گل نوخیز اختر
بیوی بلوغت کی انٹرنیشنل ڈگری ہے۔ اسے سنبھال کر رکھنا ہر شوہر کے فرائض میں شامل ہے ۔ بیوی نئی ہو تو کہیں اور دل نہیں لگتا اور پرانی ہوجائے تو بیوی میں دل نہیں لگتا۔ بیوی شروع شروع میں آپ کے تمام کام کرتی ہے بعدازاں کام تمام کرتی ہے ۔ باپردہ بیوی وہ ہوتی ہے جو شوہر کا دیگر تمام عورتوں سے پردہ کروادے۔ مرد کو اپنی برائی اور کمزوری کا احساس بیوی کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ بیوی آغاز میں محبت دیتی ہے اور انجامِ کار بچے۔
بیوی خوبصورت ہو تو نظر نہیں ہٹتی اور بدصورت ہو تو نظر نہیں لگتی۔ از روئے مذہب ہر بیوی کا ایک شوہر اور ہر شوہر کی کئی بیویاں ہوسکتی ہیں۔ محبوبہ کو بیوی بنانا آسان ہے صرف ایک نکاح خواں، چند گواہ اور چوہارے کی ضروت ہوتی ہے۔ مگر بیوی کو محبوبہ کو بنائے رکھنے کے لیے پوری تنخواہ، پورا دل، پوری آنکھیں، پورا بیڈ روم اور پوری صاف ستھری نیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک بیوی شوہر کا دل اور گھر آنگن صاف رکھتی ہے ۔ وہ بیوی کم، ہدایت اور نیکی کا فرشتہ زیادہ ہوتی ہے۔
بچہ بالغ اور ملازمت پیشہ ہوجائے تو ماں باپ اس کی بیوی لانے کا سوچتے ہیں اور وہی بیوی گھر آکر شوہر کے والدین کو بے گھر کرنے کا سوچتی ہے۔ سہاگ رات کی بیوی اور آگے کی ہر رات والی بیوی میں بڑا فرق ہوتا ہے ویسے ہی جیسے ڈھکن کھول کر فوری کولڈ ڈرنک پینے اور بعد ازاں فریج میں رکھی کولڈڈرنک پینے میں ہوتا ہے۔
کہتے ہیں اچھی بیوی زبان سے پہچانی جاتی ہے۔ زبان کہاں چلانا ہے یہ اچھی بیوی اچھی طرح جانتی ہے۔ کچھ شوہر بیوی کی لسانی کارروائی سے طلوع آفتاب تک خوش رہتے ہیں۔ اکثر شوہر خوش لباس بیویوں کو پسند کرتے ہیں اور لباس میں دیکھ کر زیادہ خوش رہتے ہیں۔ دوسری بیوی وہیں لائی جاتی ہے جہاں پہلی کچن یا بیڈ میں ایکٹو نہ ہو۔ بیوی کے ساتھ بہت سارے فرائض منسوب ہیں جیسے روزانہ کھانا اور دماغ پکانا، گھر اور بستر صاف رکھنا، سالانہ بچے دینا اور شوہر کو خوش رکھنا۔ آخرالذکر کام ایسا ہی ہے جیسا کہ وزیراعظم کا کام صدرِ پاکستان کو خوش رکھنا ۔ اس کام میں کتنا مکھن یا تیل ضائع ہوتا ہے اس کا حساب کوئی نہیں رکھتا۔
اکثر شوہر اپنی بیوی سے شاکی رہتے ہیں کیونکہ انسان ہر سال نیا سیل فون تو خرید لیتا ہے مگر بیوی وہی چلتی رہتی ہے۔ انسان کی آدھی عمر ماں کے ہاتھ کا کھانا کھاکر اور باقی آدھی عمر بیوی کے ہاتھ کا کھانا کھاکر گزرجاتی ہے ۔ جو شوہر بیوی کے ہاتھ کا کھانا نہیں کھاتے ان کی عمر دراز ہوتی ہے اور جو کھاتے ہیں انہیں عمر دراز لگتی ہے۔ بیوی کی تعریفیں کرنا ہر شوہر کا نکاحی فریضہ ہے۔ یہ واحد کام ہے جس میں بولا گیا جھوٹ بھی قابلِ معافی ہے ۔ ایک نکاح خواں بتارہے تھے کہ ہمارے کام میں برکت اسی وجہ سے ہے کہ مرد بیویوں کی کم اور کنواریوں کی زیادہ تعریف کرتے ہیں۔ غیر شادی شدہ لڑکی کی تعریف کرنے سے وہ آئینہ دیکھنے اور نکاح کرنے پر مائل ہوتی ہے۔ مغرب اور مشرق میں یہ فرق ہے کہ ہمارے ہاں بچے صرف بیویاں پیدا کرتی ہیں جبکہ مغرب میں یہ کارگذاری محبوبہ بھی انجام دیتی ہے۔ ہر بچہ شوہر اور بیوی کے درمیان ایک اینٹ کی طرح ہوتا ہے اور پاکستانیوں کو دیوار کھڑی کرنے کا بڑا شوق ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں آگ بُجھ جاتی ہے مگر اینٹیں پکتی رہتی ہیں۔
بیوی اور گاڑی جتنی بھی پرانی ہو اگر مصیبت کھڑی نہیں کرتی تو زیرِ استعمال رہتی ہے۔ آج کے دور کی بیویاں دفتر بھی جاتی ہیں۔ دفتر جانے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ گھر پر سالی اور چہرے پر خوشحالی نظر آتی ہے۔ بیوی کی بہنیں اگر خوبصورت ہوں تو سسرال کی وزٹ کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے۔ ساس ماں جیسی لگتی ہے اور سسرال کو دئیے جانے والے تحفوں پر شوہر کا دل رنجیدہ نہیں ہوتا۔
جس شخص کی ایک سے زائد بیویاں ہوں اس کی صحت اور بینک بیلنس کی صورتحال نازک ہی رہتی ہے۔ اس کا بیشتر وقت ناز برداری اور نہانے میں گزرتا ہے۔ ہمارے دوست علیل جبران کو میں نے جب بھی دیکھا وہ بیگم کا ہاتھ تھامے رہتے ہیں۔ ہم نے ان کی اس مثالی محبت کا تذکرہ رشک آمیز لہجے میں ان کے سامنے کیا تو وہ بولے “اس میں محبت کا عنصر کم اور بچت کا پہلو زیادہ ہے؟” ہم نے پوچھا “وہ کیسے؟” بولے “ہاتھ نہ تھامو تو وہ فورا ” شاپنگ کے لیے بھاگتی ہے۔”
غیر شادی شدہ ہمیشہ شادی شدہ سے دانا ہوتا ہے جبھی تو وہ غیر شادی شدہ ہوتا ہے۔ شادی کرنا اور درویشی اختیار کرنا ایک جیسی بات ہے ۔ دونوں کو دنیا ترک کرنی پڑتی ہے ، ایک کو اللہ مل جاتا ہے، دوسرے کو بیوی ۔ ایک دانا کا کہنا ہے کہ شادی ایک ایسی جنگ ہے جس میں آپ کو اپنے دشمن کے ساتھ سونا پڑتا ہے ۔ محبوبہ کی محبت میں آنکھیں بند رہتی ہیں مگر بیوی پاکر آنکھیں کھل جاتی ہیں ۔ شادی کے پہلے سال بیوی محبوبہ لگتی ہے، دوسرے سال سے چوتھے سال تک دوست اور اس کے بعد تا زندگی وہ دشمن جسے آپ چھوڑ بھی نہیں سکتے۔
علیل جبران کہتے ہیں شوہر کی حیثیت جسم میں سر کی طرح ہوتی ہے اور بیوی گردن ہوتی ہے جو سر کو جس جانب چاہے موڑ سکتی ہے۔ بیوی پر جتنا خرچ کیا جائے یا لکھا جائے کم ہے۔ کچھ لوگ شادی کے بعد ناول نگار بن جاتے ہیں یا پھر شاعر، اسے کہتے ہیں “بیوی سے فرار۔”
واہ ..اس کا مطلب ہے کہ میں پهر شادی کے بارے میں سوچنا چھوڑ دوں
یہ تو مذاق کی بات تھی ورنہ سچ تو یہ ہے کہ بقول سیانوں کے شادی ایک ایسا کیک ہے جس نے کھایا وہ بھی پچھتایا جس نے نہ کھایا وہ بھی پچھتایا ۔اس لیے کھا کہ پچھتانا اچھا بجائے نہ کھا کر ترسنے کے۔۔۔۔
بس اتنا خیال رکھنا چاہیے کہ انسان کو کیک بانٹنے اور ہضم کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔۔۔۔