بزرگ شہری کی اوقات

بزرگ شہری کی اوقات

بزرگ شہری کی اوقات


ڈاکٹر محمد ہمایون ہما
بات بزرگی شہریوں کی معاشرے میں مقام اور ان کی عزت وتکریم کی ہورہی تھی اس ضمن میں ایک دوست نے اپنے ایک رشتہ دار کا واقعہ سنایا، جنہیں زندگی کی ساری سہولتیں میسر ہیں اور ان کا سب ٹھاٹ باٹ اپنے باپ ہی کی کمائی کا نتیجہ ہے ۔ واقعہ یہ پیش آیا کہ جب ان کے جاں بلب والد صاحب کی علالت قدرے طول پکڑ گئی تو ایک روز برخوردار تنگ آکر خود پر قابو پانہ سکیاور بیمار باپ کے سامنے ہی پھٹ پڑے ۔ لیکن ٹھہرئے یہ تو ہماری تحریر کا اختتامیہ ہے ۔ پہلے کچھ تمبید باندھ لیں بلکہ یہ ابتدائیہ ہماری ہی کہانی سمجھیئے کہ ہم بھی پچھلے تین سال سے بزرگ شہری کے منصب جلیلہ پر فائز ہوچکے ہیں ۔ ہم سوچ رہے تھے کہ بزرگی کے منصب پر فائز ہوتا بھی خدائے بزرگ وبرترکی کتنی عظیم عطاہے اس مقام و مرتبے کی برکات وثمرات کا عملی تجربہ ہمیں اس وقت ہوا جب سرکارنے سرکاری ملازمت سے ہماری فراغت کا حکم نامہ جاری کرکے ہماری بزرگی پر مہر تصدیق ثبت کر دی ۔ اب ہم بقضل تعالیٰ ، گھر بابر مصدقہ بزرگ مانے جاتے ہیں ۔ ہم سے اب وہی سلوک ہوتا ہے جو سکندر نے راجہ پوری سے کیا تا یعنی اس کی راجد ھانی ہتھیا کر ذلیل وخوار ہونے کیلئے اس زندہ چھوڑ دیا۔ ویسے تو بزرگی کے بے شمار فوائد ہیں جو ایک ایک کرکے ہم پر کھلے ،لیکن اس کا جو فوری فائدہ ہمیں ملاوہ ہمارے لوا حقین کی ہمارے اندر خوداعتمادی ، خود انحصاری اور اپنی مدد آپ کے جذبے کو زندہ رکھنے کی کوشش ہے وہ چاہتے ہیں کہ ہم اپنی روز مرہ کی معمولی ضرورتوں کیلئے کسی کے دست نگرنہ ہیں ۔ مثلا بزرگی کی پہلی نشانی یعنی ہاتھ میں رعشے کے باوجود پاجانے میں آزار بند خود ڈالیں ، جوتے خود پالش کریں اپنے برتن خود باور چی خانے تک پہنچا ئیں انہیں اگر صاف بھی کردیں تو اس سیلف سروس سے ہماری بزرگی میں مزید وقار اور نکھار پیدا ہوتا رہے گا ۔ رات کو بستر پر دراز ہونے سے پہلے گھر کے بڑے دروازے کو تار لگانا کچن ، واش روم اور برآمدوں اضافی بلب بجھانا، ہماری بزرگی کے فرائض میں شامل ہیں ۔ بعض اوقات گھر والواںم کو شادی غمی کی تقریبات میں بھی جانا پڑتا ہے گاڑی میں چونکہ ہمیں اپنی لاٹھی سمیت جوڑوں کے درد کی وجہ سے قدرے چھیل کر بیٹھنا پڑتا ہے پھر ہم کھانستے بھی ہیں ۔ کھنکار کے لئے گاڑی کا شیشہ بھی بار بار اوپر نیچے کر نا پڑتا ہے جس سے دوسرے لوگوں کو تکالیف ہوئی ہے ۔ اس مسئلے کا حل گھروالوں نے یہ نکالا ہے کہ وہ پالتو کتے کے ساتھ گھر کی چوکیداری کے لئے ہمیں بھی چھوڑ جاتے ہیں ۔ پہلے تو یوں تھا کہ ہماری آنکھوں کا ایک اشارہ اور جینبش آبرد تو رہ چنگیز ی کی نا قابل تنسیخ شق کا درجہ رکھتی تھی ، گویا ہم اپنے گھر کی سلطنت کے بلا شرکت غیرے پورے چیف ایگزیکٹو تھے باور چی خانے سے بیت الخلاہ تک سارے اختیارات ہماری مٹھی میں تھے کسی کی جرات نہ تھی کہ باورچی خانے ہمیں ہماری مرضی کے بغیر کوئی چولہا تک جلاسکے ۔ بلااجازت بیت الخلاء میں داخل ہوسکے ۔ سالن میں نمک اور چائے میں شکر کی مقدار ہم مقرر کرتے ۔ روزانہ کا مینو ہم جاری کرتے ، ٹیلی وثن کے پروگرام ہماری مرضی سے دیکھے جاتے ، بزرگ ہونے کے بعد ہماری ذمہ داریوں اور فرائض میں کافی ردوبدل پید ا ہو چکا ہے۔ کل ہی کی بات ہے ہم ایک چوتا پہنے دوسرا چارپائی کے نیچے گھس کر ڈھونڈ رہے تھے وہاں نہ ملاتو کواڑوں کے پیچھے اسے ٹنولنے لگے ہماری پوتی اس تک و تاز کو چھین چھپی قسم کا کھیل جان کر ہمارے آگے پیچھے دوڑنے لگی دوسرے لوگ ہماری مدد کے لئے اس لئے نہیں آئے کہ وہ ہمارے معمول کی اس ورزش میں محفل ہوتا نہیں چاہتے ۔ تھے وہ بھی کیا وقت تھا جب کھانے پر بیٹھنے سے پہلے ہماری شرکت کے بغیر کورم نا مکمل رہتا تھا افتتاحی نوالہ ہم توڑتء دوسروں کو لقمہ اُٹھانے کی اجازت بعد میں ملتی ۔ اب ہمیں بہ نفس نفیس روکھی سوکھی کی تلاش میں رسوئی کے برتن کھڑ کھڑانے پڑتے ہیں ۔ اس پر بھی کوئی توجہ نہ دے تو پھر بہ آواز بلند اپنی بھوک کا اعلان کرنا پڑتا ہے رہی بات باہر کی تووہاں بھی ہم بزرگ مانے جاتے لگے ہیں ثبوت اس بات کا یہ ہے کہ اب ہم مسجد میں مولوی صاحب کے عین عقب میں بیٹھنے لگے ہیں ہم سے زیادہ بزرگ جس روز مسجد نہ آئیں تو اقامت ہم پڑھتے ہیں پر سوں زندگی میں پہلی بار اذان دینے کا اعزاز بھی ہمیں حاصل ہوگیااپنی 35سالہ ملازمت کے دوران ہم نے کبھی اپنی تنخواہ خود جاکر بنک سے نہیں لی ۔ چیک بھر کر کسی کے حوالے کر دیتے گھر بیٹھے پیسے مل جاتے ۔ اب ہمیں ہر ماہ باقاعدگی سے بینک کی پنشن کی کھڑکی کے سامنے لاٹھیوں کا سہارا لئے کھانستے کھنکار تے دوسر ے بزرگ شہریوں کے ساتھ ایک لمبی قطار میں کھڑے ہوا کر اپنی باری کا انتظار کرتا پڑتا ہے ۔ ہمارے ہاتھ میں چیک نہیں تصدیق نامہ ہوتا ہے جس میں ہم تیں جگہ دستخط ثبت کرکے بینک والوں کویہ حلفیہ بیان دیتے ہیں کہ ہم گزشتہ ماہ کی یک تاریخ سے اس کے آخری دن تک زندہ تھے چنانچہ قرض خریدی دوائوں کی ادائیگی کیلئے پیسے دے دیجئے پتہ نہیں سرکار کو بزرگ شہریوں کی موت کا اس قدر شدت سے انتظار کیوں ہوتا ہے کہ دوماہ بہ ماہ ان سے ان کی زندگی کا ثبوت ضرور طلب کرتی ہے ۔شاید اسلئے کہ ہمارے معاشرے میں بزرگوں سے جو سلوک ہوتا ہے اس سے اُن کی زندگی سے موت یقینی ہو جاتی ہے۔  زندگی سے موت زیادہ یقینی ہو جاتی ہے ہماری سرکار بھی بزرگوں پر
بڑی مہربان ہے وہ ہر سال بجٹ کے موقع پر بزرگوں کی پنشن میں بقدر اشک بلبل اضافہ کرہی ہے ۔ ایسے اضافوں سے ان بزرگوں کو زیادہ فائدہ پہنچتا ہے۔جو قبر میں نکیریں کے سوال و جواب کے مرحلے سے بھی گزر چکے ہوتے ہیں حکومت کی عنایت خسروانہ سے ان پر کچھ اتر نہیں پڑتا ہے کہ گوشے میں لحد’ کے انہیں آرام بہت ہے ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اکثر لوگوں کی بزرگوں سے گفتگو موت وحیات کے گردہی کیوں گھومتی ہے ویسے موت کے ساتھ ہم نے حیات کا لفظ محاورتا چسپاں کردیا ہے وگرنہ ان کی تمام تر گفتگو کا محمور موت ہی ہوتی ہے کل ایک صاحب نے بڑے راز دارانہ انداز میں ہمارے کانوں کے قریب منہ لاتے ہوئے کہ تو ایک بات جانتے ہو؟ کیا؟ ہم نے پوچھا یہی کہ سفید بال اور چہرے کی جھریاں موت کا پیغام ہوتی ہیں کسی وقت بھی تمہیں لوگ قبر کے تنگ و تار یک گڑھے ہیں اتار دیں گے۔ ہم نے ہونٹوں پر زبان پھیر تے  ہوئے کہایہ دن تو آپ پر بھی آئے گا موت سے کسی کو مفر نہیں ۔ مگر آپ کہنا کیا جاہتے ہیں بس یہی کہ بزرگوں کو ہر وقت موت کی تیاری کرنی چاہیے۔ ہم نے کہا یہ مرحلہ ہمیں پوری طر یاد ہے ۔ آپ کے ریمائنڈر کی کوئی ضرورت نہیں البتہ کبھی کبھی زندگی کو بھی یاد کرلیں یہ بھی اسی کی عطا ہے جس نے موت کو ایک اہل حقیقت بنایا ہے۔ سوباتوں کی ایک بات کسی بھی بزرگ شہری کو اس وقت تک زندہ رہنے کا حق
حاصل ہے جتنی سانسیں خدانے اس کے لئے مقرر کررکھی ہیں ۔ وقت سے پہلے اب اگر ہمارے دوست کا متمول رشتہ دار جسے زندگی کی ساری آسائشیں اپنے باپ کی طفیل حاصل ہیں ۔ جاں بلب باپ کے سرہانے گھڑے ہو کر چیختے ہوئے کہے ۔ دا۔۔۔۔۔۔۔مری ھم نہ ”نو تو بیٹے کی اس خواہش سے اس بزرگ شہری کی زندگی کی ڈور وقت سے ٹوٹ سکی ۔ البتہ ہمارا قلم خالی جگہ میں وہ لفظ لکھنے سے پہلے ٹوٹ چکاہے جو اس سپوٹ نے اپنے باپ کیلئے کہاتھا ۔

اپنا تبصرہ لکھیں