بدلتے موسم
عابدہ رحمانی
کہتے ہیں موسم انسان کے اندر ہوتا ہے اندر کا موسم خوشگوار ہو تو باہر کا موسم کسی کا کچھ نہین بگاڑتا جبکہ میرے مطابق باہر کا موسم انسان کے اندر کے موسم سے مربوط ہے اور اسپر پوری طرح اثر انداز ہوتا ہے-دنیا میں چار موسموں کا چرچا ہے – بہار، خزاں ، گرما ، سرما یا گرمی سردی ہاں دنیا کے کچھ شہروں اور خطوں میں موسم میں برائے نام تبدیلی آتی ہے جیسے کراچی میں اتنی لمبی گرمیاں چلتیں کہ گرمی ، پسینوں اور رطوبت سے طبیعت بری طرح پریشان ہو جاتی, جتنی گرمی میں شدت آتی ہر کوئی لڑنے مرنے پر تیار اور سردیاں، کوئٹہ لہر کی مرہون منت ہوتیں گرم کپڑوں کے استعمال کا کچھ موقع مل جاتا ان دنوں مجھے اسلام آباد جاکر جاڑوں کا بیحد مزہ آتا تھا اور جیسا کہ پاکستان میں ہوتا ہے کہ ہمارے گھر اندر سے زیادہ ٹھنڈے ہوتے ہیں اور اب تو گیس کی بھی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے–جغرافیائی لحاظ سے منطقہ حارہ پر واقع ممالک میں موسم میں مرطوبیت اور گرمی زیادہ تر رہتی ہے جبکہ شمال کی طرف جیسے جیسے جائیں تو سردی ہی سردی اور پھر بحر منجمد شمالی کی طرف برف ہی برف– اب میرا حال دیکھئے چند روز پہلے جب میں ایل اے میں تھی کیا خوبصورت معتدل موسم تھا – گلابوں اور پھولوں کی بہار، البتہ کچھ درختوں پر پت جڑ کے آثار تھے ایل اے کا یہ موسم اپنے اعتدال کے لئے کافی مشہور ہے اور سان ڈیاگو کاا س سے بھی اعلء وہ تو تقریبا سال بھر یکساں رہتا ہے یعنی معتدل- یہاں ایک عزیز کے ہاں مدعو تھی جب انکو بتایا کہ چند روز میں شکاگو جانے والی ہوں تو خوب ہنسے “اپکا تو جواب نہیں گرمیاں آپ پاکستان میں گزارتی ہیں اور سردیوں مین شکاگو جا رہی ہیں”- جب میں نے انہیں بتایا کہ میں برف باری کی عاشق ہوں اور گزشتہ سال مختلف وجوہات کی بنا پر برف باری نہ دیکھ سکی، تو وہ بہت حیران ہوئے کہ میرا یہ شوق اور ارمان ابھی تک پورا نہیں ہوا؟- اس برف باری کودیکھنے کے لئے ایک زمانے میں مری کا چکر ضرور لگتا تھا – مال روڈ کی ڈھلوان پر پھسلن میرا نشان امتیاز بن چکا تھا اسلئے کہ دو مرتبہ یہاں برف پر اس دھڑام سے پھسلی تھی – پہلی بار تو اچھی خاصی چوٹ بھی آئی جنہوں نے میرا ہاتھ تھاما تھا وہ بھی ساتھ پھسلیں اور پیچھے آنے والی دونوں بھی ہمارے ٹکر سے گر گیئں بجائے اسکے کہ ہمیں اٹھانے کی مدد کی جاتی ادھر ادھر ایک تماشا کھڑا ہوگیا ہنسی ، ٹھٹھے ، آوازیں وہ تو اللہ بھلا کرے ہمارے مردوں کا کہ انہوں نے اپنی خریدی ہوئی لاٹھیاں بڑھائیں اور ہمیں سہارا دیا– اسی برف باری میں برف کے گولے ایک دوسرے کو مارنا ایک پسندیدہ مشغلہ تھا جسقدر برف میں لت پت ہوتے اتنا ہی لطف آتا-برف باری میں چئیر لفٹ کی سواری کا اپنا ایک مزہ تھا کچھ خوابناک سی کیفیت ہو جاتی– پھر نچلے ریسٹوراں میں گرم گرم نان کڑھائی چکن اور گرم گرم سبز چائے کیا لظف کیا ذائقہ آ؟ وہاں کے خشک میوں کی دکان سے خوب خریداری ہوتی ، اسی طرح گرم شالوں، کوٹیوں، واسکٹوں اور نمدوں کی بھی–چلغوزے یہاں کا خاصہ تھے – بلکہ ہمارے بچپن میں چلغوزوں اور سردیوں کا چولی دامن کا ساتھ تھا- بس کے اڈوں پر گرم گرم چلغوزے بیچنے والے پڑیا بنا کر کھڑے ہوتے ، راستے کا شغل لیتے جا ، سفر آرام سے کٹ جائے گا- اور واقعی چلغوزے چھیلتے چھیلتے راستے کا پتہ ہی نہ لگتا اس زمانے کی بسوں میں زیادہ سے زیادہ ریڈیو بجتا تھا اور اباجی ہمیشہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر ڈرائیور کو زیادہ سے زیادہ خبریں لگانے کی ہی اجازت دیتے – اب چلغوزوں کی جگہ مونگ پھلی نے لے لی-میرا ایک بیٹا چلغوزوں کا عاشق ہے اسے پاکستان کی ایک ہی سوغات چاہئے اور وہ ہے چلغوزے، امریکہ میں چھلے ہوئے چلغوزے خوب ملتے ہیں لیکن اسکو چھیلنے والے ہی چاہئیں کیونکہ اسکو اسی میں لطف آتاہے- پاکستان چھوٹا ، پاکستانیئت چھوٹی لیکن چلغوزوں کا وہ بیحد منتظر رہتا ہے جو کہ اب واقعی ایک سوغات بن چکے ہیں – خزان کے موسم یا سردیوں کی اپنی ایک خوبصورتی اور حسن ہے دن کا پتہ ہی نہیں چلتا ابھی دن پوری طرح چڑھا ہی نہیں کہ شام ہوگئی اور خاص طور پر ان ممالک میں جہاں وقت گرمیوں میں ایک گھنٹہ پیچھے کر دیا جاتا ہے اور سردیوں میں پلٹا دیا جاتا ہے لیکن پھر بھی روشنی کو نہیں روک پاتے سکینڈے نیویا کے ممالک تو ہم سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں اور جہاں پر سردیوں میں رات ہی رات اور گرمیوں میں دن ہی دن ہوتا ہے- بقول شاعر
خزاں کے موسم کی سرد شامیں سراب یادوں کے ہاتھ تھا میں
کبھی جو تم سے حساب مانگیں مایوسیوں کے نصاب مانگیں
بے نور آنکھوں سے خواب مانگیں تو جان لینا کے خواب سارے
میری حدوں سے نکل چکے ہیں تمہاری چوکھٹ پہ آ روکے ہیں
مسافتوں سے تھکے ہوئے ہیں غبار راہ سے اٹے ہوئے ہیں
تمہاری گلیوں میں چپ کھڑے ہیں کچھ اس طرح سے دارء ہوئے ہیں
سوالی نظروں سے تک رہے ہیں تمہاری چوکھٹ پہ جانے کب سے جبیں جھکائے ہوئے کھڑے ہیںجب موسم کی پہلی برف باری ہوتی ہے تو عجیب سی ایک سر شاری کی کیفیئت ہوتی ہے جی چاہتا ہے بس دیکھتے ہی جا کبھی باریک اور کبھی روئی کے گالوں کی طرح خاموشی سے چھپ چھاپ گرتی ہوئی برف ہر چیز کو ایک سفید چادر کی طر ح ڈھانپ لیتی ہے درختوں کی ٹہنیوں پر کسقدر خوبصورتی سے جم جاتی ہے اور پھر چیڑ، دیار اور دیودار کے پتے انکا حسن تو برف کے ساتھ ہی نکھر آتا ہے اور یہان پر یہی تو کرسمس ٹریز کہلاتے ہیں- اسقدر اجلا پن ہوتا ہے کہ رات کو بھی چکا چوند ہو جاتی ہے- کرسمس اور برف کا چولی دامن کا ساتھ ہے دراصل کرسمس کے ساتھ عیسی علیہ السلام کی پیدائش کو تو زبردستی نتھی کردیا گیا ہے- حقائق کے پیش نظر انکی پیدائش گرمیوں میں ہوئی تھی-کرسمس دراصل ٹھنڈے ممالک کے باسیوں کا سردیوں کا تہوار ہے اور اگر کرسمس میں برف نہ ہو تو کرسمس کا لطف ہی جاتا رہتا ہے- سفید کرسمس خوشیوں کو دوبالا کر دیتی ہے اور کیا طمانئت، خوشی و سرشاری ہوتی ہے کہ کرسمس سفید ہوگیا-آخر کو سانٹا کلاز نارتھ پول یعنی شمال کے برفانی خطے سے رینڈئر سے دوڑاتی ہوئی رتھ پر سوار بچوں کے لئے ڈہیروں تحائف لے کر آتا ہے -حالانکہ سانٹا ہر جگہ ہر شہر کے مال میں موجود ہے – میری ایک دوست اچھے خاصے معاوضے پر سانٹا بنی رہتی – ڈزنی لینڈ میں کرسمس پریڈ پر مصنوعی برف باری ہوتی ہے کیا خوبصورت منظر ہوتا ہے ، ہلکے ہلکے ارد گرد اچھا خاصا سفید ہوجاتا ہے-کیلی فورنیا اور اریزونا کے شہروں میں دیکھا کہ مصنوعی طور پر برفباری کا تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہیں تو روئی بچھا دی جاتی ہے کہیں کوئی اور سفید چیز ورنہ قریبی پہاڑوں سے برف لاکر ڈہیر کر دیا جاتا ہے آئس سکیٹنگ ہورہی ہے آئس ہاکی ہوتی ہے سردیوں کے اولمپکس دیکھو تو برف کے کھیل ہی کھیل اور پہاڑوں پر سکیینگ کی تفریح گاہیں ، سڑکوں سے غائب ہو ئے تو تفریح گاہوں میں موجود -زندگی سے لطف اٹھانا تو کوئی ان سے سیکھےمیرا تو ایسا جی مچلتا ہے کہ جیکٹ ،دستانے ، ٹوپی پہن کر اسکا لطف لینے کے لئے پہنچ جاتی ہوں-ارد گردہر طرف خاموشی ہوتی ہے اکا دکا گاڑیاں آتی جاتی نظر آتی ہیں اس سے یہ ہرگز مراد نہیں ہے کہ کاروبار زندگی میں کوئی فرق آجاتا ہے – ڈھیروں برف پڑ رہی ہو یا چھاجوں بارش برس رہی ہو کاروبار زندگی میں کوئی خلل نہیں آتا البتہ سڑکوں پر لوگ چلتے پھرتے نظر نہیں آتے-لوگ حیران ہو ہو کر دیکھتے ہیں، ایک آدھ تو گاڑی روک کر خیر خیریت بھی پوچھ لیتے ہیں- کیونکہ ٹھنڈے علاقوں کے لوگ ایسے موسم میں سڑکوں سے غائب اور گوشہ نشین ہوجاتے ہیں – لیکن جب ڈھیروں برف پڑ جائے تو برف صاف کرنے والی گاڑیاں حرکت میں آجاتی ہیں،سڑکوں، گلیوں اور فٹ پاتھوں سے برف ہٹانے کا کام شروع ہو جاتا ہے اسکے لئے برف پگھلانے کا مادہ اور نمک ڈالا جاتا ہے اگر درجہ حرارت بڑھ گیا تو یہ کام قدرتی طور پر ہوتا ہے اور یہ پگھلا ہوا پانی رات کو جب درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے چلا جاتا ہے تو اسکی شیشے کی طرح برف جمتی ہے جوانتہائی خطرناک ہوتی ہے -خود پھسلو یا گاڑی پھسلے دونوں صورتوں میں خطرہ ہی خطرہ اسکو یہاں پر بلیک آئس کہتے ہیں-جب برف کے ڈہیروں پر پگھلانے والا مادہ اور نمک ڈال دیا جاتا ہیجس سے یہ ایک کیچڑ بن جاتا ہے اور اسمیں چلنا پھرنااورلتھڑے ہوئے جوتون کے ساتھ گھومنا پھرنا ، گاڑیوں اور گھروں کے پاندانوں پر کیچڑ اورنمک کا ڈھیر لگ جانا مجھے ہرگز پسند نہیں ہے- ایک مرتبہ برف باری میں اپنی گاڑی باہر پارک کی کچھ دیر کے بعد باہر نکلی تو معلوم ہوا کہ گاڑی کہیں برف کے ڈہیر میں غائب ہوگئی ہے-نرم برف تو آرام سے جھڑ جاتی ہے البتہ جمی ہوئی برف کو ہٹانا اور کھرچنا ایک کار دارد کم از کم دس منٹ گاڑی کو گرم کرنے میں لگ جاتے ہیں باہر نکلو تو تہ در تہ مٹے موٹے کوٹ جیکٹ پہنو اور جیسے ہی اندر داخل ہو ایک ایک کر کے اتارنا شروع کرو کیونکہ اندر اسقدر گرم کیا ہوا ہوتا ہے -عجیب نفسیات ہے اے سی اتنا تیز ہوگا کہ کمبل اور جیکٹ لینے کی ضرورت ہوتی ہیجبکہ ہیٹنگ اتنی زیادہ ہوگی کہ اندر اکثر لوگ گرمیوں کے لباس میں نظر آئینگے- ہاں جب یہ برفباری طول پکڑ جائے یا ایسی صورت ہو کہ جمی ہوئی برف کا طوفان آجائے تو پھر خدا کی پناہ ہر چیز کرسٹل کی طرح ہو جاے اور اس چکا چوند میں اکثر بجلی بھی غائب ہو جاتی ہے – انسان بھی عجیب چیز ہے ہر چیز کی زیادتی یا تسلسل سے اکتا جاتا ہے اور پھر گرم دنوں کی خواہش کرنے لگتا ہے اور یہان کے برفانی پرندے سنو برڈزجنکی اڑان گرم خطوں کی جانب ہوتی ہیانمیں اکثریت بوڑھے ریٹاریز کی اور کینیڈا کی مرغابیاں ہوتی ہیں کینیڈا کا جو علاقہ امریکہ کے ساتھ ساتھ ہے نسبتا کم ٹھنڈا ہے جبکہ شمال کی جانب ٹھنڈک اور برف بڑھتی چلی جاتی ہے- مرغابیوں سے تو امریکہ والے خوب تنگ ہیں جبکہ بوڑھے سنو برڈز کیلئے پورے پورے شہر بسا رکھے ہیں-اسوقت تو ہمارا موسم کنیٹیکٹ کے سکول میں بیگناہ مارے جانے والے بچوں اور استادوں کے غم میں سوگوار ہے لیکن کرسمس کی چہل پہل اور برفباری کا ارمان اپنی جگہ -کیونکہ شکاگو میں ابھی تک برفباری نہیں ہوئی نہ معلوم یہان کے باسیوں کی قسمت میں اس مرتبہ سفید کرسمس ہے بھی کہ نہیں؟
میں زندگی کی تمازت کو ڈھونڈنے نکلیبرف کے سرد موسم میں
—