برما میں ظلم اور امن کا نوبل پرائز
تحریر شازیہ عندلیب
جب ہماری فیملی لندن میں کچھ روز چھٹیاں گزار کر آئی تو ایک دکھ بھری خبر ملی۔موس کی غزالہ راجہ نے بتایا کہ برما کے انتہا پسند مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں۔ اس کے بارے میں انہیں فیس بک سے تصاویر موصول ہوئی ہیں اور کوئی میڈیا اس ظلم و بربریت کی کوریج نہیں دے رہا۔اب تک کی خبروں کے مطابق ماہ رمضان کی آمد سے پہلے اٹھائیس ہزار کے لگ بھگ برمی مسلمان موت کے گھاٹ اتار دیے گئے ہیں۔ جبکہ رمضان کے دوسرے روز بھی دو ہزار کے لگ بھگ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے۔ایک مصدقہ اطلاع کے مطابق برما میں پچھلے کئی ماہ سے نسلی فسادات جاری ہیں۔ان میں بدھ مت کے پیروکار مسلمانوں کو بے دریغ مار رہے ہیں۔جو مسلمان پناہ کے لیے بنگلہ دیش جاتے ہیں انہیں ملک کی سرحدوں میں داخل نہیں ہونے دیا جاتا۔اس کے علاوہ کوئی میڈیا نہ تو ان خبروں کو شائع کر رہا ہے اور نہ ہی اسکے پڑوسی مسلم ممالک اس ظلم پر آواز بلند کر ہے ہیں۔بحیثیت مسلمان ہمارا یہ ایمان ہے کہ ظلم پرخاموشی اختیار کرنے والا بھی ظلم میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔سب ممالک بشمول وطن عزیز اور اسلامی ملک سعودی عرب کے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔امن کے علمبردار ور انصاف کے ٹھیکیدار عالمی منصف سبب چپ ہیں۔حیرت ہے کہ مسلمانو کی غیرت و حمیت کو کیا ہو گیا ہے۔مولوی مولانا ،علامہ اور تبلیغی جماعتوں والے کیوں چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ کوئی اختلافی مسلہء ہو جائے تو اسلامی جماعتیں اختلاف رائے کا اظہار کرتے نہیں تھکتیں۔مگر ہزاروں مسلمانوں کی جانیں چلی جائیں تو کسی کے منہ سے کوئی بات نہیں نکلتی۔آج اگر یہ ظلم برما پر ہو رہا ہے تو کل کہیں اور بھی ہو سکتا ہے۔یاد رہے کہ بدھ مت کا مذہب دنیا میں کسی انسان تو کیا جانور پر بھی ظلم کی اجازت نہیں دیتا ۔پھر یہ ظالم لوگ آخر کس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔بدھ مذہب کے روحانی پیشوا مہاتمہ بدھ برصغیر میں پیدا ہوا ۔ وہ ایک شہزادہ تھا مگر دنیا کی بے انصافی پر اپنا محل چھوڑ کر جنگل میں چلا گیا۔وہاں کئی روز بھوکا پیاسا سوچ بچار میں مصروف رہا۔پھر ایک روشنی نمودار ہوئی اور وہ لوگوں کو امن کا پیغام دینے چل پڑا۔اسکے پیشوائوں کو بھکشو کہا جاتا ہے۔بدھا کے مجسمے آج بھی راولپنڈی کے قرب میں ٹیکسلا شہر میں موجودہیں۔وہاں اسی زمانے کی قدیم یونیورسٹی بھی ہے۔اکثر بدھ مت کے لوگ ٹیکسلا بدھا کی یادگاروں کی ذیارت کے لیے جاتے ہیں۔اس مذہب کے لوگ برما کے علاوہ تھائی لینڈ،انڈیا چین اور جاپان میں بھی پائے جاتے ہیں۔اس مذہب کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ ہندو مت اور سکھ مت کے مذاہب اس کے بعد آئے تھے۔یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ بدھ مت کے لوگ اس قدرظالم ہو سکتے ہیں۔کچھ بھی ہو آج بلا تفریق مذہب و ملت ہم سب کو اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔مجھے یاد آیا کہ ماہ جولائی میں ناروے نے برما کی ایک خاتون سیاستدان کو امن کا نوبل پرائذ دیا گیا تھا۔برما کی خاتون سیاستدان Aung San Su Kyi آئونگ سون سو کی پندرہ برس نظر بند رہیں۔یہ نوبل پرائز اس سیاست دان خاتون کو جمہوریت کے لیے برماء میں جدوجہد کے صلے میں دیا گیا تھا۔جو انہوں نے بائیس سال کی تاخیر سے وصو ل کیا تھا۔ا س لیے کہ برمی حکومت اسے تسلیم نہیں کر رہی تھی۔ اس کے بعد جب حکومت بدلی جمہوریت کا نفاذہوا تو ان خاتون نے ناروے آ کر یہ ایورڈ وصول کیا ۔اس تقریب میں ناروے کے وزیر اعظم کے علاوہ شہزادہ ہاکون نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی تھی۔اسی ماہ کے آخر میں یہ خبر سننے کو ملی کہ برما میں مسلمانوں پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں۔اس سلسلے میں جب میری پاکستانی نثراد پارلیمنٹ ممبر جناب اختر چوھدری سے بات ہوئی انہوں نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ برما میں ظلم ہو رہا ہے لیکن نارویجن اسمبلی یا حکومت اس سلسلے میں آواز بلند نہیں کر سکتی ۔یہ نارویجن حکومت کے لیے بہت بھاری پتھر ہو گا ایک تو اس لیے کہ وہ پہلے ہی سیریا میں مسلمانوں کے ہاتھوں دوسرے مسلمانوں کے مسلے پر بات چیت چل رہی ہے کہ اس ظلم کو کیسے روکا جائے ایسا کیوں ہو رہا ہے دوسرے برما کے پڑوس میں جو دوسرے ممالک ہیں جن میں انڈونیشیا، ملائیشیا اور بنگلہ دیش شامل ہیں انہیں آواز بلند کرنی چاہیے دوسرے مسلم ممالک کا فرض ہے کہ وہ اس کے خلاف احتجاج کریں۔گو کہ ناروے دنیا کا واحد ملک ہے جو کہ امن پسند ملک ہے ۔ اور پوری دنیا میں امن کے نوبل پرائز ہر سال بانٹتا ہے۔جہاں کہیں ظلم ہو اسکے خلاف آواز اٹھاتا ہے۔لیکن اسکا مطلب یہ بھی نہیں کہ مسلم برادری ہاتھ باندھے بیٹھی رہے اور یہ مسلمانوں کے تشدد پر آواز بلند کرے۔ماضی میں بھی مسلہء کشمیر پر اسکی اسمبلی میں آواز بلند کی گئی۔پاکستانی نثراد نارویجن سیاستدان رعناء اسلم فلسطینیوں کی ناروے میں پناہ پر کام کر رہی ہیں۔ہم مسلمانوں کو بھی ان سے سبق لینا چاہیے اور اپنی قوم کا دفاع کرنا چاہیے۔یہ مسلم امت کا فرض ہے کہ وہ برما کی حکومت سے ان خونی ہلاقتوں کے لیے باز پرس کرے۔اگر یہ سلسلہ نہیں رکتا تو تمام مسلم ممالک احتجاجاً برماء سے بائیکاٹ کر دیں۔تازہ ترین اطلاع کے مطابق نارویجن اخبارVG وے گے) نے برما میں ہونے والے مظالم کی خبر لگائی ہے۔جو کہ مسلم میڈیا کو غیرت دلانے کے لیے کافی ہے۔مسلمان قوم کو ہر حال میں اپنے تحفظ کے لیے متحد ہو کر اس ظلم کے کلاف آواز بلند کرنا ہو گی اور برمی حکومت سے جواب طلبی کرنا ہو گی۔اس لیے کہ بقول مفکر و شاعر حضرت علامہ اقبال کے خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلینہ ہو جس کو خیال اپنی حالت کے بدلنے کا
Aslam o Alikum
I read Your this colum and i am very Happy that you are first author who will be writ a colum on Burma Muslim. Pakistani media play a very Bad role in all this inccident. Pakistani Media Telecast special Programe on the Death of Indian Filmi Acter But Dont any Special Programe about Burma Muslim. And other way our President Give him a Noble peace price this is a very Bad as a muslim country. And president dont ask any One Word about Burma Muslim. i Request You Plz keep more protest in your column about Burma Muslim. God bless you.
السلام و علیکم عرفان صاحب،
سائٹ وزٹ کرنے اور کالم پسند کرنے کا شکریہ۔یہ ہماری مسلمان قوم اور قومی لیڈروں کی بے حسی ہی ہے جس کی وجہ سے ہم لوگ بحیثیت ایک قوم کے روبہ زوال ہیں۔امید ہے آپ اپنی رائے سے آگاہ کرتے رہیں گے۔
شکریہ شازیہ