اے خود تراشیدہ سوچ تجھ میں اب ایسا کیا ہے
شاعرہ : شعاعِ نور
کہ ہر تصور جو لغزشوں سے
جو خود پسندی سے جڑ چکا ہے
ترے سے ہوکے نکل رہا ہے
اور ایک تو بس مصر ہے اس پہ
کہ ابن آدم سنبھل رہا ہے
قریب آ روبرو مرے تو تجھے بتاؤں
تجھے حقیقت شناس منظر میں
قید کرلوں تجھے جگاؤں
انا میں جکڑی ہوئی مجرد
خیال رکھتی اے سوچ
تجھ میں سرور کم ہے غرور زیادہ
اے خوش فہم سوچتی ہے پل پل کہ تجھ میں ہے اک شعور زیادہ
یہ بدنصیبی نہیں تو کیا ہے
کہ تو جہالت کی انتہا ہے
خدا شناسی کے سب مراتب کو تونے محدود کردیا ہے
حسین فطرت کے دائرے کے سفر کو مسدود کردیا ہے
اے خود تراشیدہ سوچ
کب تک تلاشتی ہی رہے گی منبر
پہ ایسے واعظ
کوئی تسلی کوئی تشفی کہاں سے دیں گے
جو خود ہی مغلوب نفس ٹھہرے
سراب ہیں یہ گماں ہی دیں گے
اے خود تراشیدہ سوچ
تونے خود اپنے ہاتھوں میں
بیقراری کی سب لکیریں یوں کھینچ ڈالیں
کوئی تسلی کا پھول تیری ہتھیلیوں پہ کہاں سے کھلتا
کوئی بھی اعزاز صبر کا پھر کہاں سے ملتا
کہاں سے ملتی تجھے تسلی کی وہ عبارت
کہ جسکو پڑھ کے سکون ملتا قرار ملتا
حسین راہوں پہ یار ملتا
یہ ناامیدی کے سارے لشکر
دکھوں کے لشکر
جو سنگ راہ ہیں
بتا بھلا کیا دفاع کریں گے
بتا یہ کیا انشراح کریں گے
ترے خیالات کب دفاع کر سکیں گے ان سے
کہ تجھ میں دم کب رہا ہے اتنا
اگر ہے کچھ دم تو بول کتنا
مگر یہ اک سچ کہ جس سے نظریں چرا رہی ہے
یہ اک حقیقت کہ جس سے دامن بچا رہی ہے
اے رہزن سوچ راہ مقصود تو بتادے
کہاں ، کدھر ، اور کس طرف ہے
یہ تیری منزل مجھے دکھادے
یہ جستجو یہ تلاش تیری
یہ آس تیری یہ پیاس تیری
جہاں کی لذت
جہاں کی راحت
جہاں کی خوشیاں
جہاں کی شہرت
جہاں کا فخر
اور مال دنیا
یہ عارضی گھر
وبال دنیا
کا کیا کرے گی
یہ عیب جوئی یہ نکتہ چینی
تری صدا ہیں
تری ادا ہیں
اے بدگماں سوچ
کون ہے تو کہاں سے آئی
یہ بے لحاظی ,انا کے جلوے
یہ خود سری اور چاہے جانے کی
اک ستائش
جو تیری جاگیر ہوچکے ہیں
مقدروں سے گلہ نہیں ہے
جو بو رہے ہیں وہی تو تقدیر ہوچکے ہیں
کسی سے تو کیا وفا کرے گی
کسی سے تو کیا نباہ کرے گی
اب اس سے پہلے کہ روشنی کی
پیامبر سوچ کبر تیرا کچل کے رکھدے
تری رعونت مسل کے رکھدے
وہ دیکھ سورج کہ جس کی کرنیں زمیں پہ گرتی پکارتی ہیں
کہ تیری تحقیق کی نگاہ کو سنوارتی ہیں
اب اس سے پہلے کہ کوئی ماتم وقوع میں آئے
صدائے تکبیر کہہ رہی ہے
نہیں ہے برداشت
اب محبت میں کچھ خیانت
کہ دور اب وہ چلا گیا ہے
نئی زمیں ہے نیا فلک ہے
گماں میں لپٹے
اب اپنے محدود سب صحیفے
اٹھا جلادے
اب آئنے سے نظر ملا لے
چھپارہی ہے جو بات خود سے
اگر ہے ہمت تو سچ بتادے