حفیظ نعمانی
اس وقت بنا ہوا ہے۔ جتنا جتنا آرایس ایس پریوار اور بی جے پی بنارس سے مودی کی کامیابی کو عزت اور ذلت کا مسئلہ بناتے جارہے ہیں اتنا ہی ان کے مخالفوں کا بلڈپریشر بڑھتاجارہا ہے۔ دوسرا ستم کا شی والوں نے یہ کیا ہے کہ تجزیہ کرنے والوں کادماغ ماؤف کردیا ہے۔ شری مودی جب اپنی نامزدگی کرانے آئے تھے تو مخالفوں کے کہنے کے مطابق نہیں خود بی جے پی کے لیڈروں کی زبان پر تھا کہ پورے دیش سے لوگ پردھان منتری کی نامزدگی کرانے آئے ہیں ۔ اسی کا نتیجہ یہ ہواتھا کہ بنارسی عوام بیک زبان کہہ اٹھے کہ بنارس نے آج تک اتنا بڑااور ایسا جلوس نہیں دیکھا۔
اس کے بعد مودی جی اپنی آخری ریلی اور روڈشوکر کے کاشی کو الوداع کہہ کراترپردیش کی باقی بچی 18سیٹوں اور بنگال کی 17سیٹوں کی تلاش میں نکلنا چاہتے تھے کہ دودھ میں مکھی گر گئی ۔ ہوایہ کہ بنارس کے مشہور پارک بنیاباغ میں انہیں ریلی کرنے کی اجازت نہیں دی بلکہ اس سے قریب ہی اس سے بڑی جگہ دے دی ۔ مودی جی کا مسئلہ ایسا ہوگیا جیسے رونے کو بیٹھے تھے آنکھ ڈبک آئی ۔ انہوں نے اسے اپنی توہین وار حق تلفی بلکہ تفریق کا مسئلہ بنالیا کہ اس سے پہلے اروندکیجریوال وہاں ریلی کرچکے تھے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے ان سے باربار کہا گیا کہ کیجریوال کی ریلی میں 30ہزار آدمی تھے آپ لاکھ ڈیڑھ لاکھ آدمیوں کو بلارہے ہیں جس کی وہاں بالکل گنجائش نہیں ہے اور جو بڑی جگہ آپ کو دی جارہی ہے وہ اس سے دورنہیں اور بہت بڑی ہے لیکن مودی جی کو بنیاباغ نہیں لیناتھا بلکہ کوئی ایسا موضوع تلاش کرنا تھا جس کی بناء پر الیکشن کمیشن سے پنجہ لڑانے کا موقع مل جائے اور انہوں نے خاص طور پر الیکشن انچارج جوایک مہینہ امرتسر میں رہ کرسیا پا سیکھ کر آئے تھے ارون جیٹلی صاحب نے شور مچادیاکہ ہمارے ساتھ جانب داری ہورہی ہے اس لئے اب ہم ریلی کریں گے نہ روڈ شونہ خواض کی دعوت اور نہ کچھ اور بلکہ ہم دھرنا دیں گے۔ اور انہوں نے ڈرامہ کرکے سب پروگرام ختم کردئے۔
9؍مئی کو اروند کیجریوال نے عام آدمی پارٹی کا روڈ شور کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ اطلاعات کی حد تک وہ دیہاتوں میں زیادہ کام کررہے تھے 9؍کو انہوں نے روڈ شور کیا تومحسوس ہوا جیسے پورابنارس پھر سڑکوں پر آگیا اور ہرطرف سے آوازآئی کہ کیجریوال مودی جی کو زبردست ٹکر دے رہے ہیں ۔ انہوں نے گنگا کی آرتی بھی اتاری ۔جہاں تک کیجریوال کا تعلق ہے تو وہ یا ان کی پارٹی میں اتنے دولت مند نہیں ہیں کہ دہلی یا دوسرے شہروں سے کرایہ خرچ کرکے اپنے آدمی بلاتے ان کے جلوس میں یقیناشہر اور دیہاتوں کے وہ لوگ تھے جہاں وہ ہفتوں سے کام کررہے تھے ۔ 10؍مئی کو راہل گاندھی اور کانگریس کے امیدوار اجے رائے کاروڈ شور ہوا تو اسے بھی کسی طرح کم نمبر نہیں دئے جاسکتے اس لئے کہ مجمع تقریباً اتنا ہی جتنا کیجریوال کے ساتھ تھا اس مجمع کے متعلق کہا جاسکتاہے کہ یہ اجے رائے کے اپنے حلقے کے آدمی تھے جس سے وہ ایم ایل اے ہیں اوروہ تھے جو مختار انصاری کے اشارہ پررائے کے ساتھ آگئے ہیں ۔ راہل کے روڈ شو کے بعدوزیراعلیٰ اکھلیش یادو نے بھی روڈ شو کیا اور بنارس کے مہمان نوازوں نے دل ان کا بھی چھوٹا نہیں کیا
ع مگروہ بات کہاں مولوی مدن کی سی ؟
ہم حیران ہیں کہ بنارس کے عوام کیا سیاسی ہنگاموں کے ترسے ہوئے ہیں یا اتنے ہی بڑے میزبان ہیں کہ کسی کو مایوس نہیں کرتے یا انہیں فرصت ہی فرصت ہے کہ جوجھنڈا لے کرچلے اسی کے پیچھے پیچھے چل دئے ؟یہ تووہی بتاسکتے ہیں لیکن یہ ہے ایک معمہ کہ دیکھنے والا یہ فیصلہ نہیں کرپاتاکہ نمبر ایک کون ہے دوکون اور 3کون ؟ایک نئی بات یہ تھی کہ ہرپارٹی عام آدمی پارٹی کی نقل کررہی تھی ۔ بی جے پی35سال پرانی پارٹی ہے آج تک کبھی کسی لیڈر یاورکر کے سرپر زعفرانی رنگ کی ٹوپی نہیں دیکھی لیکن عام آدمی پارٹی کے میدان میں آنے اورچھپی ہوئی ٹوپی سرپر رکھے رہنے کے بعد بی جے پی نے بھی نعرہ لکھی ٹوپی ورکروں کے سرپررکھ دی اور انتہایہ ہے کہ جب ارون جیٹلی اور امت شاہ نے دھرنے سے اٹھ کر پناہ گاہ میں پنا ہ لی تواعلان کردیا کیا کہ دہلی سے کاشی تک الیکشن کمیشن کے خلا ف مظاہرہ ہوگا پھر ٹی وی پر ہی دیکھا کہ شری وینکیا نائیڈوڈاکٹر ہرش وردھن شری مختار عباس نقوی اور ایک کوئی اور بھگواٹوپی پہنے پیدل ہی احتجاج کرنے الیکشن کمیشن جارہے ہیں ۔
ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اسے تسلیم کرلینا چاہئے کہ سیاست کے میدان میں سب سے کم تجربہ کار اروند کیجریوال نے سب کو اپنے پیچھے پیچھے چلنے پر مجبور کردیا اب ہر پارٹی وہی کررہی ہے جوعام آدمی پارٹی کررہی ہے انتہا یہ ہے کہ میڈیا بھی جب کبھی تین بڑوں کو دکھاتاہے تو مودی راہل اور کیجریوال جب کہ کیجریوال نہ وزیراعظم بننے کے امیدوار ہیں نہ انہوں نے یاان کے کسی آدمی نے کہا ہے لیکن ہوا یہ ہے کہ ان کی پارٹی نیشنل پارٹی ہوگئی چاہے پارلیمنٹ میں ان کے پانچ ممبر بھی نہ ہوں ۔ اور ایک بات یہ کہ 2019کے الیکشن کے اصل ہیرو کیجریوال ہوں گے اورہوسکتاہے کہ وہ حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں ۔
یہی وجہ ہے کہ بنارس کے تین لاکھ مسلمان مختارانصاری کی کانگریس کو کھلی حمایت کے باوجود یہ فیصلہ نہیں کرپارہے کہ وہ کیجریوال کو ووٹ نہ دیں ۔ انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ کیجریوال نے اگر مودی جی کو ایسی ٹکر دے دی جیسی مختار انصاری نے جوشی کو دی تھی تو وہ تاریخ بنادیں گے اور ان کی پارٹی اگرتیسرا محا ذبنتا ہے تو اس میں اہم کردار اداکرے گی ۔