اہل مغرب کے طرز فکر و عمل میں یہ نقص سر فہرست رہا ہے کہ وہ خیر کا استعمال بھی شر کے لیے کرتے آئے ہیں. اسی طرز پر صارفیت اور مادیت پرستی کو پروان چڑھانے میں “الیکڑونک ریوولیوشن” کا غلط استعمال کیا گیا. ضرورتوں کو اجاگر کرنے کے لئے تہذیب سے عاری اشتہارات کی ایک الگ دنیا بنائی گئی اور اس دنیا کو چلانے کے لئے صحافت جیسے بے حد اہم اور پر وقار شعبہ کو صارفیت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا. اہل مغرب کی تقلید میں دنیا نے سیاست، تجارت ، صحافت، صارفیت اور اشتہاربازی کو ایکدوسرے میں کچھ ایسے شیر و شکر کر دیا کہ انسان کے لئے یہ سمجھنا مشکل ہوگیا کہ ان سب کے رشتوں کو اب کیا نام دیا جائے، یا انہیں جمہوریت کی کن اعلی اقدار میں شمار کیا جائے . اہل مغرب نے ان پانچ عناصر کا ایسا مربا بنایا کہ اسکی چاٹ سے اب رستگاری حضرت انسان کے لئے بے حد مشکل ہو گئی ہے. انسانی تہذیب و تمدن کی ناؤ ایک ایسے راستہ پر گامزن ہے جسکی منزل مغربی ذہنیت کی طرح ابھی طے ہونا باقی ہے. ناؤ میں سوار ہر ایک ذمہ دار ناخدا بن بیٹھا ہے اور پتوار یعنی اخلاقی اصول و عقائد قدموں تلے دب کر چر مرانے لگے ہیں..
صارفیت کا جنون تہذیب و تمدن پر کچھ اس طرح اثر انداز ہوا ہے کہ بنیادی ذرائع روزگار صفحہ ہستی سے مٹنے لگے ہیں اور سینکڑوں ضروری اشیا اپنا وجود کھو رہی ہیں. جو کاغذوقلم کبھی جہالت کے اندھیرے دور کرنے میں مددگار ہوا کرتے تھے اور جو علماء و ادباء کی شناخت اور شان ہوا کرتے تھے وہ آج رو بہ زوال ہیں. انسان کے قدم آہستہ آہستہ بن کاغذ و قلم کی دنیا کی طرف بڑھ رہے ہیں. پتہ نہیں انسانی ضروریات و مفادات کے حق میں یہ کتنا صحیح ثابت ہو. خدا نہ کردہ اس کے نتائج ٹی وی اور فلمی صنعت کی طرح ظاہر ہو اور اس سے انسان کی بے حیائی اس مقام تک پہنچ جائے کہ واپسی کا راستہ نہ رہے. تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ کاغذ کی دریافت نے تہذیب و تمدن، اخلاقیات و عقائد ، علوم و فنون ، ثقافت و تجارت کی ترقی اور توسیع میں مرکزی کردار ادا کیا تھا. تقریبا سو ق م میں جہاں اہل چین نے کاغذ کی دریافت کی تھی ونہیں سات – آٹھ سو عیسوی میں اہل عرب نے اندلس و بغداد میں کاغذ کی صنعت و حرفت میں انقلاب برپا کیا اور اسکے استعمال کو دنیا میں عام کیا. یہ وہی کاغذ تھا جس نے انسانوں کے درمیان حائل فاصلوں کو خط و کتابت کے ذریعے ختم کیا اور طباعت و ترسیل کی صنعت کو عروج بخشا. جس نے دنیا کی مختلف بولیوں کو لباس فاخرانہ عطا کیا اور سینہ بہ سینہ سفر میں رہنے والی روایتوں کو منزل عطا کی. ادب، علوم و فنون کو دوام بخشا اور تصوّر کو شکل عطا کی. تفکرات کو مختلف موضوعات دئے. انسان کو قاری بنایا اور اسکی روحانی غذا کا سامان مہیا کیا. جس نے صحافت اور اخبارات کو جلا بخشی. جو حضرت موسی کے ہاتھوں میں تجلی آمیز پتھر کی قسمت پر رشک کھا کر شاید بہت رویا ہو، لیکن جب فرقان مجید اور دیگر آسمانی مصاحف کے نور میں نہایا ہوگا تو اپنی قسمت پر اسے خود ہی رشک آیا ہوگا. “الیکٹرونک” اور “ڈیجیٹل” کی دنیا نے اب اسکے وجود کو خطرات میں مبتلا کردیا ہے.
کاغذ کی طرح قلم کے ساتھ بھی بہت برا ہوا . مالک حقیقی نے جسکی اہمیت کی قسمیں کھاکر دعوے پیش کئے، کئی مبارک انگلیوں کے لمس پاکر جس قلم کو معراج عطا ہوئی ، علما، ادبا و شعرائے کرام اورلاکھوں عالم و فاضل شخصیتوں نے جسے اپنے سینے سے لگائے رکھا، کبھی اسی قلم کے ذریعے کوئی یوسف شعر تخلیق کیا گیا تو کبھی اسی قلم کا سہارا لے کر زندگی کے ہزارہا عقدے حل کیے گئے، اب وہی قلم اپنا وقار کھوتا جارہا ہے. “الیکٹرونک” اور “ڈیجیٹل” انقلاب نے جہاں انسانی تہذیب کو نئے عنوانات دئے اور ہزاروں مراعاتیں فراہم کی ہیں ونہیں کاغذ و قلم کو حاشیے پر لا کر چھوڑدیا. اہل قلم کی شناخت جس قلم سے ہوا کرتی تھی وہ اب مٹ رہی ہے. صرف و نحو اور مشق تحریر سے اہل قلم اب بری ہورہے ہیں، املا کا وہ اعلی معیار بھی اب نہ رہا. ممکن ہے کئی زبانوں کے رسم الخط ناپید ہو جائیں اور زبانیں بے جان ہو جائیں. فطرت کی غمازی کرنے والے خطاطی اور مصوری کے فنون بھی اب مائل بہ زوال ہیں، افکار و بیان کا پیچیدہ سفر جو قلم کے سہارے طے کیا جاتا تھا وہ برقی دنیا میں “کاٹو اور چپکاو” جیسے عمل سے طے کیا جارہا ہے. کتب فروشی کا پیشہ بھی اب آخری سانسیں لے رہا ہے. اب کوئی خامہ بگوش نہیں رہے گا، ہر کوئی “موبائیل بر گوش یا “نیٹ بر دوش” نظر آئےگا.
آنے والے دنوں میں کتابی جگنو ” برقی کتب بین” یعنی “کنڈل- بک ریڈر ” پر منڈلاتے نظر آئیں گے اور طلبا برقی بستہ لئے. اساتذہ کے سینوں سے قلم اور پیشانی سے علم کا نور ندارد ہوگا. کاغذ و قلم کا استعمال اس حد تک ختم ہوجائیگا کہ ایک بار پھر ان کا استعمال کرنے والوں کو مخصوص طبقہ میں شما ر کیا جائے گا. کاغذ ایک بار پھر روئے گا، لیکن اس بار حضرت موسی کے ہاتھوں میں تجلی آمیز پتھر کو یاد کر کے نہیں بلکہ حضرت انساں کی ہتھیلیوں میں جمی ہوئی “برقی سرسوں” کو دیکھ کر جسے دنیا موبائل یا “پام ٹاپ” کہتی ہے، اور جو آنے والے دنوں میں ہتھیلیوں سے پھسل کر ٣انگلیوں تک آجائیگی اور شاید “فنگر ٹپس” کہلائے! یہ بھی ممکن ہے کہ ایسی مصنوعی دنیا سے کاغذ کی جان چھوٹے جہاں تفکرات کی نہ ہی وہ زلف پیچاں رہی اور نہ ہی اسے سنوارنے والے غالب، اقبال، حالی اور شبلی، اور نہ ہی وہ کیٹس، شیلے اور بائرن. اب برقی بیاضوں پر منڈلانے والے جگنووں سے بھری ادبی دنیا باقی رہے گی جو “برقی جالوں” سے اٹی ہوئی ہو گی.
انسانی تہذیب و تمدن پر برقی دنیا نے، خاصکر انٹرنیٹ نے مثبت اثرات بھی مرتب کیے ہیں. خط و کتابت اور پیام و ترسیل کے کام بے حد آسان اور کفایتی ہو جائیں گے ، بلکہ شاید مفت حاصل ہو جائیں، تعلیم کا حصول آسان ہو جائے گا اور اعلی تعلیم کے ذرائع عام آدمی کے لئے بھی مہیا ہو جائیں گے. کتابی نسخے محفوظ ہو جائیں گے اور ادب میں سرقہ کے امکانات بھی کم ہو جائیں گے. ایسے ہی ہزاروں اور فوائد ہونگے. لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اہل مغرب کی اس ایجاد کے پس پردہ بھی مادیت پرستی اور مغربی فلسفہ کی تبلیغ کے سوا ایسا کوئی مقصد نہیں تھا جس سے انسانیت کو فائدہ ہو اور خیر کا بول بالا ہو، یہ اور بات ہے کہ اہل خیر حضرات نے ان کا جائز استعمال ڈھونڈ لیا. اسی طرح کیمیرہ، فلم، ٹی وی اور ریکارڈنگ کے معاملے میں بھی اہل خیر حضرات نے ان میں جائز مقاصد تلاش کر لیے تھے . اہل مغرب کے “کارہائے نمایاں” کو نمایاں کرنا اور سچائی دنیا کے سامنے لانا اور خود اہل مغرب کو انکے پیدا کردہ شر کا احساس دلانا بے حد ضروری ہے تاکہ دیگر اقوام و ممالک کو آئیندہ کے لیے سبق حاصل ہو. یہ اہل علم و قلم کی ذمہ داری ہے کہ خیر و شر میں فرق ثابت کر کے بتائیں اور شر کو خیر سے مٹاتے رہیں . اہل مغرب نے پچھلی چند دہایوں میں معیشت سے متعلق اپنے فیصلوں سے جو شر اور فساد پیدا کیا اور اشتہار بازی، صارفیت اور بے قابو سرمایہ داری کی جسطرح تبلیغ کی وہ انکے معاشی زوال کی ابتدا اور اخلاقی زوال کی انتہا ہے. انسانیت کے حق میں صارفیت اور بے قابو سرمایہ داری اتنی ہی نقصان دہ ثابت ہوئی ہے جتنا کمیونزم اور غیر متوازن سوشیل ازم. بقول علامہ:
یورپ میں بہت روشنیء علم و ہنر ہے…حق یہ ہے کہ بے چشمہء حیواں ہے یہ ظلمات!
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر ، یہ حکومت…. پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات
اہل مغرب کی مادی ترقی سے یہ جہاں اتنا منور نہیں ہوا ہے جتنا انکی ذہنیت اور مقاصد کے “بلیک ہول” نے انسانیت کے لئے ہولناک اندھیرے پیدا کیے ہیں . اہل مشرق اور خاصکر اہل عرب کے کارہائے نمایاں انسانیت کے لئے دور رس نتائج کے حامل رہے ہیں اور اسکے پس پردہ عدل و انصاف، اخلاقی اقدار ، روحانیت اور مادیت میں توازن جیسی خوبیاں کارفرما رہی ہیں. یہ خوبیاں ایسےعقائد پر کاربند ہونے کا نتیجہ ہے جسے اہل مغرب “ڈیوائین رولز” کے نام سےگردانتے تھے، لیکن کبھی اس پر عمل پیرا نہ ہوسکے، مشرق میں اسے قدرت کے اصولوں سے تعبیر کیا جاتا رہا اور اہل عرب اسے خدائی احکامات سے موسوم کرتے آئے ہیں . ان خوبیوں کا انفرادی اور اجتماعی تناسب ایک ایسے جوہر کو پیدا کرتا ہے جو خیر و شر میں توازن قائم کرتا ہے. اس تناسب میں جتنی زیادہ مقدار روحانیت کی ہوگی اتنا ہی انسانی زندگی سے فساد کم ہوگا اور معاشرہ میں اعتدال قائم ہوگا. اسی نقطہ کو اہل مغرب فراموش کر بیٹھے اور اپنی قوم کے ساتھ باقی دنیا کو بھی اس حق فراموشی پر مجبور کیا اور یہی انسانیت کے خلاف انکا سب سے بڑا جرم مانا جائیگا.
“مغرب” اب کسی گروہ یا خطہ کا لقب نہیں رہا بلکہ یہ ایک ذہنیت کا نام ہے. مشرق ہو یا مغرب، دنیا میں اس ذہنیت کے حامل لوگ ہر جگہ موجود ہیں اور اب تو ایسے لوگ مغرب میں کم اور مشرق میں زیادہ پیدا ہورہے ہیں. ان میں چند ایسے مستغربین بھی ہیں جو تھوڑا بہت مغربی علم پڑھکر، ظاہری ترقی اور مادی چکا چوند دیکھکر اتنے مرعوب اور متحیر ہو جاتے ہیں کہ یہ کہنا پڑتا ہے:”ہائے وہ تشنگیء ذہن و تمنا جس نے…. جب بھی صحرا پہ نظر کی اسے دریا سمجھا”.