ا شفاق احمد
انتخاب عینی نیازی
میں روم میں اپنی یونیورسٹی سے واپس آرہا تھا گھر کی طرف۔ جب سینٹ پیٹر کے بڑے میدان سے گزرا تو وہاں پر ایک سکھ سردار نسواری رنگ کی پگڑی باندھے بیٹھا تھا۔ وہ بڑے غور کے ساتھ سینٹ کی بلڈنگ کو دیکھ رہا تھا، اور جو بڑے بڑے ستون تھے، ان کو گن رہا تھا۔ میں نے کہا، سردار جی! ست سری اکال!! واگروکی خالصہ ، واگروکی فتح ،وہ بے چارہ کانپ گیا، گھبرا گیا۔ ایک دم کہنے لگا، جی مینوں جانتے ہو؟ میں نے کہا، میں پاکستانی ہوں۔ وہ بہت خوش ہوا۔ کہنے لگا ، لوجی میری بڑی مشکل حل ہوگئی۔ میں دودن سے یہاں گھوم رہا ہوں، میری بولی کوئی نہیں سمجھتا۔ میں نے کہا، تم ان کی بولی نہیں سمجھتے۔ کہنے لگا نہیں ۔ عجیب ملک ہے، یہاں انگریزی کوئی نہیں سمجھتا۔ میں نے کہا ، نہیں یہاں انگریزی کوئی نہیں جانتا۔ تو میں نے کہا آئیے! آپ کو چائے پلائیں۔ میں اسے ایک قریبی ریستوران میں لے گیا، تو جب میں چائے کا آرڈردینے لگا تو اس سے پوچھا، کافی پیو گے یا چائے؟ کہنے لگا: نہیں جی! دونوں چیزوں میں سے کوئی چیز نہیں لوں گا، کچھ گرمی سی لگ رہی ہے۔ آئس کریم ہونی چاہیے۔ میں دو دن سے آئس کریم کی تلاش میں ہوں، لیکن مجھے پتا ہی نہیں، آئس کریم کو کیا کہتے ہیں۔ میں انگلی ضرور لگاتا تھا کہ یہ دو، مجھے اور کچھ ہی چیز نکال کے دے دیتے تھے تو مجھے ایک لفظ وہ بتادیں کہ آئس کریم کو کہتے کیا ہیں ؟ میں نے کہا آئس کریم کو جلاتو کہتے ہیں۔ کہنے لگا، لوجی ، پٹھا ناں رکھ دتا ہے۔ ایہہ جلان والی چیز ہے یا ٹھنڈپان والی چیز اے۔ میں نے کہا، بس! رکھا تو یہی ہے۔ اس کا نام ہی یہ ہے۔ ہم بیٹھ کے باتیں کرتے رہے۔ میں نے کہا، سردار صاحب! بڑی خوشی کی بات ہے کہ آپ کو دیکھ کر مجھے ایک طرح کی بڑی خوشی ہوئی کہ آپ نے اپنا جووجود ہے، جو آپ کو احکام دیئے گئے ہیں، آپ اس پر پورا عمل درآمد کرتے ہیں۔ کیس رکھتے ہیں، ڈاڑھی آپ کی ہے، کڑا آپ کا ہے، پگڑی اتنی خوب صورت پہنتے ہیں۔ اس نے کہا، ہاں جی! یہ ہونا چاہیے، یہ انسان کو شناخت کرنے میں بڑی مدد دیتی ہے۔ کچھ تشخص کے بارے میں بات کرنا چاہتا تھا، لیکن پورا حاوی نہیں تھا اس کے اوپر۔ پڑھا لکھا آدمی تھا۔ میں نے کہا ، سردار صاحب! جی آدمی کا دل صاف پاک ہونا چاہیے، نیت ٹھیک ہونی چاہیے۔ کہنے لگا، نہیں جی! دل پاک صاف نیت اچھی ہو، اس کا پتا نہیں چلتا۔ جب تک اس کا ظاہر جو ہے وہ اس بات کی شہادت نہ دے۔ آپ کے دل میں کیا ہے، میں کیا کہہ سکتا ہوں ؟ میں نے کہا، باہر کا وجود جو ہے اس کے بارے میں جو آپ نے فلسفہ سازی کی ، اس کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اس نے کہا، دونوں کا تال میل ہونا بہت ضروری ہے۔ پھراس نے بڑی عجیب بات کی جو بڑے سالوں کے بعد مجھے یاد آئی۔ اس نے کہا آدمی جو ہے ، وہ اپنی وردی سے پہچانا جاتا ہے، ہر شخص کی ایک وردی ہوتی ہے، اور وہ وردی طے کرتی ہے کہ وہ کسی قسم کا آدمی ہے۔ تھانیدار کو دیکھ کر اسے بولنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ طلبا کو معلوم نہیں کرنا پڑتا۔ تھانیدار کو دیکھ کر کہتے ہیں یہ تھانیدار ہے۔ میجر کی وردی کو پہچان لیتا ہے۔پھر وہ چلا گیا لیکن میرے لیے سوچ کا ایک سامان چھوڑ گیا۔ (زاویہ کا ایک ٹکڑا) ٭٭٭