ایک دوست نے دوسرے دوست سے پوچھا . تمہاری ماں کی سب سے پسندیدہ ڈش کون سی ہے.
دوسرے دوست نے بہت سوچا. بہت ذہن گھمایا مگر پھر آنکھوں میں آنسو لے کر کہنے لگا :
“میری ماں کی پسندیدہ ڈش بچا ہوا سالن اور بچی ہوئی روٹی ہے ”
دوست جو کہ مغربی معاشرے میں پلا بڑھا تھا پوچھنے لگا . وہ کیسے 🤕
دوسرے دوست نے جواب دیا.
کہ میں نے بہت سوچا. پچھلے بیس برسوں کا منظر میرے ذہن میں گھوم گیا لیکن مجھے ایک بار بھی یہ سننے کو نہیں ملا کہ بیٹا آج بہت دل کر رہا تھا فلاں کھانے کو تو میں نے بنا لیا. ایک بار بھی ایسا نہیں سنا. گزرے ہوئے بیس برسوں میں بس یہ آوازیں ہی سنائی دیں.
بریانی بنائی ہے میرے بیٹے کو پسند ہے
کڑاہی گوشت بنایا ہے میری بیٹی کو پسند ہے.
فلاں چیز بنائی ہے کہ میرے بھائی یا بہن کو پسند ہے .
فلاں چیز بنائی ہے کہ میرے میاں جی کو پسند ہے.
اور کبھی تو گھر کا ایک شخص کہے کہ مجھے آج چاول کھانے ہیں اور دوسرا کہے کہ نہیں مجھے تو آج سبزی کھانی ہے تو ماں نے دونوں کے لئے الگ الگ کھانے بنائے.
آج جب تم نے یہ سوال پوچھا تو میں سوچنے لگا کہ پچھلے بیس برسوں میں ماں نے اپنے لئے کیا پکایا!!
کچھ بھی تو نہیں . بس ایک ہی شوق تھا کہ بیٹے سے یا بیٹی سے جو بچ جائے گا وہ میں کھا لوں گی.
اور کبھی کہتی کہ بیٹا اور ڈالو اور خوب پیٹ بھر کے کھاو. ابھی سالن بہت پڑا ہے. جبکہ سالن کچھ نہ ہوتا اور میں ختم کر جاتا.
بعدمیں پتا چلتا کہ ماں آج بھوکی سو گئی.
رب ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا