رپورٹ سیمینار رحماء تنظیم
رخسانہ ارشد اور طیب منیر چوہدری پروگرام کے منتظم ین تھے۔انہوں کمپیوٹر پروگرام پاور پوائنٹ کی مدد سے حاضرین کو اسکول اور گھر کے درمیان رابطے اور بچوں کی تربیت کے مختلف نکات پر روشنی ڈالی۔اس سلسلے میں انہوں نے بتایا کہ بچے کی پہلی درسگاہ اسکا گھر ہے اس لیے اسکی تربیت کی پہلی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے اگر والدین اک دوسرے کی عزت کریں گے پھر ہی بچے بھی عزت کرنا سیکھیں گے۔یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ نارویجن معاشرے میں رہتے ہوئے دونوں تہذیبوں کا احترام سکھائیں۔نہ صرف دوسروں کی عزت کریں بلکہ دوسری اقوام کے نظریات کا بھی احترام کرنا سکھائیں۔
آخر بچے کس سے احترام کرنا سیکھتے ہیں ؟ظاہر ہے والدین سے۔پھر ماں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کس سے کھیلتے ہیں ۔ان کے دوست کون کون سے ہیں؟کیا ایک ماں اپنے بچے کے دوستوں کو جانتی ہے۔
پھر بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں ان کے روزمرہ کے معمولات اور مشاغل بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔بچوں کو چوبیس گھنٹے میں لازمی نو سے دس گھنٹے کی نیند لینی چاہیے۔
اگر کسی ٹیچر سے یا سکول سے شکائیت ہے تو کبھی ٹیچر یا سکول کی برائی بچے کے سامنے نہ کریں۔بلکہ خود ٹیچر سے جا کر ملیں۔اس لیے کہ بچے پابند نہیں ہوتے کوئی بات چھپانے کے وہ سب کچھ بتا دیتے ہیں۔
بچوں کو گھر میں دیا گیا اسکول کاکام کروائیں۔ان کا بیگ چیک کریں اس میں ضروری سامان رکھیں۔غذائیت سے بھرپور ناشتہ کروائیں مگر ناشتہ میں میٹھا نہ دیں۔میٹھاالبتہ کھانے کے وقفے کے دوران دینا بہتر ہوتا ہے۔
اسکول کا ماحول بھی بچے کی شخصی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔عام طور سے اسکول میں بچوں کی جان پہچان مختلف بچوں سے ہوتی ہے۔انکا سماجی نیٹ ورک بنتا ہے۔متوازن گھرانوں کے بچوں کے والدین ہمیشہ انکی اسکول میٹنگز اور دیگر پروگراموں میںحاضر رہتے ہیں۔گھر پر ٹیلیفون کال ریسیو کرتے ہیں جبکہ اس کے بر عکس مشکل گھرانے اور ان کے بچے اسکول کے لیے ایک چیلنج ہوتے ہیں۔ایسے گھرانوں کے بچے کلاس میں اساتذہ کی بات نہیں سنتے۔ہوم ورک نہیں کرتے گھر پر فون اٹینڈ نہیں کرتے نہ بچے نہ والدین۔ایسے بچے اور والدین بھی اسکول کی سرگرمیوں میںحصہ نہیں لیتے۔
آخرمیں رخسانہ ارشد اور طیب چوہدری نے حاضرین کے سوالات کے جوابات دیے۔