شہباز رشید بہورو
لبنان کے دارالحکومت بیروت میں بندرگاہ کے قریب منگل کی شام ایک زوردار دھماکہ ہوا جس نے پورے شہر میں زلزلہ برپا کیا۔دھماکے کے بعد یہ مقام ملبے کا ڈھیر بن گیا ۔دھماکے میں اب تک 7 15 افراد کی ہلاکت اور 5000ہزار سے زیادہ افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔علاوہ ازیں تقریباً 300000سے زائد لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اور 80سے زائد لوگ اب تک لاپتہ ہیں۔ہلاکتوں میں اضافے کا یقینی خدشہ برابر منڈلآ رہا ہے کیونکہ بہت سارے زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے ۔۔میڈل ایسٹ آئی کی وساطت سے ایک لوکل رضا کار کا بیان اسطرح سامنے آیا کہ “میں جانتا ہوں کہ میرے بہت سارےساتھی ہلاک ہو چکے ہیں میں ان کی لاشوں کو یا ان کے جسم کے کسی بھی حصے کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں تاکہ ان کے اہل خانہ ان کی تجہیز و تکفین کر سکیں”.
بیروت میں یہ ہلاکت خیز دھماکہ ان حالات میں واقعہ ہوا جب کہ لبنان پچھلے 15 سالوں سے سخت ترین خانہ جنگی سے پہلے ہی اپنی معیشت اور سیاسی نظام بگاڑ کی نذر کر چکا ہے۔اس دھماکے سے لبنان مزید خطرناک حالات سے دوچار ہوگا اور وہاں پر مزید حالات کے وحشتناک ہونے کا خدشہ ہے ۔کیونکہ لبنان میں سیاسی استحکام نااہل حکومت کی وجہ سے داو پر لگ چکا ہے۔ویسام سادے نامی ایک کالم نگار لکھتے ہیں “یہ تباہ کن دھماکہ ایک غیر زمہ دار اور مجرم اسٹیٹ کی کرنی کا نتیجہ ہے جو اپنی ہو عوام کے لئے معاندانہ رویہ رکھتی ہے”.
روئٹرس کے مطابق بیروت کی بندرگاہ پر واقع لبنان کا مرکزی گودام دھماکے سے بالکل تباہ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے ایک مہینہ سے کم کی مدت تک اناج کے ذخائر محفوظ ہیں ۔لبنان کی حکومت کا کہنا ہے کہ غذائی تحفظ کی یقین دہانی کے لئے لبنان کو کم ازکم تین ماہ کے لئے اناج کے ذخائر محفوظ ہونے چاہیے تھے۔اس بھیانک دھماکے سے نقصان تو ہوا ہی ہے لیکن جو بات قابلِ غور ہے وہ یہ کہ کیا یہ دھماکہ محض ایک اتفاقی حادثہ ہے جو کہ 2700ٹن امونیم نائٹریٹ کے ذخائر کے پھٹ جانے سے ہوا ہے یا پھر اس کے پیچھے کسی دوسرے ملک، ایجنسی یا کسی دہشت گرد تنظیم کا ہاتھ ہے۔ابھی تک بیروت دھماکے کے حوالے سے پانچ کانسپائریسی تھیوریز پر بحث کی جا رہی ہے۔پہلی تھیوری کے مطابق اس حادثے کی پشت پر اسرائیل کا مجرمانہ ہاتھ ہے ۔کیونکہ اسرائیل کا لبنان کے ساتھ بڑے عرصے سے سرحدی مخاصمت جاری ہے ۔دوسری تھیوری کے مطابق اس میں حزب اللہ نامی شیعہ تنظیم کا ہاتھ ہے۔تیسری تھیوری کے مطابق جو صدر ٹرنپ کے ٹویٹ پر مبنی ہے یہ ایک دہشت گردانہ حملہ ہے جس کا مطلوبہ نشانہ بیروت تھا لیکن کسی کو مجرم ٹھہرائے بغیر یہ بات پھیل رہی ہے۔چوتھی تھیوری کے مطابق اس میں ترکی کا ہاتھ ہے اور پانچویں تھیوری کے مطابق آتشبازی سے منسلک رکھے گئے مواد میں آگ لگنے کا نتیجہ ہے۔فی الحال ابھی تک کسی صحیح وجوہ کا تعین نہیں ہو سکا ہے اور نا ہی کسی تنظیم نے دھماکوں کی زمہ داری قبول کی ہے۔
دھماکے کے فوراً بعد فرانس کا صدر امیوئل میکرون نے بیروت کا دورہ کیا۔وہاں لوگوں سے ملاقات کرتے ہوئے صدر میکرون نے کہا “میں یہاں سیاستدانوں کی مدد کرنے نہیں آیا ہوں بلکہ میں یہاں لوگوں کی مدد کرنے آیا ہوں “.امریکی صدر نے بیروت کے دھماکے کو ایک امکانی حملہ قرار دینے کے بعد مدد کا اعلان بھی کیا۔دنیا کے دیگر کئی ممالک کے ساتھ ساتھ لبنان کے حریف اسرائیل نے بھی مدد کا اعلان کیا ہے۔یاد رہے کہ لبنان نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے۔اسرائیل نے 2000ء تک جنوبی لبنان پر 15سال سے قبضہ کئے رکھا تھا لیکن آخرکار 2000میں اسرائیل کو جنوبی لبنان چھوڑنا پڑا ۔لبنان میں تباہی کس حد تک ہوئی ہے وہ قارئین خود ویڈیوز دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں ۔پورا کا پورا شہر تباہ ہوچکاہے۔مجھے دراصل جس ایشو پہ بات کرنی ہے کہ بیروت دھماکوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے اور کن مقاصد کے تحت یہ حملہ کروایا گیا؟۔ایک بات تو یقینی طور پر کہی جا سکتی یے کہ پورا کا پورا میڈل ایسٹ جنگی میدان بننے کے تناظر میں ان جیسے دھماکوں اور حملوں سے ہمیشہ عبارت ریا ہے۔مشرقی وسطی کے تقریباً تمام ممالک بلواسطہ یا بلاواسطہ حالت جنگ میں ہیں ۔وہاں کی عوام جنگ کے بادلوں تلے اپنی زندگی گذار رہی ہے۔راتوں رات وہاں کے حالات موسم کی طرح بدلتے رہتے ہیں ۔کبھی جنگی تناو، کبھی معاشی تناو کبھی اندرونی ارتعاش اور کبھی بیرونی دباو بنا رہتا ہے۔وہاں کبھی جمال خاشوقجی کا قتل ترکی کی سرزمین پہ کرایا جاتا ہے، کبھی قاسم سلیمانی کو عراق کی سرزمین پہ ہلاک کیا جاتا ہے، کبھی علمائے دین کو پابندِ سلاسل کیا جاتا ہے، کبھی لمحات میں حکومتیں تبدیل ہوتی ہیں، کبھی فوجی بغاوت، کبھی سول بغاوت، کبھی ملک کے صدر کو پھانسی دی جاتی ہے، کبھی ملک کے وزیراعظم اور فوجی چیف کو اپنے ملک ہی میں قتل کیا جاتا ہے اور کبھی میزائل حملوں، کیمئی بمبوں، زہریلی گیسوں سے شہروں کے شہر مٹا دئے جاتے ہیں ۔اس جیسی سنگین صورتحال کے تناظر میں بیروت کے دھماکوں کو محض ایمونیم نائٹریٹ جیسے دھماکہ خیز مواد کو آگ لگ جانے کے سبب پھٹ پڑنے کا نتیجہ قرار دینا حماقت ہی ہو سکتی ہے۔جس خطہ زمین کا ہر ملک ہمہ وقت حملوں کی زد میں رہتا ہے وہاں پر اس خطرناک دھماکے کو محض ایک اتفاقی حادثہ سمجھنا ناانصافی بھی ہے کیونکہ اس وجہ سے اس حادثے پر عالمی سطح کی تحقیق و تفتیش نہ کرنے کا بہانہ مل سکتا ہے۔حالانکہ اس جانچ میں لاپرواہی اور منافقت دونوں کا امکان ہے۔اس خطہ میں جہاں سازشوں کا جال چہار اطراف بنا ہوا ہے وہاں پر اس دھماکے کو سازشوں کی زنجیروں سے آزاد سمجھنا صحیح طرز نہیں ہے۔بلکہ اس دھماکے کو انتقام یا سزا کے پس منظر میں سمجھنا ضروری ہے۔یہ بھی درست ہے کہ اس دھماکے کی اصلی وجوہ جاننا بہت مشکل ہے جیسے کہ معروف تجزیہ نگار وعالم دین محترم سمیع اللہ ملک صاحب نے اپنے حالیہ کالم میں لکھا ہے :
اس عظیم اورہولناک حادثے کے کئی پہلواس قدرپراسرارہیں کہ اس کی حقیقت تک پہنچنے کیلئے ایک عمردرکارہوگی “.
امت مسلمہ جہاں سیاسی طور بہت نحیف ہے وہیں فرقہ واریت اور آپسی کشاکش میں گرفتار ہو کے اس قابل نہیں بن سکتی کہ وہ ان دھماکوں کی اصلی وجوہ تلاش کرنے کے لئے کوئی ٹھوس اقدام کر سکتی ہے۔لیکن مذکورہ بالا پس منظر میں ان دھماکوں کو ضرور اسلام دشمن قوتوں کی کارستانی قرار دی جا سکتی ہے۔اگرچہ ہم کسی ایک مخصوص ملک، تنظیم یا ایجنسی کی نشاندہی نہیں کر سکتے لیکن ان اسلام دشمن قوتوں کی کارروائیوں کا سابق حادثات کی روشنی میں جائزہ لے کر بہترین تجزیہ پیش کر سکتے ہیں ۔مجھے محترم ملک صاحب کی بات سے پورا اتفاق ہے کہ “اس خطے میں ایک مرتبہ پھرمتحارب قوتوں کوجنگ کے شعلوں میں الجھاکرجہاں فرقہ واریت کوہوادی جائے گی وہاں ان ملکوں کے وسائل کوجنگی ہتھیاروں کی فراہمی کے نام پر لوٹ مارکاایک لامتناہی سلسلہ شروع ہونے کابھرپور امکان نظرآرہاہے۔”
کیونکہ فرانس کے صدر کے بیان کو ذرا دیکھیں کہ میں یہاں ان سیاستدانوں کی مدد کرنے نہیں بلکہ لوگوں کی مدد کرنے آیا ہوں ۔یہ بیان لبنان میں لوگوں کے اندر موجود ہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنے پر اکسانے کا کام کر سکتا تھا۔جس کا واضح ثبوت بیروت میں حکومت کے خلاف مظاہروں کی شکل میں ظاہر ہوا۔عالمی ذرائع ابلاغ نے دھماکوں کا زمہ دار وہاں کی حکومت کو ٹھہرایا ہے۔لبنان کے وزیر اعظم حسن دیاب نے مظاہروں کے شدید تر ہونے کے تناظر میں کل ایک پریس کانفرنس میں جلد از جلد نئے انتخابات کرائے جانے کا اعلان کیا ہے۔خفیہ اسلام دشمن قوتیں جنہوں نے شام، عراق، لیبیا اور مصر کو سیاسی اتھل پتھل کا میدان بنا کر مختلف متحارب جماعتوں کو آپس میں لڑایا ہے لبنان میں بھی بھی اس کا آغاز ان د ھماکوں سے کر چکے ہیں۔میڈل ایسٹ میں ان پر اسرار قوتوں نے ہر ملک میں کرایہ کے مظاہرین کو لے کر پر تشدد مظاہروں کا آغاز کر کے ملک کو خانہ جنگی کی آگ میں دھکیل دیا ہے تاکہ ان ممالک کو معاشی ،سیاسی اور اقتصادی طور پر کمزور بنا کے ہڑپ کرنا آسان رہے گا۔اس دھماکے کے فوراً بعد ہزاروں کی تعداد میں لوگ نکل کر حکومت کے خلاف مظاہرے کرنے لگے ہیں ۔لبنان چونکہ پہلے ہی سے معاشی مسائل سے دوچار ہے یہ مظاہرے وہاں کی صورتحال کو مزید گھمبیر بنا سکتے ہیں ۔