*ايک شخص ابراھیم بن ادھمؒ سے بحث کر رھا تھا کہ برکت نام کی کوئی چیز نہیں ھوتی.*
*ابراہیم بن ادہمؒ نے کہا، “تم نے کتے اور بکریاں دیکھی ھیں؟ “.
وہ شخص بولا، “ھاں ،”.
ابراھیم بن ادھمؒ بولے، “سب سے زیادہ بچے کون جنتا ھے کتے یا بکری..؟”
وہ بولا، “کُتے”۔
ابراھیم بن ادھمؒ بولے، “تم کو بکریاں زیادہ نظر آتی ھیں یا کتے..؟ “
وہ بولا، “بکریاں “.
ابراھیم بن ادھمؒ بولے، “جبکہ بکریاں ذبح ھوتی ھیں، مگر پھر بھی کم نہیں ھوتیں، تو کیا برکت نہیں ھے ؟ اسی کا نام برکت ھے”.
پھر وہ شخص بولا، “ایسا کیوں ھے، کہ بکریوں میں برکت ھے اور کتے میں نہیں ؟”.
ابراھیم بن ادھمؒ بولے،
“بکریاں رات ھوتے ھی فورا سو جاتی ھیں اور فجر سے پہلے اٹھ جاتی ھیں. یہ نزولِ رحمت کا وقت ھوتا ھے، لہذا ان میں برکت حاصل ھوتی ھے ،اور کتے رات بھر بھونکتے ھیں ، اور فجر کے قریب سو جاتے ھیں، لہذا رحمت و برکت سے محروم ھوتے ھیں”۔
پس غور و فکر کا مقام ھے،
آج ھمارا بھی یہی حال ھے۔ ھم اپنی راتوں کو فضولیات میں گزارتے ھیں، اور وقتِ نزولِ رحمت، سو جاتے ھیں۔ اسی وجہ سے آج نہ ھی ھمارے مال میں اور نہ ھی ھماری اولاد میں اور نہ ھی کسی دوسری چیز میں برکت رھی ھے.*
*ذرا نہیں… پورا سوچیئے ……*