر اختر لندن، خدیجہ زبیر تنگل ووڈ (سرے)، ڈاکٹر محمد یوسف قمر، ڈاکٹر سعید اختر درانی برمنگھم، غلام قادر آزاد مانچسٹر اور لورپول سے لطیف راز کے موصولہ خیر سگالی اور خراج عقیدت پر مبنی پیغامات مختلف دوستوں نے پڑھ کر سنائے ۔ پاکستان سے نسیم سحر کا پیغام پڑھا گیا جس کے آخری فقرے پر چیف اینکر نے نکتہ اٹھایا کہ ہم مغتب میں ایسی تقریبات مناتے ہیں، کاش پاکستان میں بھی علم و ادب کی شمعیں اسی طرح روشن کی جائیں ۔ پروگرام بڑا گندھا اور گتھا ہو تھا ۔ رفتگان کی یاد اور پھر جشن سالگرہ مگر ظفر تنویر چیف اینکر نے بڑی مہارت سے اس باوقار تقریب کی کاروائی کو پروگرام کے مطابق سرانجام دیا ۔ ) ۔
I really wanted to write down a simple comment to be able to appreciate you for all of the nice tactics you are sharing here. My time-consuming internet search has at the end of the day been compensated with wonderful facts and techniques to write about with my pals. I would believe that many of us website visitors are extremely fortunate to live in a fantastic community with many perfect professionals with beneficial hints. I feel very much happy to have used the web pages and look forward to tons of more exciting times reading here. Thanks again for everything.