نوجوان بچوں کے والدین لازمی پڑھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ایک کولیگ بتا رہے تھے کہ میرے ایک دوست کی نئے اور پرانے موبائل کی خرید وفروخت کی دکان ہے۔ ایک دن اس دوست کے پاس اس کی دکان میں بیٹھا تھا کہ ایک ماڈرن سی خوش شکل لڑکی اپنی ماں کے ساتھ موبائل لینے آئی۔ ایک پرائس رینج بتا کر پوچھا کہ اس میں اچھا موبائل کونسا ہے جس کا کیمرہ ، میموری اور سپیڈ اچھی ہو۔ میرے دوست نے پوچھا کہ پہلے آپ کونسا موبائل استعمال کر رہی تھیں اور تبدیل کرنے کی وجہ؟ مزید یہ کہ آپ کا استعمال کیا ہے تاکہ اس لحاظ سے آپ کو بہتر موبائل بتا سکوں۔ اس نے پرانا موبائل دکھایا ہوئے کہا کہ پہلے سیمسنگ کا یہ موبائل ہےاور ہیلڈ ہو جاتا ہے اس لیے کوئی نیا لینا ہے۔ مزید کہا کہ آنلائن ایگزام ہو رہے یونیورسٹی کہ تو اچھی سپیڈ والا چاہیے۔
میرے دوست نے سیمسنگ اور چائنیز کمپنی کے دو تین موبائل دکھائے جس میں اسے سیمسنگ کا ہی ایک موبائل پسند آگیا۔ پیسے دینے لگی تو دوست نے پوچھا کہ پرانا بیچنا ہے؟
اس نے کہا کہ نہیں ابھی تو نہیں بیچنا۔
میرے دوست نے کہا کہ اگر بیچنا ہے تو میں اٹھارہ ہزار دیتا ہوں اس کا۔
اٹھارہ ہزار کا سن کر وہ لڑکی، اس کی ماں اور میں بھی حیران ہو گیا کیونکہ وہ موبائل دس ہزار کا بھی نہیں تھا۔
سب کو حیران ہوتے دیکھ کر دوست کہنے لگا کہ میں نے آٹھ کہنا تھا لیکن غلطی سے اٹھارہ کہہ دیا ہے۔ لیکن میں اپنی زبان پر قائم ہوں۔ ابھی بیچنا ہے تو اٹھارہ مائنس کر کے باقی پیسے دے دیں۔
لڑکی کی اماں فوراً سے راضی ہو کر کہنے لگی کہ دے دو کیونکہ اتنے تو کسی نے نہیں دینے۔
وہ لڑکی کہنے لگی، نہیں اس میں میرا سارا ڈیٹا ہے۔ ابھی پہلے نیو موبائل میں کرونگی پھر بیچوں گی۔
میرے دوست نے کہا کہ ابھی دو منٹ لگنے ، دونوں سیمسنگ کے ہیں،ابھی بیک اپ کر کے اس نئے میں کر دیتا ہوں۔ اس کے بعد آپ اس پرانے کو ری سیٹ فیکٹری سیٹنگ کر دینا تو سب کچھ اڑ جائے گا۔ ابھی اٹھارہ دے رہا ہوں۔ بعد میں آٹھ ہی دونگا۔
تھوڑے سے پس و پیش کے بعد ماں کی طرف سے اصرار کی وجہ سے لڑکی مان گئی۔
دوست نے اسی وقت بیک اپ کر کے نئے موبائل میں کر دیا ۔ ان کے جانے کے بعد میں نے دوست سے پوچھا کہ یہ کیا کیا تو نے؟ اتنا مہنگا لے لیا۔ اتنا گھاٹے کا سودا کیوں کیا تو نے؟
وہ شیطانی ہنسی ہنستے ہوئے کہنے لگا، تو ابھی بچہ ہے۔ تجھے کچھ بھی نہیں پتہ۔ اس میں اتنے پیسے ملتے ہیں کہ سوچ ہے تیری۔ تو چائے پی ابھی ایک جھلک دکھاتا ہوں۔
تب تک دوست اس موبائل کو ڈیٹا ریکوری پر لگا چکا تھا۔
کہنے لگا کہ ہم تو دیکھتے ہی پہچان لیتے ہیں۔ پھر اچھے کیمرے اور اچھی سپیڈ والے موبائل کی ڈیمانڈ، پرانا موبائل بیچنے پر اس کا اتنا ہچکچانا۔ ان ساری چیزوں کی وجہ سے میں نے ایک جوا کھیلا ہے۔ لگ گیا تو لاکھوں آئیں گے، نہ لگا تو پانچ دس ہزار کا نقصان بس۔
مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا تو چائے پینے لگا۔ اس سے گپ شپ کے دوران وہ مسلسل اس کے ڈیٹا ریکوری میں لگا رہا۔ جب میں نے جانے کے لیے اجازت چاہی تو کہتا چلے جانا بس دیکھتے جاؤ کہ میں نے اتنے پیسے کس لیے بھرے ہیں۔ پھر اس نے اس لڑکی کی ایسی ایسی ویڈیوز اور تصاویر دکھائیں کہ میں حیران ہو گیا۔ اسے کہا کہ یار اس کی عزت نہ اچھالو۔ وہ کہتا جس نے اپنی عزت کا خود خیال نہ کیا ہو اس کی عزت کا پاس میں کیوں کروں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور دوست سے بات ہوئی جو استعمال شدہ موبائل فون کی خرید وفروخت کا کام کرتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ اس کام میں اتنی بچت کیسے ہے جبکہ ایک دن میں دو چار موبائل سے زیادہ کی تو خریدوفروخت نہیں ہو پاتی ہے۔ تھوڑی بہت رد وکد کے بعد اس نے بتایا کہ جب بھی کوئی موبائل ہمارے پاس بکنےیا ٹھیک ہونے کے لیے آتا ہے تو سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ موبائل کس کے زیر استعمال رہا ہے۔ اس پر خاص نظر یہ رکھی جاتی ہے کہ اگر موبائل کالج یا یونیورسٹی کے کسی شاطر اور ہینڈسم لڑکے یا خوبصورت لڑکی کے زیر استعمال رہا ہو تو کسی بھی صورت میں اسے خرید لیا جاتا ہے (اس کے الفاظ کو مہذب الفاظ میں لکھا ہے)یا ٹھیک ہونے کے لیے آیا ہو تو کل کا وقت دیا جاتا ہے۔ پھر ایسے موبائل کو سب سے پہلے ڈیٹا ریکوری پر لگایا جاتا ہے۔ اب کوئی بھی موبائل ایسا نہیں ہوتا جس میں قابل اعتراض تصاویر نہ ہوں۔ دوسری تصاویر کے تقابل سے یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ تصاویر اور ویڈیوز اس کی اپنی ہیں یا انٹرنیٹ سے لی گئی ہیں۔ اپنی ہوں تو ویڈیوز اور تصاویر کی تعداد، کوالٹی وغیرہ کے لحاظ سے بیچا جاتا ہے۔ جہاں سے یہ مختلف بالغ ویب سائٹس کو فروخت ہوتی ہیں۔
مزید اس نے بتایا کہ جب بھی آپ موبائل ٹھیک کروانے جائیں تو چاہے چھوٹا سا بھی مسئلہ ہو یہی کہا جاتا کہ کل ٹھیک ہو گا۔ وجہ یہ ہوتی کہ جب کوئی موبائل بیچنے آتا تو اکثر سب کو اڑا کر اورری سیٹ کر کے لاتا ہے جس کی وجہ سے ڈیٹا ریکوری تھوڑی مشکل ہوتی مگر جو ٹھیک کروانے لائے تو اس کا تو فوراً سے سب کچھ سامنے آ جاتا ہے۔ پھر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ موبائل کس کے زیر استعمال ہے۔ وہاں سے یہ اکثر ہاتھ لگتا ہے۔
اس دوست کے بقول شاید ہی کوئی موبائل والا ہو جو یہ نہ کرتا ہو ورنہ سب نے ہی مہنگے مہنگے ڈیٹا ریکوری سافٹ وئیر خرید رکھے ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سب کا حل کیا ہے؟
پہلی بات تو یہ کہ جب بھی کوئی موبائل لیں تو اچھی طرح سوچ سمجھ کر لیں اور پھر اسے لمبے عرصے تک استعمال کریں اور کبھی نہ بیچیں۔ بیچنا ناگزیر ہو تو پھر کم سے کم چار پانچ مرتبہ اس کو مختلف غیرضروری فائلز سے بھریں اور ری سیٹ کرکے سب کچھ اڑائیں۔ پانچ دفعہ ایسے کرنے سے بہت کم ایسا چانس ہوگا کہ کچھ ملے اور اگر کچھ ریکور ہو بھی گیا تو دوسری فائلز اتنی زیادہ ہونگی کہ ان میں سے اصل کو ڈھونڈنا ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہو گا۔
کبھی موبائل ٹھیک کروانا پڑے تو پاس کھڑے ہو کر کروائیں اور جو کہے کہ کل لے جانا اسے ہرگز نہ دیں۔ کہے کہ کوئی پرزہ منگوانا پڑے گا تو اسے کچھ ایڈوانس رقم دے کر کہیں کہ منگوا لے میں کل آ جاؤں گا۔
لیکن اس سے بھی زیادہ اچھا یہ ہے کہ ایسا کچھ بنائیں ہی نہ اور موبائل کو پاک صاف رکھیں (اگرچہ یہ آج کل کے دور میں بہت ہی مشکل ہے کہ کوئی اس پر عمل پیرا ہو)۔
اور آخری اور سب سے اہم گزارش نوجوانوں کے والدین سے ہے۔ آپ کی اولاد چودہ پندرہ سال کی عمر میں ہی جوان ہوجاتی ہے۔ اور جوان ہوتے ہی جنسی ضرورت کو پورا کرنا چاہتا ہے چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میرا بیٹا یا میری بیٹی تو بہت شریف ہے تو یہ غلط استدلال ہے۔ کیونکہ جب ایک ضرورت ہے تو اسے جائز طریقے سے پورا کرنے کا انتظام نہیں کریں گے تو وہ غلط طریقے سے ہی پورا ہو گا۔ گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کا تعلق بہت عام ہے اب اور اس تعلق میں موبائل کے ذریعے وڈیوز اور تصاویر کا تبادلہ بھی کوئی بعید از قیاس بات نہیں ہے۔
اپنے بچوں کی بالغ ہوتے ہی شادی کر دیں اور وہاں جہاں وہ چاہیں۔ ذات برادری کے بکھیڑوں سے اب نکل آئیں۔ ورنہ آپ کی یہ فضول ضد آپ کی اولاد کی دنیا اور آخرت دونوں تباہ کر دیتی ہے۔ اگر کسی بھی وجہ سے رخصتی ممکن نہیں ہے تو پھر بھی نکاح لازمی کر دیں اور وہ بھی خود ان کی پسند سے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عدنان نیازی
#نیازیات