بند نہ باندھا تو بڑی تباہی ہو گی
محمد نعیم تبسم
آج کے دور میں ایک دوڑ لگی ہوئی ہے، ہر کوئی آگے نکلنے کے چکر میں ہے۔ سبقت کے لیے جائزو ناجائز سب طریقے اپنائے جاہے ہیں۔ آج کل کرکٹ کے مقابلے چل رہے ہیں لیکن میں جس دوڑ کا ذکر کر رہا ہوں یہ جسمانی صلاحیتوں میں اضافے یا ملک کا نام روشن کرنے کے لیے نہیں بلکہ معاشرے کو تباہ کرنے کی بھیانک دوڑ ہے اور اس دوڑ میں ٹی وی چینلز باقاعدگی کے ساتھ اخبار کسی حد تک اپنا حصہ ملا رہے ہیں۔
عصر حاضر کو میڈیا کی صدی کہا جا رہا ہے جس کے انتہائی طاقت ور ہونے کا اعتراف سب کررہے ہیں۔ لیکن بے لگامی کی وجہ سے میڈیا اس وقت ایک منہ زور عفریت بن چکا ہے جس کے سامنے عام فرد سے لے کر تمام ریاستی ستون بھی بے بس نظر آتے ہیں۔ میڈیا معاشرے کی مشکلات ختم کرنے کے بجائے نہ ختم ہونے والے مسائل کے انبار دیے جارہا ہے۔ بجائے اصلاح معاشرہ کے سب ادارے مل کر معاشرتی انتشار کو مزید ہوا دے رہے ہیں۔ سنسنی اور ماردھاڑ سے بھر پور خبروں اور پروگرامات نے لوگوں کی نفسیات پر اتنے منفی اثرات مرتب کیے ہیں کہ ہر کسی سے برداشت کا مادہ ختم ہو رہا ہے۔ مذکورہ بالا انکشاف میرے نہیں بلکہ میڈیا سے وابستہ سینئر صحافیوں، دانشوروں اور پروفیسرز کے ہیں۔ میڈیا سے وابستہ یہ ہستیاں جن کے ضمیر ابھی زندہ تھے، دعو اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی جانب سے کراچی میں صحافیوں کے لیے منعقدہ میڈیا ورکشاپ کے شرکا سے خطاب کرنے کے لیے آئی ہوئی تھیں۔ ان میں سینئر صحافیوں اور ماہرین تعلیم محمود شام، قاسم جلالی، عمیر اشتیاق، ڈاکٹر محمود غزنوی، ڈاکٹر سید عزیز الرحمن، پروفیسر سلیم مغل، خلیل اللہ فاروقی، سید جمشید گل بخاری، ڈاکٹر عامر طاسین، حاجی مسعود پاریکھ، ڈاکٹر شہزاد چنا اور مولانا عبدالصمد آغا شامل تھے۔
احسن آباد کراچی میں قائم دعو اکیڈمی کے ریجنل سینٹر میں صحافیوں کے لیے تین روزہ ساتواں اسلامی تربیتی کورس اکتوبر کے پہلے ہفتے میں منعقد ہوا، جس میں کراچی اور اندرون سندھ کے مختلف اضلاع سے 30 صحافیوں نے شرکت کی۔ اس کورس کا مقصد صحافت کے پیشہ سے وابستہ افراد کو ان کی کار کردگی مثبت انداز میں پیش کرنے کے لیے اسلامی و صحافتی ضابطہ اخلاق کی آگاہی فراہم کرنا تھا۔ موجودہ حالات میں اس کورس کی اہمیت اس لیے بھی بہت زیادہ محسوس ہو رہی ہے کیوں کہ صحافت کو بطور پیشہ اختیار کرنے والے جب تعلیمی اداروں سے عملی میدان میں آتے ہیں تو ان کے پاس صرف تھیوری ہوتی ہے کوئی پیشہ ورانہ تربیت نہیں ہوتی، یہ شہر کی صورتحال ہے جبکہ ڈسٹرکٹ سطح کے علاقائی نمائندوں کی صورتحال اس سے بھی خراب ہے۔
صحافی معاشرے کا نمائندہ ہوتا ہے۔ بہترین صحافی وہ ہے جو پیشہ ورانہ اصولوں پر عمل پیرارہ کر قلم کی حرمت کا پاسبان بنے اور معلومات کے حصول اور اسے عوام تک پہنچانے میں اس ضابطہ اخلاق کی پابندی کرے جو اس کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ سینئر صحافی محمود شام نے اپنے شعری مجموعے جہاں تاریخ روتی ہے میں کہا ہے۔
حرمت حرف میں اک عمر بسر کی ہم نے
آج بھی اپنی عبارت میں اثر باقی ہے
لیکن معاشرے میں پھیلی ہوئی کرپشن، صحافتی اداروں کا سوتیلا سلوک اور مناسب تربیت نہ ہونے کی وجہ سے صحافت کا انحصار جن افراد پر ہے وہ ہر من گھڑت، سنسنی اور اشتعال پر مبنی خبر کو شایع یا نشر کروارہے ہیں جو ادارے کی ریٹنگ کو بڑھا سکے، اس ریٹنگ کے چکر میں میڈیا مالکان اور صحافی اس ضابطہ اخلاق کو بالکل بھول جاتے ہیں جو صحافت کے مثبت کردار کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ پھر ایسی خبروں سے جو سیاسی و سماجی ردعمل ظاہر ہوتا ہے وہ معاشرے کو تباہی کی طرف لے کر جا رہا ہے۔ میڈیا کی بے لگامی اور ریٹنگ کے لیے ہر جائز و ناجائز اقدام کی اس دوڑ نے پورے معاشرے کو اک تندو تیز ریلے کی طرح اپنے بہائو میں لیا ہوا ہے۔ اگر صحافیوں کی درست تربیت کر کے میڈیا کو صحیح راہ پر گامزن نہ کیا گیا تو یہ سیلاب بہت زیادہ تباہی مچائے گا اتنی تباہی کہ شاید پھر اس پر افسوس کرنے کے لیے بھی کوئی نہ بچے۔
دعو اکیڈمی کی اس ورکشاپ کی تعریف آنے والے تمام صحافیوں اور دانشوروں نے بھی کی اور ایسے دور میں اس طرح کی ورکشاپ کو ایک اہم ذمہ داری کی جانب مثبت قدم قرار دیا۔ لیکن جہاں ہر صحافتی ادارے میں کام کرنے والوں کی تعداد سینکڑوں تک پہنچی ہوئی ہو، وہاں صرف ایک تربیتی ورکشاپ سے بڑے پیمانے پر تبدیلی لانا ممکن نہیں۔ اس سلسلے میں تمام میڈیا ہاوسز اور حکومتی اداروں کو چاہیے کہ وہ بھی دعو اکیڈمی کی اس چھوٹی سی کاوش کی پیروی کرتے ہوئے صحافت کے عملی میدان میں کام کرنے والوں کے لیے تربیت کا اہتمام کریں اور نئے آنے والوں کو ان کی پیشہ وارانہ تربیت کے ساتھ صحافتی اصولوں کے مطابق ضابطہ اخلاق کا پابند بھی کیا جائے۔ میڈیا کی آزادی اور پرائیویٹ چینلز کے آغاز کے بعد سب سے اہم کام صحافتی اخلاقیات کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ دعو اکیڈمی کا یہ کورس اس سلسلے میں بارش کا پہلا قطرہ ہے۔