بھوک سے اموات اورغذا کی بربادی

صابررضا رہبر
sabir
وطن عزیز میں ہردن بچو ںکی موت ہوجاتی ہے یعنی اوسطا ً فی منٹ تین بچے زندگی کی جنگ ہارجاتے ہیںاس کا سبب کوئی جان لیوا بیماری کاقہرنہیںہے بلکہ اس کی اصل وجہ غذاکی کمی،نقص تغذیہ اورخون کی کمی ہے۔یہ انکشاف انڈین چلڈرن ہیلتھ اکیڈمی کے سروے میں ہواہے۔اکیڈمی کے صدر ڈاکٹرسی پی بنسل کے مطابق فیصد اموات کی وجہ نقص تغذیہ جبکہ فیصد اموات کا سبب انیمیایعنی خون کی کمی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت ہندبچوںکی صحت کے منصوبوںپرجتنی رقم خرچ کرتی ہے اگراسے غریبوںمیں تقسیم کردیاجائے تواس سے ملک سے غریبی بھی ختم ہوجائے گی اورغذااورنقص تغذیہ کی کی کمی کے سبب ہونے والی اموات کا سلسلہ بھی ٹھہرجائے گا۔اس سروے میں اکیڈمی نے ایک دن سے لے کر پانچ سال تک کے بچوںکوشامل کیاہییعنی اگراس میں پانچ سال سے زیادہ عمرکے افرادکوبھی شامل کرلیاجائے توتعدادمیںکئی گنا اضافہ ہوجائیگا۔غذاکی کمی ،نقص تغذیہ اورخون کی کمی کا مسئلہ صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ یہ عالمی مسئلہ ہیجس کی زدپرتقریبا تمام ترقی پذیرممالک ہیں۔
انڈین چلڈ رین ہیلتھ اکیڈمی کا مذکورہ سروے رپورٹ ایک آئینہ ہے جس میں ہم ان مسائل سے دوچارممالک کی تصویرواضح طورپردیکھ سکتے ہیں۔اکیڈمی کی رپورٹ سے یہ تصویرابھر کرسامنے آتی ہے کہ ہندوستان سمیت اس کے شکارممالک میںغریبی کی صورت حال سنگین ہییعنی وہاں کی آبادی کے حصہ کوپیٹ بھر کھانا بھی نصیب نہیں ہوپارہاہے لیکن اس کے برعکس رپورٹ ہمارے سامنے جو اقوام متحدہ کے ادارہ ایف اے او کی ہے۔اس رپورٹ کے مطابق ہرسال ارب ٹن کھانابربادہوجاتاہیجبکہ دنیا میں کروڑ افراد بھوکمری کے شکارہیں۔یعنی بربادہونے والے اناج کا اگرایک تہائی حصہ بھی بچالیاجائے تو دنیا کے تمام بھوکے لوگوںکا نہ صرف پیٹ بھر جائے گا بلکہ ان کی صحت مند زندگی کوترقیاتی کاموںمیں استعمال کرکے ترقی کی ایک نئی تاریخ رقم کی جاسکتی ہے۔ ایف اے او کے ماہرین کے مطابق اگرہرسال بربادہونے والے اناج کوبچالیاجائیتوتک دنیا کی آبادی کا پیٹ بھرنے کیلئے فقط فیصداناج میں اضافہ کرنے کی ضرورت پڑے گی بربادی جاری رہی تو اس کیلئے اناج کی پیدوارامیں فیصد سے زیادہ اضافہ کرنا ہوگاتب جاکر لوگوںکا پیٹ بھرپانا ممکن ہوگا۔ایف اے رپورٹ کے کنوینرمیتھلیس ایوینس کا کہنا ہے کہ جتنا اناج ہرسال بربادہوتاہے اسے اگانے میں ہندوستان اورکینڈاکے پورے جغرافیائی حصہ کے برابرجگہ لگتی ہے۔ایف اے او نے غذائی قلت اورغیرمتوازن کھان پان کے پیش نظرتنبیہ کرتیہوئے کہاہے کہ صحت خرچ کی بہتات اوراناج کی پیدوارمیں کمی کے سبب سماج پر اس کا زیادہ بوجھ پڑتا ہے۔دنیامیں پانچ سال کی عمرکاہرچارمیں سے ایک بچہ کمزورہے یعنی کل کروڑبچے غذائی کمی کے شکارہیں جو اپنی پوری ذہنی وجسمانی طاقت کا استعمال نہیں کرپائیںگے۔سروے کے مطابق دنیا بھرمیں دوارب سے زیادہ لوگوںمیں اچھی صحت کیلئے ضروری وٹامن اورمعدنیات کی کمی ہیساتھ ہی ارب لوگ موٹاپے کا شکارہیں۔ان موٹے لوگوں میں سے تقریبا ایک تہائی آبادی کوہڈی کے مرض،شوگراوردیگرموٹاپے سے ہونے والی بیماریاںلاحق ہونے کا خطرہ ہے۔ایجنسی کاکہناہے کہ اگر سرمایہ دارطبقہ غذائی قلت کو دورکرنے کیلئے پانچ سال تک سالانہ ارب ڈالر کی سرمایہ داری کریں تولوگوںکی صحت میں سدھاراوربچوںکی شرح اموات میں کمی اورمستقبل میں ان کی عمرمیں اضافہ کے امکانات روشن ہوجائیں گے ۔اس سے مستقبل میں سالانہ ارب ڈالرکی بچت ہوگی۔
انسان جب افراط وتفریط کا شکارہوجاتا ہے تو کس طرح سنگین مسائل اسے اپنے گھیرے میں لیلیتے ہیں مذکورہ بالا سطورسے یہ پوری طرح واضح ہوجاتا ہے۔فطری نظام سے انحراف کرکے کسی مسئلہ کا حل نکالنیکی کوشش نہ صرف رائیگاں ثابت ہوتی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں دیگرسنگین نوعیت کے مسائل بھی دامن سے لپٹ جاتے ہیں۔خوراک انسانی زندگی کیلئیجزوِلاینفک ہے اوراسکے بغیر زندگی کا تصورمحال ہے ۔اسی طرح امیر وغریب کا فلسفہ بھی دستورانسانی کا حصہ ہے اورکوئی زمانہ اس سے خالی نہیں رہا۔ماضی کی تاریخ سے اب تک کے حالات اس بات کے گواہ ہیں کہ ترقی یافتہ افراد نے اگر سماج کے غریب اوردبے کچلیلوگوںکوغلام بنایا اوراس کا استحصال کیا ہے تو اس کے پس پردہ پاپی پیٹ کی آگ کارفرمانظرآئے گی ۔کیوںکہ جسم سے سانسوںکا رشتہ استواررہے اس کے لئے خوراک لازم ہے اورانسان اسکی تلاش میں اپنا کچھ لٹانے پر آمادہ نظرآتا ہے یہاں تک کہ عزت وعصمت اورایمان کا سودابھی اس کے آگے اہمیت کی حامل نہیں رہ جاتی
بھرا ہو پیٹ تو انسان مسکراتا ہے
لگی ہو بھوک تو ایمان ڈگمگاتا ہے
آج دنیا غذائی قلت ،صحت اورغلامانہ زندگی کے مسائل سید وچارہے تو اس کی واحد وجہ ہے کہ ابن آدم نے انسانی تقاضوںکو فراموش کردیاہے ۔دولت کی ریل پیل کے باوجوداگر ہمارے سماج کا بڑا حصہ راتوںکوبھوکے سوجائے توکیا یہ انسانیت کیلئے شرم ناک نہیں ہے؟یہ بھی کتنی تعجب خیز بات ہے کہ ایک طرف انسان چانداورسورج پر کمندیں ڈال رہا ہے۔ سیاروںپرآبادہونے کیلئے نئی نئی راہیں تلاش کررہا ہے لیکن زمین پر بسنے والیانسانوںکی زندگی کی بقا کیلئے سامان فراہم کرنے سے وہ قاصرنظرآرہا ہے۔ ہندستان میں غریبوںکوپیٹ بھرنے کیلئے بڑی پہل کی گئی ہے اورغذائی تحفظ بل بنایاگیا ہے لیکن رشوت خوری اوربدعنوانی کے زیرسایہ اس کاپوری طرح زمینی سطح پر اترنا مشکل نظرآرہا ہے۔
میںجب کسی بڑی تقریب میں جاتاہوںاوروہاں کھانے کی بربادی پرنظرپڑتی ہے تو دل مسوس کررہ جاتا ہوں۔کئی بارمیں نے سوچا کہ کوئی ایسا نظام ترتیب دیاجائے جس کے ذریعہ امیروںکی پارٹی میں بربادہونے والے کھانوںکوان بھوکوںتک پہنچایاجاسکے جوایک ایک دانے کیلئے ترس جاتے ہیں۔غذائی قلت کے مسائل کو آج بھی ایک بڑا طبقہ بڑھتی آبادی سے جوڑکر دیکھ رہا ہیحالاں کہ اس کی اصل وجہ فضول خرچی اورافراط وتفریط میں مبتلا ہونا ہے،لیکن پتہ نہیں کیوںغذاکی بربادی کے باوجودماہرین اقتصادیات کی توجہ اس کی جانب مبذول نہیں ہوپارہی ہے۔
اگر انسان واقعی غذائی قلت کی مصیبت سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کیلئے سب سے بہتر طریقہ یہ کہ وہ اسلام کے نظام زندگی کا مطالعہ کرے ۔بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے ساڑھے چودہ سوسال قبل یہ پیغام دیاتھاکہ تم نیاگررات کوشکم سیرہوکرکھایااورتمہارا پڑوسی بھوکاسوگیا تو تمہارا کھانا تمہارے لیے حرام ہے؛ اگرچہ تمہاراوہ پڑوسی یہودی ہو۔یہودی اس لئے فرمایاکہ یہودی مسلمانوںکا ازلی دشمن ہے ۔ا س سے یہ بتانا مقصودتھا کہ سماجی تانے بانے اورانسانی زندگی کی بقا کیلئے کوشش کرنا ہرفرد پر بلا تفریق وامتیازلازم ہے۔رنگ ونسل مذہب وملت اوراونچ ونیچ کی تفریق کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔اسی طرح قرآن مقدس میں اللہ تبارک وتعالی نے ارشا دفرمایاکہ فضول خرچی کرنے والا شیطان کا بھائی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فضول خرچی کی سختی کے ساتھ ممانعت فرمائی ہے۔اسلام نے پڑوسیوںکے حقوق کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاہے جس میں سماجی زندگی کے ہرپہلوکا خیال رکھاہے۔ دنیا آج فضول خرچی سے پرہیز کرنے کے ساتھ اپنے دلوںمیں انسانیت کی شمع روشن کرے تو کیا کسی بھی سماج کاکوئی بھی فرد کھائے بغیر سوسکتا ہے۔قبل اس کے کہ دنیا غذائی قلت کے سنگین تر مسائل میں گھرجائے اورانسانی جانیں آب ودانہ کے بغیر دم توڑنے لگیں اسلام کے نظام فطرت کوزندگی کا حصہ بنالینا چاہئے کیوںکہ اسلام ہی ہے جو انسان کو غذائی قلت سمیت دیگرلاینحل مسائل سے نجات کاپروانہ دے سکتا ہے۔n

اپنا تبصرہ لکھیں