رپورٹ شازیہ عندلیب
پچھلے دنوں اوسلو کے مضافات ہولملیاء میں ایک ننھی بچی کی پیدائش کی خوشی میں ایک تقریب میں شرکت کا موقعہ ملائ۔تقریب اس قدر دلفریب ،روح افزاء اور پر لطف تھی کہ دل میں اتر گئی۔وقت اور زمانے کے ساتھ ساتھ رسم و رواج بھی بدل جاتے ہیں۔نئے معاشروں میں نئی تہذیبیں اور رواج سامنے آتے ہیں کچھ رواج ہمارے مذہب و معاشرت سے میل نہیں کھاتے مگر کچھ بے ضرر قسم کے رواج جو مل بیٹھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔انسانی معاشرے کو سماجی رابطوں میں باندھننے کے کام آتے ہیں۔ایسا ہی ایک نیا رواج آجکل نو مولود بچوں کی خوشی کی تقریب منعقد کرنا بھی ہے۔اسی طرح نئے گھر کی خوشی کی تقریب کرنا یا کسی قسم کی کامیابی کے سلسلے میں کسی پارٹی کا ہتمام تو پہلے سے رائج ہیں جبکہ آجکل ایک اور رواج جو ہماری پاکستانی سو سائٹی میں شروع ہوا ہے وہ شادی بیاہ کے موقع پر ڈھولکی کی تقریب ہے۔یہ تقریب شادی والے گھر کے علاوہ کوئی بھی قریبی دوست یا رشتہ دار اپنے گھر میں منعقد کر لیتا ہے اس طرح جو لوگ شادی میں مدعو نہیں ہوتے وہ بھی اس حوالے سے اس خوشی میں شریک ہو جاتے ہیں۔اس طرح کی کئی تقریبات میںشرکت کا موقع ملا۔ اسپر تفصیلی بات تو پھر کبھی ہو گی مگر آج کا موضوع نو مولود بچوں کی خوشی کی تقریب ہے۔بچوں کی خوشی کی تقریبات بچپن سے صرف رسم عقیقہ یا پھر سالگرہ کی صورت میں ہی دیکھی۔کھاتے پیتے لوگ ایسی تقریبات کا خاص اہتمام کیا کرتے ہیں۔جو کسی شادی یا بارات سے کم اہتمام نہیں ہوتا جیسے کارڈز چھپوائے جاتے ہیں۔تقریب عقیقہ کسی ہوٹل یا فنکشن ہال میں کروائی جاتی ہے۔اسٹیج پر والدین اپنے نو مولود کے ساتھ جلوہ افروز ہوتے ہیں۔لیکن اگر کسی ہال میں فنکشن نہ ہو تو اکثر ایسی تقریبات گھروں پر بھی منعقد کر لی جاتی ہیں۔جن میں کئی بن بلائے مہمان بھی تشریف لے آتے ہیں ۔ اسی طرھ ایک رسم عقیقہ کے موقع پر ایک مفت خورہ کسی کے گھر میں گھس کر دعوت طعام کا انتظار کرنے لگا ۔کھانا کھلنے میں ابھی دیر تھی۔ اس نے وقت گزاری کے لیے پاس بیٹھے مہمان سے پوچھا آپ لڑکے والوں کی طرف سے ہیں یا لڑکی والوں کی طرف سے۔مہمان نے اسے عجیب نظروں سے گھورا۔جواب نہ پا کر مفت خورہ پھر گویا ہوا اچھا چلیں یہ بتائیں کہ دولہا کب آئے گا؟؟ جواب میں دوسرا مہمان بولا دولہے کا تو نہیں پتہ کب آئے گا پر تمہاری شامت آگئی ہے یہ کہ کر اس نے مفت خورے کو وہ ڈانٹ پلائی کہ کچھ کھانے پینے کا ہوش نہ رہا۔تقریب عقیقہ میں مدعو میراثی جب جگت بازی کر چکے تو دروازے پر پہلے فقیروں اور گداگروں کا جم غفیر آیا۔ان گداگروں کے خفیہ ذرائع ابلاغ کسی جاسوسی کے عالمی محکمے کی طرح تیز ہوتے ہیں چنانچہ جس گھر میں کوئی بچہ پیدا ہو جائے یا کوئی خوشی کی تقریب ہو گداگروں کی رپورٹنگ ایجنسیاں تقریب عروسی یا تقریب حجامت نو مولود جسے پنجاب میں جھنڈ بھی کہا جاتا ہے کی خبرکسی بریکنگ نیوز کی طرح حلقہء فقیراں میں گردش کرتی ہے۔فقیروں کے غول کے غول خوشی کی محفلوں والی عمارت کے گرد منڈلانے لگتے ہیں۔دوسری جانب خواجہ سراء اور دیگر شوقیہ رقاص پارٹیاں بھی ٹوہ لیتی ہوئی جائے تقریب پر جا پہنچتی ہیں۔اس طرح یہ دونوں ٹیمیں اپنے اپنے مطالبات خوشی والے گھر کے مکینوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔مطالبات اور رقوم کی فرمائش ایسے کرتے ہیں جیسے تاوان یا جگا ٹیکس طلب کر رہے ہوں کہ اگر مطالبہ تسلیم نہ کیا گیا تو پھر اپنی خیر منا لو جیسی دھمکیاں پوشیدہ ہوتی ہیں۔اکثر خواجہ سراء کم رقم ملنے پر بد دعائوں اور کوسنوں سے بھی نوازتے دیکھے گئے ہیں۔یہ تو میرے بچپن کے وہ تجربات تھے جو اپنے دیس میں دیکھے۔
مگر کسی بچے کے پیدا ہونے پر ایک پارٹی یا گیٹ ٹو گیدر جیسی تقریب پہلی بار دیکھی۔یہ ایک ایسی تقریب تھی جس میں ہر خوبصورت اور بھرپور رنگ تھا۔معلمہء اور کالم نگار ساجدہ پروین کے گھر میں جیسے ہی ایک ننھی بچی کی آمد کی خبر سنی ہر کوئی انہیں مبارکباد دینے کے لیے بے چین ہو گیا۔لیکن آجکل کے دور میں جبکہ انسان نے جاب بھی کرنی ہو،گھر کا کام بھی خود کرنا ہو ۔یہاں تو ملازم بھی نہیں ہوتے پاکستان کی طرح۔اور پھر اگر ہر طرف سے مہمان بھی آ جائیں خاص مواقع پر تو ہر چیز سے نبٹنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔اس لیے ساجدہ پروین نے یہ مثدہ سنایا کہ وہ جلد ہی ایک تقریب رکھیں گی جس میں سب مل کر مبارکباد دے سکتے ہیں۔میں جب ان کے گھر پہنی ابھی چند مہمان خواتین ہی آئیں تھیں۔ساجدہ جی مجھے اپنی چھوٹی سی لائیبریری میں لے گئیں جہاں شیلفوں میں بڑے سلیقے سے مذہب لٹریچر اور دیگر موضوعات پر قیمتی کتابیں رکھی تھیں۔انہوں نے اپنی خوبصورت تحریر میں لکھے ریمارکس کے ساتھ امام شافعی کے علمی سفر کی کتاب کا تحفہ مجھے دیا۔جو میرے لیے کسی قیمتی اعزاز سے کم بات نہیں تھی۔یہ اتوار کی ایک برفیلی شا م کی گرما گرم محفل تھی۔جلد ہی سب مہمان خواتین جمع ہوگئیں ۔یہ تمام خواتین ترجمہ و تفسیر سے یا تو قرآن پاک پڑھ چکی تھیں یا پھر کچھ کا یہ کورس ختم ہونے والا تھا۔اس لیے فضاء میں ایک عجیب نا معلوم سی پاکیزگی اور تقدس کا دل کو چھو لینے والا احساس جا گزیں تھا۔سادہ سا ڈرائنگ روم صاف ستھرا اوپن کچن اپنے مکینوں کے اعلیٰ اوصاف اور پاکیزگی و سادگی کا مظہر تھا۔ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی سرخ لباس اور میچنگ ہیئر بینڈ میں ملبوس ننھی پری صوفے پہ ہر کسی کو اپنی جانب متوجہ کر رہی تھی۔یہی وہ خوبصورت پھول تھا جو ساجدہ جی کے آنگن میں کھلا اور جس کی آمد کی خوشی میں یہ تقریب منعقد کی گئی تھی۔ننھی سائحہ کی عمر ڈیڑھ ماہ کے قریب تھی اور وہ ہر آنے والے کے ساتھ ایسے خوش ہو کر اوں آں کر رہی تھی جیسے اس تقریب کا ادراک رکھتی ہو۔صاف پتہ چلتا تھا کہ کسی علمی گھرانے کی ذہین بچی ہے۔گویا بچے کے پوت پالنے میں ہی نظر آرہے تھے۔اس تقریب میں دور و قریب سے مہمان خواتین آئی تھیں۔ایک بڑا گروپ استوونر سے آیا تھا۔پورا ڈرائنگ روم کسی ہائوس فل کا منظر پیش کر رہا تھا۔جن خواتین کو صوفہ یا کرسی پر جگہ نہیں ملی وہ نیچے قالین پر ہی بیٹھ گئی تھیں۔یہاں چھوٹے بچے بھی تھے مگر کوئی بد نظمی نہیں تھی۔سب لوگ آرام سے بیٹھے تھے۔یہ خواتین icc یعنی اسلامک کلچرل سنٹر کی ممبر بھی ہیں۔دو تو میری ہائی اسکول اوسلو کی کلاس فیلوز بھی تھیں جن مین نیر احسن اور راحیلہ شامل تھیں۔
جب سب خواتین جمع ہو گئیں تو انہوں نے ساجدہ جی سے درس کی فرمائش کر دی کیونکہ وہ اس قدر دلنشین اسلوب اور انداز بیان کے ساتھ درس دیتی ہیں کہ دل و دماغ جھوم اٹھتا ہے۔درس سے پہلے سب خواتین نے اپنا تعارف کروایا۔میں نے اپنے تعارف کے ساتھ اہل محفل سے سوال کیا کہ کیا وہ جانتی ہیں کہ ساجدہ پروین صرف درس ہی نہیں دیتیں بلکہ ادبی ذوق کے ساتھ ساتھ لکھاری بھی ہیں۔کئی خواتین اس بات سے لا علم تھیں۔اس قدر قابل ہونے کے باوجود ساجدہ پروین کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ کبھی کسی کو بتایا ہی نہیں کہ وہ نہ صرف اردو فلک پہ بلکہ اس سے پہلے پاکستان کے ایک خواتین کے جریدے میں بھی لکھتی رہی ہیں۔سب نے اس انکشاف پہ ایک حیرت آمیز خوشی کا اظہار کیا۔میں نے ساجدہ کے کالم” پہلا سجدہ ” اورخواتین کے مسائل پر مبنی آرٹیکل” بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح “کا ذکر کیا جسے
سب نے بعد میں پڑھا ۔ اور چنانچہ انہوں نے ایک مختصر سا درس دیا جوکہ سورة ولضحٰ کے بارے میں تھا۔اس کے بعد محفل میں موجود بچوں نے تلاوت قرآن پاک اپنی معصوم آوازوں میں پیش کی۔سب سے پہلے ہولملیاء مسجد کے مولوی صاحب کے آٹھ سالہ بیٹے عبداللہ نے ایک سورة کی تلاوت کی اس کے بعد بیورن ڈال مسجد کی معلمہء فرح طیب کے چھ سالہ بیٹے نے تلاوت کی۔
اس کے ساتھ کچن کی میز پر کھانا چن دیا گیا۔سب مہمان قطار میں جا کر کھاناپلیٹوں میںڈالتے جاتے اور ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر کھانے لگے ۔اس دوران خواتین آپس میں خوش گپیوں میں مصروف ہو گئیں۔نیر احسن سب سے ذیادہ چہک رہی تھیں بلکہ بہت ہی باغ و بہار شخصیت کی مالک ہیں۔وہ ہر بات میں کوئی نہ کوئی مزاح کا پہلو نکال لیتی تھیں۔مجھ سے کئی خواتین نے سائٹ کے حوالے سے بھی بات کی اور خواتین کی آرگنائیزیشن انٹر کلچرل گروپ کے بارے میں بھی گفتگو کی۔میرے پاس ایک خاتون اپنے بچے ابراہیم کی معصوم باتیں بتا رہی تھیں کہ اتنی دیر میں ساجدہ صاحبہ نے کہا کہ سب اہل محفل کوئی دلچسپ واقعہ سنائیں۔میں نے اپنے پا س بیٹھی وئی روبینہ کو کہا کہ آپ وہی واقعہ سنائیں جو مجھے بتا رہی تھیں۔
انہوں نے بڑے دلچسپ انداز میں بتایا کہ میںمسجد میں مولوی صاحب کا خطبہ سن رہی تھی۔مولوی صاحب حضرت ابراہیم کا واقعہ سنا رہے تھے کہ کیسے انہوں نے خانہ کعبہ بنایا اور اللہ کی راہ میں کیا کیا قربانیاں دیں۔میرا چار سالہ بیٹا ابراہیم بھی میرے ساتھ تھا۔وہ مجھ سے کہنے لگا امی یہ دیکھیں مولوی صاحب میرے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں کہ ابراہیم نے یہ کیا ابراہیم نے وہ کیا ۔۔۔امی میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔۔۔۔بچے کی اس معصومانہ بات پر پوری محفل کشت زعفران بن گئی۔
پھر روبینہ ایک اور واقعہ بتاتے ہوئے کہنے لگیں کہ میری چھوٹی بیٹی اپنی دوست کے گھر کھیلنے گئی۔گھر میں ایک سوٹڈ بوٹیڈ شخص داخل ہوا۔میری بیٹی نے اپنی سہیلی سے پوچھا یہ کون ہے ؟؟اس کی دوست بولی یہ میرے پاپا ہیں۔دونوں اوپر کی منزل میں کھیلنے چلی گئیں۔جب کھیل کر نیچے آئیں تو ایک اور شخص جس کے سر پر بال نہیں تھے اور اس نے گھر کا عام سا لباس پہن رکھا تھا۔ جیساکہ اکثر لوگ گھرمیں دھوتی بنیان پہن کر ایزی محسوس کرتے ہیں ۔پہن کر گھر میں گھوم رہا تھا۔میری بیٹی نے اپنی سہیلی سے پوچھا یہ کون ہے ؟؟اس کی سہیلی نے کہا یہ میرے پاپا ہیں نا ۔میری بیٹی نے حیرت پوچھا’اچھا تو تمہارے دوپاپا۔۔۔۔ تو اس کی دوست نے اسے سمجھایا نہیں بیوقوف میرے پاپا وگ لگاتے ہیں وہ بھی یہی تھے اب انہوں نے وگ اتار دی ہے۔
پھر کئی خواتین نے دلچسپ واقعات سنائے۔عظمیٰ نے ایک لطیفہ سنایا کہ ایک عورت نے ہرن کا گوشت پکایا اور بچوں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے سوا ل کیا کہ بچوں بتائو تو بھلا میں نے کس جانور کا گوشت پکایا ہے ۔جب بچے ٹھیک جواب نہ دے پائے تو اس عورت نے کہا لو میں تمہیں اشارہ دیتی ہوں یہ اس جانور کا نام جس کا نم لے کر تمہارے پاپا مجھے پیار سے بلاتے ہیں۔ایک بچہ زور سے چیخا
اوئے نہ کھائیں اوئے کھوتی دا گوشت پکا ای۔
اکثر لوگ ایک دوسرے کو پیار سے ڈئیر کہتے ہیں جبکہ انگلش میں ڈئیر ہرن کو کہا جاتا ہے۔
اس کے بعد کچھ خواتین اور لڑکیوں نے شاعری اور نظمیں بھی سنائیں۔میں نے بھی اوسلو سٹی کے بارے میں اپنے ایک بند کے چند اشعار سنائے
جگنوئوں اور تتلیوں کے جھلملاتے شہر میں
آشناء تو ہیں بہت پر رہنماء کوئی نہیں
اس کے ساتھ ہی یہ تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔اس تقریب کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں عورتوں اور بچوں نے نہ صرف شرکت کی بلکہ سب نے بہت لطف بھی حاصل کیا۔اہم بات یہ ہے کہ اس میں مختصر سے درس کی صورت میں ذکر الہیٰ بھی تھا۔جبکہ فرمان الہیٰ ہے کہ اللہ تبارک تعالی اس محفل پر رحمتیں نازل کرتا ہے جہاں اس کا ذکر کیا جائے۔پھر اس میں ہنسی مذاق بھی تھا اور ادبی ذوق کی تسکین بھی۔ایسے ماحول میں پر ورش پانے والے بچے یقیناً اچھے مسلمان بنیں گے۔بعض لوگ بچوں کی خوشی مناتے وقت نا چ گانے کی محفلیں سجاتے ہیں جس سے ان بچوں میں یہی رجحانات پرورش پاتے ہیں۔اس لیے اگر ہم اپنی آئندہ نسلوں کو اچھا مسلمان بنانا چاہتے ہیں تو اس طرح کی محفلیں سجائیں نہ صرف بچوں کی پیدائش پر بلکہ کسی بھی خوشی کے موقع پر درس،دلچسپ واقعات اور نظمیں نعتیں وغیرہ سنا کر محفلوں کو گرمایا جا سکتا ہے۔آزمائش شرط ہے
Bohat acha likha Shazia aap ne is taqreeb k bare me.hume aesi hi mehflon ka inaqad karna chahey jahan se hamare bachon ko seekhane k liye kuch mile.
جی تنزیلہ آپ درست کہتی ہیں اس قسم کی محفلیں ہمارے بچوں کی تربیت پر اور شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
ہم سب کو ایسی محفلیں منعقد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اگر آپ جیسے کچھ اور لوگ بھی اس بات پر متفق ہو جائیں تو ہم ضرور اپنی آئندہ نسلوں کو اچھے مسلمان شہری بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
رپورٹ کو سراہنے کا شکریہ۔
is mehfil ko aik positive zawye se dekhne ka boht achaa andaz tha.. acha laga parh k aur saeyha ki zindagi k shuru k sehfo per likhi jane wali mehflon mai se zaberdast mehfil.. Allah tAla hmari koshishon ko kbul kre…ameen..