بدذات

تحریر شازیہ عندلیب

میں تو اپنے بچوں کی شادی اپنی ذات برادری میں ہی کروں گی۔مسز بشارت نے اپنا دوپٹہ سر پہ جماتے ہوئے کہا۔مسز جمال نے انگور کا گچھا پلیٹ سے اٹھاتے

zatہوئے پوچھا کون سی ذات ہے آپکی؟ہم تو ملک ہوتے ہیں۔اچھا ملک تو تیلی نہیں ہوتے؟؟نہیں تیلی تو کمیّ ہوتے ہیں ہم وہ والے ملک نہیں ہیں ہماری ذات خالص ہے۔یہ آپکی ذات کس قسم کی خالص ہے پنجاب کے دودھ جیسی یا دیسی گھی جیسی سامنے بیٹھی سفید سوٹ میں ملبوس مسز ہاشم نے ہنس کر کہا تو سب ہنس پڑیں۔کونے میں بیٹھی قدرے قیمتی سوٹ اور زیورات پہنے بیگم نادر خان بڑے فخر سے گویا ہوئیں ہم تو راجپوت ہوتے ہیں۔سامنے براجمان ایک اور خاتون کہنے لگیں لوگ ذات کے معاملے میں جھوٹ بھی بولتے ہیں۔ہوتے کچھ ہیں تو کہلاتے کچھ ہیں۔ہم مغل ہیں تو راجپوت ہیں چاہے اندر سے جن بھوت ہی نکل آئیں۔سب عورتیں بے ساختہ ہنس دیں۔قیمتی سوٹ والی خاتون خجل سی ہو گئیں۔آف وائٹ سوٹ میں ملبوس صوبر سی مسز ہاشم نے ساڑھی میں ملبوس مسز خواجہ سے کہا آپ بڑی چپ بیٹھی ہیں آپ بھی تو کچھ بتائیں آپ بچوں کی شادیاں کس ذات میں کریں گی۔مسز خواجہ سب خواتین میں سے ذیادہ پڑہی لکھی نظر آ رہی تھیں۔ہنس کر بولیں ارے ذات پات میں کیا رکھا ہے بس شریف لوگ ہوں اور ہاں رہی ذات کی بات تو ہماری طرح بد ذات نہ ہوں۔یہ سن کر محفل کشت زعفران بن گئی۔آف وائٹ سوٹ میں ملبوس مسز ہاشم کے چہرے پر مسز خواجہ کی بات سن کر ایک طمانیت بھری میٹھی سی مسکراہٹ بکھر گئی۔ان کا خوبصورت چہرہ اور بھی روشن ہو گیا ۔آج مسز ہاشم کے گھر میں پارٹی تھی جس میں انہوں اپنی دوس توں اور ملنے جلنے والی خواتین کو مدعو کر رکھا تھا۔وہ ایک آرگنائیزیشن کی سربراہ ہیں جس کا مقصد خواتین کے مسائل حل کرنا اور انہیں ملازمت اور مزید تعلیم کے سلسلے میں مشاورت دینا ہے۔انکے گھر اکثر ایسی گیدرنگ ہوتی رہتی تھیں جس میں سب عورتین کسی نہ کسی موضوع پر تبادلہ خیال کرتیں اور ساتھ میں ہنسی مذاق بھی جاری رہتا۔آج بھی ایک ایسی ہی شام تھی جس میں ذات پات کے موضوع پر دلچسپ نوک جھونک جاری تھی۔
ایک کونے میں علیزا اپنی دوست عالیہ کے ساتھ بیٹھی باتیں کر رہی تھی۔اس نے بھی گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا آپ کو پتہ ہے آنٹی میری آئی ٹی کی کلاس میں سر سب اسٹوڈنٹس کا تعارف کروا رہے تھے تو انہوںنے مجھ سے میری ذات پوچھی مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا میں نے کہا میں پاپا سے پوچھ کر بتائوں گی۔میں نے پاپا سے پوچھا کہ ہماری ذات کیا ہے ؟پاپا کہنے لگے کیوں پوچھ رہی ہو ؟ میں نے کہا ہمارے سر نے پوچھا ہے پاپا کہنے لگے تم انہیں بتانا ہم ذات کے مصلّی ہوتے ہیں۔میں نے دوسرے روز کلاس میں سر کو یہی بتایا تو ساری کلاس ہنسنے لگی۔اس میں بھلا ہنسنے کی کیا بات تھی مجھے تو سممجھ ہی نہیں آئی۔میں نے بہت پوچھا مگر کوئی بتا ہی نہیں رہاتھا۔میں نے گھر جا کر پاپا کو بتایا تو پاپا بھی ہنسنے لگے۔کہنے لگے بیٹا میں نے تو مذاق کیا تھا تم سچ مچ جا کر کہہ آئی ہو۔یہ اصل میںلوئرر کلاس ہوتی ہے اس کلاس کے لوگ عام طورسے کم تر سمجھے جاتے ہیں ہمارے بزرگ چونکہ لوگوں کے فیصلے کیا کرتے تھے اس نسبت سے انکا لقب قاضی پڑ گیا اور بالآخر یہ ہماری زات بن گئی۔اسی طرح بیشتر ذاتیں انسان کے آبائی پیشے کی نشاندہی کرتی ہیں چاہے بعد میں کوئی بھی پیشہ اختیار کیا جائے۔جیسے موچی دھوبی یا گجر وغیرہ۔لیکن کسی کی ذات کے پیمانے سے اسے پرکھنا ایک مسلمان کا شیوہ نہیں ۔جب اللہ اور اس کے رسول نے ذات پات کی تفریق نہیں رکھی تو ہم کون ہوتے ہیں لوگوں میں یہ فرق کرنے والے۔یہ سن کر مسز ہاشم نے بڑے فخر سے سب خواتین کی طرف دیکھا اور کہا دیکھا آپ نے کس قدر اچھے ی بات کہی ایلیزا کے پاپا نے۔ایک قریب بیٹھی خاتون نے ایلیزا سے بڑے پیار سے پوچھا بیٹے آپ کے پاپا کیا کرتے ہیں؟جی میرے پاپا ایک فارما سو ٹیکل کمپنی کے مالک ہیں ۔ہماری فرم لاہور کے ہسپتالوں کو جراحی کے آلات فراہم کرتی ہے۔اچھا تو آپکی شادی کیا اپنی ذات میں ہوئی ہے؟؟مغل زات کی خاتون نے تفتیشی انداز میں پوچھا۔جی آنٹی یہ تو پتہ نہیں مجھے مگر میری شادی تو اپنے ایک کزن سے ہوئی ہے۔اس نے بڑی معصومیت سے جواب دیا۔
مسز ہاشم فوراً بول پڑیں ہم لوگ مسلمان ہیں ایک سچا مسلمان کبھی ذات پات کی تفریق نہیں کرتا ۔آپ لوگ اپنی زات برادری کے رشتے تلاش کرنے میںلڑکے لڑکی کی عمر گزار دیتے ہیں۔پھر کسی کا ہم ذات ہونا کامیاب شادی کی ضمانت نہیں ہو سکتا۔اگر اس کوتاہی میں دوسرے مسائل کھڑے ہو جائیں تو اسکا کون ذمہ دار ہو گا۔آپ یہ دیکھیں کہ لڑکے لڑکی کا ذہن ملتا ہو سوچوں میں ہم آہنگی ہو لچچکدار رویے ہوں۔خلوص ہو تو زندگی کا ساتھ نبھانا آسان ہو جاتا ہے نہ کہ ایک ذات میں شادی کرنا کامیابی کی ضمانت ہے اب زمانہ بہت آگے نکل چکا ہے خدا را ان فضول رواجوں میں پڑ کر اپنی آئندہ نسلوں کو برباد نہ کریں۔محفل میں سبھی خواتین نے ان کی تائید کی۔
کچھ روز بعد مز ہاشم نے اپنے شہر میں ایسی کئی شادیاں اٹینڈ کیں جس میں لڑکا لڑکی ہم ذات تھے نہ کم ذات تھے بلکہ ہم خیال و ہم رکاب تھے ۔اس طرح وہ اپنی کوششوں سے لوگوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئیں کہ ہمیں ذات کے چنگل سے نکل کر فیصلے کرنے چاہیں۔

4 تبصرے ”بدذات

    1. شازیہ عندلیب صاحبہ آپ نےمذہبی معاشرے کے لیے خوب پیغام دیا ہے آج ہمارے معاشرے کو ایسی ہی رہنمائی کی ضرورت ہے 
                                               آپ کا شکریہ              خیر اندیش :گل بخشالوی 

                                                                                                                                           

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                              

  1. شازیہ عندلیب صاحبہ آپ نےمذہبی معاشرے کے لیے خوب پیغام دیا ہے آج ہمارے معاشرے کو ایسی ہی رہنمائی کی ضرورت ہے 
                                             آپ کا شکریہ کہ              خیر اندیش :گل بخشالوی 

اپنا تبصرہ لکھیں