شازیہ عندلیب
نازنین کو ایک ملٹی کلچرل ادارے میں پراجیکٹ مینیجر کی جاب مل گئی تھی۔ادارے میں مختلف ممالک کے لوگ ملازم تھے۔اس ادارے کا مقصد ناروے میں بسنے والے تارکین وطن کی رہنمائی کرنا ان کے صحت کے مسائل حل کرنا اور انہیں مختلف پیشہ وانہ کورسز کروانا تھا تاکہ وہ مالی طور پر خود مختار ہو سکیں۔نازنین مختلف پراجیکٹ بنا کر انہیں لانچ کرتی تھی جبکہ اسی ادارے میں ایک پولش عورت بھی نازنین کے شعبے میں کام کرتی تھی۔نازنین نے اعلیٰ تعلیم اوسلو یونیورسٹی سے حاصل کی تھی ۔یہاں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود وہ مذہبی رجحان کی مالک تھی۔ جسکا اندازہ اس کے رکھ رکھاؤ اور گفتگو سے بخوبی ہو جاتا تھا۔ وہ ہر معاملہ میں الہ پر بہت بھروسہ کتی۔جبکہ لفظ انشاللہ بھی اکثر اپنی گفگتو میں استعمال کرتی جو کہ نارویجن اور انگلش زبان میں ایک خوبصورت امتزاج بن جاتا۔اسکی دیکھا دیکھی اسکی کئی ساتھی کولیگز بھی اپنی روزمرہ زبان میں یہ لفظ استعمال کرنے لگی تھیں ۔لیکن ایک پولش عورت کو اس ے بہت چڑ تھی۔درحقیقت ایک ملٹی کلچرل معاشرے میں مقامی زبان میں غیر ملکی الفاظ کی آمیزش کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔اوسلو میں اسکولوں کالجوں کے نارویجن نو جوان اکثر مقامی زبان میں لفظ واللہ استعمال کرتے ہیں جو کہ عربی زبان سے آیا ہے۔اور یہ لفظ نو جوانوں میں خاصا مقبول بھی ہے۔وہ اپنی کسی بھی بات کا یقین دلانے کے لیے لفظ واللہ استعمال کرتے ہیں۔ اور یقین کریں کہ نارویجن گفتگو میں یہ لفظ کیا ہی خوبصورت لگتا ے کہ کانوں میں چاشنی سی گھل جاتی ہے۔ جبکہ پولش کولیگ وکٹوریہ ایک الٹرا ماڈرن اور مذ ہب سے متنفر عورت تھی۔وہ سنہری بالوں اور سلیٹی مائل نیلی آنکھوں والی عام پولش عورتوں کی طرح تیز طرار ہونے کے ساتھ ساتھ مزاج کی بھی تیز تھی۔ہمیشہ چست لباس پہنتی اور تیز تیز بولتی۔مگر نازنین کے ساتھ مل کر اچھا کام کر لیتی تھی۔ کیونکہ نازنین کی شخصیت میں قوت برداشت اور تحمل ذیادہ تھا۔وہ بڑی س بڑی بات بھی بڑے تحمل س سنتی اور اسکا تجزیہ کرکے درست نتائج اخذ کر لیتی تھی۔ وہ دونوں کئی پراجیکٹس پر مل کر کام کر رہی تھیں۔انکا واسطہ مختلف ممالک کی عورتوں سے پڑتا تھا۔زینب بھی ان میں سے ایک تھی۔اس صومالین عورت کا آپریشن ہونا تھا اور وہ اس بات کے لیے پریشان تھی کہ اسکے چار سالہ بچے کی دیکھ بھال کون کرے گا۔اسکا شوہر تو یہ ذمہ داری نہیں لینا چاہتا تھا۔اور اسکا کوئی جاننے والا بھی نہیں تھا جو اسکا بچہ سنبھالتا۔وکٹوریہ نے اسے ایک مشورہ یہ دیا کہ وہ جتنے روز ہسپتال رہے گی اتنے روز اپنا بچہ بچوں کے دیکھ بھال کے ادارے کے سپرد کر دے۔یہ سن کر وہ صومالین عورت پریشان ہو گئی کیونکہ بچوں کی دیکھ بھال کا ادارہ عموماً ان بچوں کی دیکھ بھال کرتا ہے جن کے والدین کسی بھی وجہ سے انکی دیکھ بھال کے قابل نہیں ہوتے ۔پھر یہ بچے والدین کے پاس واپس کم ہی جاتے ہیں۔ یہ بات یہاں رہنے والے سب لوگ جانتے ہیں بچوں کی دیکھ بھال کا ادارہ ایک خوف کی علامت سمجھا جاتا ہے۔صومالین عورت یہ مشورہ سن کر پریشان ہو گئی وہ اپنا بچہ کھونا نہیں چاہتی تھی۔وہ اپنے گھر کا سکون تو پہلے ہی کھو چکی تھی اب اپنے بچے جو اسکے دل کا چین سکون تھے انہیں وہ ہر گز کھونا نہیں چاہتی تھی۔پولش عورت کی زبان سے بچوں کے ادارے کا نام سن کر وہ یہ کہتے ہوئی بے دلی سے اٹھ کر چل دی کہ رہنے دو تم اس بچے کا االلہ مالک ہے انشااللہ کوئی بندوبست ہو جائے گا۔یہ سن کر پولش عورت کو بہت غصہ آیا کہنے لگی اللہ کیا کرے گا جو کرنا ہے تم خود کرو ہر کام اللہ پہ نہ چھوڑا کرو۔وہ سنی ان سنی کر کے آگے بڑھ گئی۔
کھانے کے وقفے میں نازنین نے کہا کہ وہ پلاؤ بنا کر لائے گی۔یہ سن کر وکٹوریہ بہت خوش ہوئی۔اسے پاکستانی کھانے بہت پسند تھے۔وکٹوریہ نے خوش ہوتے ہوئے پوچھا کس روز بنا کر لاؤ گی۔جمعرات کو انشا اللہ ۔۔۔نو انشااللہ ۔۔۔وکٹوریہ جھٹ سے بولی ایک تو تم مسلمان ہر بات میں یہ لفظ ضرور بولتے ہو۔یہ کہ کر وکٹوریہ نے بلیک کافی کا مگ منہ سے لگا لیا اور نازنین اسے بڑی گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے ہوں ہی کر کے رہ گئی۔وہ اسکی اس بات سے بہت تنگ آئی ہوئی تھی کہ وہ اس لفظ کے استعمال پر بہت تنقید کرتی تھی۔ کبھی کبھی اسکا جی چاہتا کہ اسے ایک بار تو سبق سکھا دے کہ وہ آئندہ تنقید سے باز آ جائے۔ اس روز تو اس نے شدت سے یہ چاہا کہ کچھ ایسا ہو جائے کہ یہ اس بات سے باز آ جائے مگر کیا یہ وہ نہیں جانتی تھی۔البتہ وکٹوریہ پلاؤ کھانے ک ے لیے بہت بے چین تھی ۔مگر پھر یہ سوچ کر پن نازنین اپنے کاموں میں مصروف ہو گئی۔جمعرات کا دن بھی آگیا۔نازنین حسب وعدہ سینٹر میں پلاؤ بنا کر لے گئی لیکن خلا ف توقع وکٹوریہ نہیں آئی۔پتہ چلا کہ اسکی کار کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ بازو پر چوٹ آئی تھی اور اسے مرہم پٹی کے بعد گھر بھیج دیا گیا تھا۔اگلے ہفتے وکٹوریہ بازو پہ پلستر کے ساتھ دفتر آئی۔سب حسب معمول کام میں مصروف تھے۔کھانے کے وقفے میں ادھر ادھر کی باتوں کے دوران بتایا کہ ہم انشااللہ اگلے ہفتے سے نیا پراجیکٹ شروع کریں گے۔وکٹوریہ اس کے سامنے بیٹھی تھی باقی کولیگ بھی آس پاس موجود تھے۔سب کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب وکٹوریہ نے بھی نازنین کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا ۔ہاں انشاللہ ہم اگلے ہفتے نیا پراجیکٹ شروع کریں گے۔تم ٹھیک کہتی ہو نازنین ۔
Yes InshAllah we,ll begin project next week.
وکٹوریہ نے نازنین کو بتایا کہ میں جب دفتر آنے کے لیے گھر سے نکلی اچانک سامنے سے ایک گاڑی آ گئی جسے بچاتے بچاتے میری گاڑی اس سے ٹکرا گئی۔یہ تو اچھا ہوا کہ بچت ہو گئی مگر جب میں ہسپتال پہنچی تو پتہ چلا کہ بازو میں چوٹ لگی ہے۔میں جب ہسپتال سے پٹی کروا کر گھر پہنچی مجھے یادآیا کہ آج تو تم نے میری پسندیدہ ڈش لانا تھی۔اس وقت مجھے تمہارے الفاظ یاد آگئے کہ کل میں انشا اللہ پلاؤ لاؤں گی اور میں نے تمہیں کہا تھا کہ انشااللہ نہیں۔۔۔ مگر اب مجھے سمجھ آگئی ہے کہ انشا للہ کا کیا مطلب ہے۔ اسکا مطلب یہی ہے کہ جب کوئی انشاللہ کہتا ہے تو اس کام میں اللہ کی مدد شامل ہو جاتی ہے۔اور یہی سچ ہے۔اب میں کبھی تمہارے انشا اللہ پر اعتراض نہیں کروں گی۔جواب میں نازنین نے تعجب آمیز خوشی سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ہاں ہاں کیوں نہیں انشاللہ۔۔ یہ سن کر سب ہنس پڑے اور ایک آواز ہو کر بولے انشاللہ۔عجب پر سرور لمحہء تھا۔جس نے ایک غیر مسلم دل پر اللہ پر بھروسے کی حقیقت کھول دی تھی۔