بیٹی پاکستان نہ آنا۔۔
شازیہ عندلیب
موسم سرماء کی چھٹیوں کی آمد کے ساتھ ہی بیرون ملک مقیم لوگ جوق درجوق وطن عزیز کی راہ لیتے ہیں۔کئی لوگ وہاں اپنے والدین بہن بھائیوں اور عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے بے چین و بے تاب ہوتے ہیں ۔اس دو تین ماہ کے ٹور کی تیاریاں کئی مہینوں پر محیط ہوتی ہیں۔وطن سے شاپنگ کی لسٹیں بنائی جاتی ہیں۔دوستوں اورعزیزوں کی فرمائشیں نوٹ کر کے ان کے پسندیدہ تحائف خریدے جاتے ہیں۔اس ٹور کے لیے عام طور سے خاندان کے ہر فرد کا ذاتی اٹیچی کیس تیار کیا جاتا ہے۔بچوں کے لیے بیگ علیحدہ مخصوص کیا جاتے ہیں۔روانگی کے دن گن گن کے گزارے جاتے ہیں۔سب کام جلدی جلدی نبٹائے جاتے ہیں پھر بھی کچھ نہ کچھ رہ ہی جاتا ہے۔اگر گھر میں کوئی پالتو پرندہ یا جانور ہے اسے کسی کئیر ٹیکر کے حوالے کیا جاتا ہے۔ سفر کے دوران استعمال کرنے والے لباس کا انتخاب ہوتا ہے۔غرض یہ کہ وطن جانے کی خوشی اور عزیزو اقارب سے ملنے کی امنگیں دل میں ہلکورے لیتی رہتی ہے کہ وطن اور عزیزوں سے دور جا کر ہی ان کی قدر آتی ہے۔ان سب مراحل سے گزرنے کے بعد بالآخر وہ دن بھی آ ہی جاتا ہے جس روز وطن روانگی ہوتی ہے۔ ٹکٹیں کاغذات اور پاسپورٹ ہینڈ بیگ میں بڑی احتیاط سے رکھے جاتے ہیں۔کیونکہ انہی پر سفر کی تکمیل کا انحصار ہوتا ہے۔ان میں سے ایک بھی کاغذ کی کمی ہوائی سفر کرنے والوں کو مشکلات سے دوچار کر سکتی ہے۔ذرا سی غفلت جرمانے اور سزا کا باعث بن سکتی ہے۔ہیں تو یہ محض چند رنگین کاغذات مگر کس قدر اہم ہیں کہ نہ صرف انہیں کھونے سے بلکہ حاسدوں کی نظرسے بھی بچانا ہوتا ے۔کئی مرتبہ ایسے واقعات سننے میں آئے ہیں کہ کسی کا پاسپورٹ کھو گیا تو پھر اسکی بازیابی تک بہت ہی پریشانی اورحزیمت اٹھانی پڑتی ہے ۔اسی طرح کے ایک سبق آموز واقعہ میں کسی نے دوران سفر فرانس میں ایک امریکی خاتون کا پاسپورٹ صرف اس لیے غائب کر دیا کہ ان خاتون نے اپنی ہم سفر حجاب والی عورت کو اپنا فون کارڈ استعمال کے لیے نہیں دیا تھا۔جبکہ ایک اور ایسے ہی واقعہ میں کسی رشتہ دار خاتون اپنی قریبی عزیزہ کا پاسپورٹ غائب کر دیا ۔عام طور سے لوگ ایسے قیمتی کاغذات پھاڑ کر ٹائلٹس میں بہا دیے جاتے ہیں یا کوڑے میں پھینک دیتے ہیں جس کی وجہ سے انکا سراغ ملنا مشکل ہوتا ہے یا پھر مل بھی جائیں تو قابل استعمال نہیں رہتے۔بہر حال دونوں متاثرہ افراد کو پاسپورٹ کی ڈوپلیکیٹ کاپیز حاصل کرنا پڑیں۔
پاکستان میں تو حالات اور بھی خراب ہیں وہاں تو لوگ دوسروں کے ویزہ اسٹیمپ والے پاسپورٹس پر ڈالرز اور یورو نکلواتے ہیں اس کے بعد پاسپورٹ دوگنے چوگنے داموں فروخت کر دیتے ہیں۔اس لیے ان قیمتی دستاویزات کی حفاظت میں بہت ذیادہ احتیاط اور کے ساتھ ساتھ چوکنّا رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔خیر بات ہو رہی تھی وطن عزیزمیں چھٹیاں گزارنے کی۔میری ایک دوست بھی اس مرتبہ اپنے بچوں کے ساتھ موسم سرماء کی چھٹیاں گزارنے کی بھرپور تیاریاں کر رہی تھی۔کہ وہاں مزے سے روزے رکھیں گے۔افطار پارٹیاں اٹینڈ کریں گے۔ناروے میں تو ویسے ہی روزہ بیس بائیس گھنٹے کا ہو گیا ہے۔مگر اسکی روانگی کی تاریخ گزر گئی اور وہ نہ گئی حالانکہ بچوں کی چھٹیاں بھی اضافی لے لیں تھیں۔استفار کیا تو کہنے لگی کہ امی نے منع کر دیا تھا۔۔وہ کیوں میں ؟؟؟نے حیرت سے کریدا۔۔۔ کہنے لگی امی کہتی ہیں تم
اس گرمی میں یہاں نہ آؤ۔تمہارے بچے پریشان ہوں گے۔یہاں نہ بجلی ہے نہ پانی ہے نہ چولہا جلانے کے لیے گیس ۔۔۔۔ایسے میں تم یہاں آ کر پریشان ہی ہو گی۔یو پی ایس سے بمشکل پنکھے چند گھنٹے ہی چلتے ہیں۔پانی اور گیس کا مسلہء پھر بھی موجود رہتا ہے۔یہ بتا کر وہ آرزدہ سی خاموش ہو گئیں۔صاف پتہ چلتاتھا کہ اپنی امی کی یہ بات سن کر اس کے ارمانوں پہ اوس پڑ گئی۔وہ ماں جس نے کئی سالوں کے بعد بیٹی کی شکل دیکھنی تھی اس سے ملنا تھا۔کس دل سے اسے منع کیا ہو گا۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ حکمران اور مراعات یافتہ طبقہ تو ائیر کنڈیشنڈ گھروں میں رہیں اعلیٰ پ ر تعیئش گاڑیوں میں گھومیں اور عوام بیچارے زندگی کی بنیادی ضروریات کو بھی ترسیں۔پھر بیرون ملک رہنے والے پاکستانی تو اس قدر ذیادہ سرمایہ غیر ملکی زر مبادلہ کی صورت میں پاکستان بھیجتے ہیں۔پھر بھی ملکی حالت کسی مفلس کی جیب کی طرح پتلی ہی رہتی ہے۔آخر ان حکمرانوں نے کتنا جینا ہے ذیادہ سے ذیادہ کوئی سو برس ہی جی لے گا۔ستر برس کے بعد تو ویسے ہی انسان کی سٹی گم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔اتنی سی زندگی کے لیے ہم ہمیشہ کی زندگی کو بھول جاتے ہیں۔جس دل میں ہوس اور مادی چیزوں کی محبت جتنی گہری ہو گی اسپر اسی قدر گہرے گھاؤ لگیں گے۔جیسے کہ وطن عزیزی کے حکمران کے دل پہ لگے کہ پورا دل ہی کھول کے رکھ دیا ۔کاش اس دل میں خوف خدا ہوتا ۔۔۔عوام کی محبت ہوتی۔۔۔۔ وطن کی خیر خواہی ہوتی ۔۔۔۔تو یہ دل ایسے کبھی نہ ٹوٹتا۔وطن خوشحال ہوتا لوگوں کو جینے کے لیے بنیادی سہولتیں ملتیں تو کبھی کوئی ماں اپنی لخت جگر کو پاس آنے سے ۔۔ملنے سے۔۔۔ وطن کی سیر کرنے سے نہ روکتی۔کس دل سے اس ماں نے منع کیا ہو گااپنی بیٹی کو۔مائیں تو اپنے بچوں سے ملنے کے لیے اپنی آنکھیں فرش راہ کیے دیتی ہیں۔بیرون ملک رہنے والے لوگوں کے دل وطن کی محبت سے سرشار ہوتے ہیں۔دل تو ہے بھی جسم کا حکمران۔۔ مگر ہمارے ملک کے حکمرانوں کے دل صرف وطن کے خزانے کی محبت سے بھرے ہیں۔اسی لیے تویہ اتنی جلدی ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں کہ انہیں جڑوانے کے لیے انہیں وطن سے کوسوں دور دیار غیر میں جانا پڑتا ہے۔یہ دل تو ہمارے پاس اللہ کی امانت ہے۔ایک دن ہمیں اسے خدا کے حضور پیش کرنا ہے تو کیا ہم یہ ٹوٹا پھوٹا دل اللہ کے حضور پیش کریں گے!!!انسان کسی کے لیے کوئی تحفہ بھی خریدتا ہے تو اسے بھی سنبھال سنبھال کے رکھتا ہے تو یہ تو پھر دل ہے۔کاش وطن عزیز کے حکمرانوں کے دل وطن کی محبت سے بھر جائیں اور وطن عزیز خوشی سے بھر جائے تو پھر کوئی ماں اپنے بچوں کو وطن آنے سے نہ روکے۔۔۔۔اے کاش ایسا ہو جائے۔۔