(ڈاکٹر رخسانہ جبین)
دنیا بدل رہی ہے ۔دنیا ہمیشہ سے بدل رہی ہے۔زمین انسانوں کے کتنے انقلاب دیکھ چکی ہے۔ اب بوڑھی ازمین”گلوبل ولیج ”بن گئی ہے۔یہ ان فارمیشن کا دور بھی ہے اور ڈس انفارمیشن کا بھی۔۔۔۔ٹیکنالوجی کا یہ سیلاب اپنے ساتھ بہت سارے مواقع opportunitiesبھی لایا ہے۔
٭۔اس گلوبل ولیج میں عورتوں کی تعداد تقریباً ”نصف” ہے۔۔۔اس لیے عورت بدلتی دنیا کا اہم ترین کریکٹر ہے ۔عورت ہر انقلاب کا خصوصی جز رہی ہے اور اس وقت عالمی طاقتوں کا خصوصی ہدف بھی عورت اور خصوصاً نوجوان عورت ہے۔
٭۔میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی ۔بیڈرومز تو کیا انسان کے اندر تک پہنچ گئی ہے۔اس کا مثبت استعمال انسان کو نفع بھی پہنچاتا ہے ۔اور منفی کردار انسان کو اسفل السافلین میں بھی گرا
رہا ہے۔۔۔
اس گلوبل ولیج کے کرتا دھرتا چاہیں تو کسی بے گناہ نیک شریف عورت کو مجرم قرار دے دیں اور چاہیں تو ایک معصوم کم عمر بچی کو اٹھا کر نوبل پرائز دلوا دیں۔
عورت ہی وہ طاقت ہے کہ اگر وہ سنبھل جائے اور اپنی ذمہ داریاں سمجھ جائے تو انسانیت اور معاشرہ تیزی سے سنور سکتا ہے لیکن جب عورت ”سگریٹ کی ڈبیہ ” اور ”صابن کی ٹکیہ ” کی خاطر بک جائے ،بے لباس ہو جائے۔تو معاشرہ تیزی سے تباہی کے راستے پر گامزن ہو جاتا ہے۔
آج کی عورت کو اپنا رول طے کرنا ہے اپنا مقام طے کرنا ہے۔بلکہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا ہے۔
وہ مقام جو اس کے خالق اور ملالک نے آزادی نسواں کی کسی تحریک کے بغیر اسے عطا کیا تھا۔
وہ مقام جس پر آج سے چودہ سو سال قبل نبی رحمت ۖ نے بن مانگے اسے فائز کیا تھا۔
مسلما ن عورت آج بھی بہت معزز اور آزاد ہوتی ہے اگر اسے اس کے حقوق ملیں۔
٭۔مسلمان بیوی ملکہ ہے جس کا شوہر اس کے تمام نان نفقے کا ذمہ دار ہے۔اس کا سر تاج ہے۔ ایک سائبان ہے کوئی متحارب فریق نہیں۔
٭۔مسلمان بیٹی رانی ہے جو باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور ماں کی حیثیت میں عورت مرد (باپ) سے تین گنا زیادہ حقوق رکھتی ہے۔
٭۔ان بچوں کی تباہی و ہلاکت کے لیے نبی رحمت ۖ نے بد دعا کی ہے جو بوڑھے والدین کی خدمت نہیں کرتے۔
٭۔نام نہاد آزادی کی تحریکوں نے عورت کو کیا دیا؟
٭۔وومن empowermentکے نام پردوہری ذمہ داریاں
٭۔بڑھتی ہوئی شرح طلاق ،ٹوٹتے ہوئے خاندان اور معاشرتی انتشار
٭۔فیملی پلاننگ کے نام پر صحت کی بربادی
٭۔آزادی نسواں کی آڑ میں بے حیائی واباحیت
اس بدلتی دنیا میں عورت سوچے کہ اسے کون سا راستہ منتخب کرنا ہے ۔۔۔ وہ عزت کا راستہ جو اسلام نے عطا کیا ہے۔
یا اسے دو وقت کی روٹی کے لیے مارا مارا پھرنا ہے ۔فرمانبردار بیوی نہیں بلکہ بگڑی ہوئی گرل فرینڈ بننا ہے۔!
کیا یہ بہتر نہیں کہ وہ شفقت اور محبت سے بچے پالے ۔ان کی بہترین تربیت کر ے اور اللہ سے دعا مانگے کہ بچے اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں۔
(سورہ الفرقان آیت نمبر74)
یہ محبتوں میں پلے ہوئے بچے جوان ہوں ۔معاشرتی استحکام کا باعث بنیں ،والدین کی خدمت کریں اور دعا مانگیں ۔
(سورة بنی اسرائیل آیت نمبر24)
یا یہ پسند ہے کہ مائیں بچے ڈے کئیر سنٹر میں یا آیاؤں کے حوالے کر کے کام پہ چلی جائیںاور پھر یہ بچے ماں باپ کو اولڈ ہاؤس میں داخل کرا دیں ۔
میں سب بہنوں اور بھائیوں کو دعوت دیتی ہوں کہ اسلام کی ٹھنڈی چھاؤں میں آ جائیں ۔
بدلتی دنیا میں وہ کردار ادا کریں جس کے لیے ان کے خالق نے انہیں پیدا کیا ہے
اپنے مالک کے بنائے ہوئے نظام میں پناہ لے لیں ۔اللہ کے نزدیک زندگی گزارنے کا راستہ صرف اسلام ہے۔
آج دنیا میں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں ،سوشلزم ۔capitalism،کوئی اور ازم ؟؟ ۔۔۔۔نہیں نہیں۔
ان الدین عند اللہ السلام۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔
(سورةآلعمران آیت نمبر 85)
اسلام مودت ورحمت کا پیغام ہے۔ اسلام تقویٰ کا پیغام ہے
اسلام خاندان اور معاشرتی استحکام کا ضامن ہے ۔
اسلام عدل کا نظام ہے۔دہشت گردی نہیں ،امن کا علم بردار ہے ۔اسلام کے نظام میں غیر مسلم محفوظ ہیں ۔اسلامی حکومت ان کی حفاظت کی ذمہ دار ہے
کسی غیر مسلم ،مسیحی یا ہندو پر بلاوجہ ظلم کرنے والے اسلامی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے ۔یہ جاہلیت کے فعل ہیں۔نہ یہ قرآن سے محبت کی علامت ہے۔نہ یہ اسلام سے خیر خواہی ہے۔
ہمارے نبی محترم ۖ نے تو چیونٹی پر بھی ظلم کرنے سے منع کیا ہے۔
ہمیںدرست اسلام کے علم برداربننا چا ہیے۔ہمیں بہترین انسانی اور اسلامی اقدار کے مطابق معاشرہ کی تعمیر کرنی چاہیے ۔
ہمیں سو سائٹی کو مضبوط ،پاکیزہ اور امانت ودیانت کا ماڈل بنانا چاہیے۔جہاں مرد عورتوں کے حقوق سلب کرنے والے نہیں بلکہ ان کی عزت اور حقوق کے محافظ ہوں ۔
ایسا عدل و امن کہ ایک عورت ۔۔۔۔
تنہالمبا سفر کرے اور اسے راستے میں کوئی خوف نہ ہو۔۔!
اللہ نے اسلام غالب کیا ۔۔۔۔۔تو ان شاء اللہ
۔عورت تعلیم یافتہ ہو گی۔
اس کی تما م تر کفالت مردوں کے ذمہ ہو گی ۔ہاں اگر وہ اپنے جذبہ خدمت اور شوق کوئی نفع بخش کام کرنا چاہے تو کوئی رکاوٹ نہ ہو گی۔
۔با شعور۔ خود آگاہ۔مثبت کردار کی حامل ہو گی۔
۔بوقت ضرورت جاب بھی کرے گی لیکن اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے آگاہ بھی ہو گی۔
دنیا بھر میں مسلمان خواتین اس وقت بھی نہ صرف اپنی ذات ،اپنے گھر اور خاندان کی فلاح کے لیے مستعد ہیں بلکہ معاشرے کی اصلاح کے لیے بھی پوری طرح سر گرم ہیں۔
اگر وہ ڈاکٹر ہیں تو خدا ترس ہیں۔ٹیچر ہیں تو فرض شناس ہیں ۔وہ مدّرسات ہیں،writerہیں ،ورکنگ وومن ہیں،سوشل ورکر ہیں۔
مسلمان خواتین اپنے بڑے بڑے ادارے چلا رہی ہیں۔
میڈیا سیل میں بھی بہت فعال ہیں۔
بچوں کی تربیت کے نئے اور جدید پروگرام بنائے جا رہے ہیں۔
لیکن یہ مسلمان عورت اپنے اللہ کی بندی ہے۔اپنے شوہر کی فرمانبردار ہے۔کیونکہ اسے معلوم ہے وہ مردوں کا ضمیمہ نہیں اسے اللہ کے حضور اپنا حسا ب خود دیناہے۔
یہ خدمت کے جذبے سے سر شار ان تھک جدو جہد کرنے والی بے لوث خواتین معاشرے کا ایسا سرمایہ ہیں۔جن کے دم سے قومیں زندہ رہتی ہیں۔
ان کی آئیڈیل خدیجة الکبریٰ،عائشہ صدیقہ اور فاطمةالزہرہ ہوں ۔ایسی خواتیں ہی بدلتی دنیا میں بہترین کردار ادا کر سکتی ہیں اور معاشروں کو مستحکم کر سکتی ہیں ۔
اللہ ہمیں ایسی خواتین اسلام بننے کی توفیق دے۔آمین۔