بی بی موساوی ایک مثالی سماجی کارکن
اگرچہ ہماری پاکستانی کمیونٹی خود غرض سیاست دانوں بے انصاف حکمرانوں اور اور بے رحم انسانوں سے بھری پڑی ہے مگر پھر بھی ایسی مثالی شخصیات موجود ہیں جن کا وجود اندھیرے میں چمکتے جگنوئوں کی طرح ہے۔وہ ایسے چراغ راہ ہیں جن کی روشنی میں بھٹکے ہوئوں کو راستہ نظر آتا ہے۔ایسے لوگ ہماری کمیونٹی میں جس سچے جذبے کے ساتھ لوگوں کی خدمت پر مامور ہیں ان پر ہم جتنا فخر کریں کم ہے۔ایسے لوگوں کا وجود ہماری دم توڑتی قدروں کے لیے کسی آب حیات سے کم نہیں۔ذرا سوچیے جب کسی پریشانی کی وجہ سے کسی کو رات بھر نیند نہ آئے ،لب ہنسنا تو دور کی بات مسکرانا بھی بھول جائیں۔دکھ خوف تکلیف تنہائی اور بے چارگی و بے سرو سامانی کی وجہ سے دن کا چین اور راتوں کا سکون زندگی کی گہما گہمی سے دور لے جائے۔اس وقت آپ کو ایک نورانی چہرے والی مہربان اور دلکش خاتون آپ کے سارے مسئلے حل کرنے کا سبب بن جائے تو آپ اسے کیا کہیں گے؟یہی نہ کہ آپ تو کسی فرشتے سے کم نہیں ۔بی بی موساوی بھی ایک ایسی ہی خاتون ہیں جن کا وجود مصیبت زدہ لوگوںکے لیے فرشتہ ثابت ہوتاہے۔ان کی شہرت تو کافی عرصہ سے سن رکھی تھی مگر ان سے گفتگو کا موقع اب ملا ہے یہ گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔تعارفبی بی موساوی اوسلو میں ایک فلاحی ادارے LIN (likestilling, inkludering, network) کی سربراہ ہیں۔اس ادارے میں تیس کے لگ بھگ ملازمین ہیں جبکہ پانچ سو ممبران اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔انہیں سب بی بی کے نام سے پہچانتے ہیں۔بی بی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اورر نرم دل کی مالک ہمدرد خاتون ہیں۔یہ رحم دل خاتون کوئٹہ کی ب ے رحم فضائوں میں پیدا ہوئیں۔انکا تعلق پاکستان کے چٹیلے اورپتھریلے صوبے بلوچستان سے ہے ۔انکی رہائش کوئٹہ کے علاقہ ہزارہ میں تھی۔۔وہ اپنے والدین کے ساتھ چھوٹی عمر میں ہی ڈنمارک شفٹ ہو گئیں تھیں۔اس وقت بی بی چھٹی کلاس کی طالبہ تھیں۔انہوں نے ایجوکیشن اینڈ مینیجمنٹ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔جب ان سے پوچھا گیا کہ انہیں سماجی کاموں کا شوق کیونکر ہوا انہوںنے بتا یا کہ جب وہ پانچ برس کی تھیں انہیں جو جیب خرچ ملا کرتا تھا وہ اس میں سے ہر روز آدھے پیسے یا تو مسجد کے چندے میں دے دیتی تھیں یا پھر کسی غریب کو دے دیا کرتی تھیں۔انہیں ہر روز ایک روپیہ جیب خرچ ملتا اس میں سے پچاس پیسے وہ خیرات کرتی تھیں۔پھر جب ان کی فیملی ڈنمارک شفٹ ہوئی یہاں غریب لوگ نہیں تھے جنکی وہ مدد کرتیں۔جب وہ چودہ برس کی ہوئیں حسب دستور انہوں نے اسکول ٹائم کے بعد ایک دوکان پر پارٹ ٹائم جاب شروع کی۔وہاں انہوں نے ریڈ کراس کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا کہ یہ تنظیم غریبوں اور ضرورتمندوں کی مدد کرتی ہے۔انہوں نے اپنی تنخواہ میں سے ایک سو ڈینش کرائون ریڈ کرا س کو دینے شروع کر دیے۔اس کے بعد جب ریڈ کراس نے خون کے عطیات جمع کرنے شروع کیے بی بی نے بھی خون کا عطیہ دینا شروع کیا۔ایک مرتبہ وہ بے ہوش ہوگئیں اور انہیں گھر والوں سے خوب ڈانٹ بھی پڑی۔اس کے علاوہ انہیں پاکستان سے ایک پھپھو فون پر کچھ غریب فیملیز کے بارے میں بتایا کرتی تھیں جن کی یہ مدد کر دیا کرتی تھیں۔تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد بی بی نے ایک فلاحی تنظیم ایمی میں جاب شروع کی یہاں انہوں نے بارہ برس تک کام کیا۔یہیں ان کی ملاقات معروف پاکستانی سماجی کارکن غزالہ نسیم سے ہوئی جو اس ادارے کے لیے کام کرتی تھیں۔ورنہ اس سے پہلے وہ پاکستانی کمیونٹی اور اردو زبان سے دور جا چکی تھیں۔انہوں نے غزالہ کی تنظیم اوور سیز وومن آر گنائزیشن بھی جوائن کی۔مگر انکی تنظیم میں کام آگے نہیں بڑھ رہا تھا اپنے محدود اختیارات کی وجہ سے وہ پوری طرح سے ضرور تمندخواتین کی مدد بھی نہیں کر پا رہی تھیں۔کیونکہ وہاں ان کے ذمے خواتین کو کورس دینا اور آگے بھیجنا تھا۔جب انہوں نے اس بات کا ذکر اپنی شیف سے کیا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ تمہارا جو کام ہے وہی کرو ۔چنانچہ یہ صورتحال دیکھ کر بی بی نے خو اپنی تنظیم بنانے کا ارادہ کیا ۔انہوں نے اپنی تنظیم کی بنیاد سن دوہزار نو میں رکھی۔مگر مسئلہ یہ تھا کہ وہ خود لیڈر نہیں بننا چاہتی تھیں،مگر ان کے نیٹ ورک میں جو خواتین تھیں کسی کی بھی تعلیم میٹرک سے زیادہ نہیں تھی بی بی نے سب سے پہلے نرسری اسکول جانے والے بچوں کی مائوں سے رابطہ کیا ان کے مسائل حل کیے۔اس طرح انکا نیٹ ورک بنا۔لوگوں کو یہ پتہ چلا کہ ایک عورت بی بی نام کی لوگوں کی مدد کرتی ہے۔اس طرح مزیدخواتین رہنمائی اور مدد کی غرض سے ان کی تنظیم میں آنے لگیں۔کئی عورتیں بہت دکھی ہوتی تھیں ۔پھر یہ تنظیم اس قدر مقبول ہو گئی کہ لوگوں کی لائنیں لگ گئیں۔بی بی نے بتایا کہ ان کی ساس بھی ایک آگنائیزیشن چلاتی تھیں انہوں نے بھی ان کی اس سلسلے میں بہت رہنمائی کی۔فلاحی تنظیم چلانے کی سلسلے میں پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب میں نے یہ کام شروع کیا تو میں خود کو بہت اکیلا محسوس کرتی تھی کہ کوئی ایسی خاتون ہو جو میرے کام کو آگے بڑھائے مگر اخلاقی مدد اور حوصلہ بڑھانے والی تو بہت مل جاتی تھیں عملی کام کے لیے کوئی نہیں ملا۔ اس لیے مجھے مجبوراًخود ہی تنظیم کی سربراہی کرنا پڑی۔اس کے بعد آہستہ آہستہ پڑھے لکھے لوگ بھی آنا شروع ہوئے اس وقت تنظیم میں کام کرنے والے بیشتر لوگ ماسٹرز ہیں۔ہر کارکن اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ ہمیں پچھلے برس سے ذیادہ گرانٹ ملی ہے۔تنظیم کے تحت جو سیمینار کروائے جاتے ہیںاس میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ جنہیں دعوت دی جاتی ہے وہ مہمان اپنے ساتھ کسی اور کو بھی لے آتی ہیں اس طرح لوگوں کو ہمارے کام اور مقاصد کے بارے میں پتہ چلتا ہے اور ہمارے ممبران کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔اس تنظیم کے تحت سیمیناروں اور کورسز کے علاوہ مختلف تہواروں پر تقریبات بھی کروائی جاتی ہیںجب کہ پرائمری اسکولوں میں ہوم ورک کروانے کے لیے مدد بھی دی جاتی ہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ آپکے اس قدر کامیابی سے تنظیم چلانے پر فیملی اور دوستوں کے کیا تاثرات ہیں تو انہوں نے بتایا کہ شوہر تو بہت حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔مگر جب میں رات کے دو دو بجے تک کام کر نے کی وجہ سے تھک جاتی ہوں تو وہ ناراض ہو کر کہتے ہیں کہ اتنا کام کیوں کرتی ہو چھوڑو اتنی محنت تمہارے پاس اپنے لیے بھی وقت نہیں ۔لیکن یہ اتنا آسان نہیں یہی کام تو میری زندگی ہے۔ میری ذات کا حصہ ہے میرا فرض ہے میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی مجھے میرا کام اتنا پیارا ہے جیسے میرے بچے مجھے پیارے ہیں۔میرے فلاحی کام سے میرا ایک رشتہ سا بن گیا ہے۔کامیابی کا انحصارجب ان سے پوچھا گیا کہ اتنی کامیاب تنظیم چلانے کے پیچھے کیا وجہ ہے انہوں نے کہا کہ کہ جب تک ایک لیڈر کے اندر خدمت کا حقیقی جذبہ موجود ہے تو اس کی تنظیم بھی کامیاب ہے۔ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہمیں لوگوں کو ترقی دینی چاہیے اپنے آپ کو نہیں۔ہمارا اصل مقصد دوسروں کی مدد کرنا ہے۔اس کے لیے پلاننگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر پلاننگ صحیح نہ ہو تو منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتا اگر ایک گھر میں ماں نظام چلاتی ہے وہ اپنی ذمہ داری صحیح طریقے سے نہ نبھائے تو گھر کی کیا حالت ہوتی ہے۔پڑھے لکھے ماں باپ اپنے گھر کو چلانے کے لیے اپنی تعلیم استعمال کرتے ہیں تو گھر کا نظام صحیح طریقے سے چلتا ہے۔ایک آرگنائیزیشن اور ملک کا نظام بھی گھر کی طرح ہی ہوتا ہے۔سب انسان مل جل کر کام کرتے ہیں کسی خاندان کی طرح تب جا کر ایک تنظیم کا نطام چلتا ہے۔آپ لوگ ایک دوسرے کی مدد کرنا بند نہ کریں کہ اسی طرح دیے سے دیا جلتا ہے۔کوئی بھی تنظیم تن تنہا نہیں چل سکتی یہ بہت بڑی غلطی ہوتی ہے۔ہمارے محلے میں ایک تنظیم مقامی لوگوں کے لیے بنائی گئی۔اس میں کسی دوسرے علاقے کو شامل نہیں کیا گیا۔وہ تنظیم اتنی کامیاب ہی نہیں ہوئی۔یہ بہت بڑی غلطی ہے اب دنیا گلوبلائز ہو رہی ہے۔اب یہ پرانی دنیا نہیں ہے۔ہمیں اسی نئی دنیا کے مطابق چلنا ہے۔تارکین وطن خواتین کے مسائلنارویجن کمیونٹی میں خواتین کے اہم مسائل کا ذکر کرتے ہوئے بی بی نے بتایا کہ سب سے بڑا مسئلہ پہچان کا ہے کہ عورتیں اپنے آپ کو نارویجن سوسائٹی میں کس طرح سے پیش کریں۔انکا کیا مستقبل ہے۔یہ ایک علاقہ کا مسئلہ نہیں ہے۔اس وقت بہت ذیادہ لوگ ہماری تنظیم میں آ رہے ہیں ۔اب یہ تنظیم لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے چھوٹی محسوس ہو رہی ہے۔اس لیے اب ہم لوگ اسے مزید بڑھانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ہمارا ارادہ ہے کہ اس کی مزید شاخیں اوسلو سنٹر اور غیر ملکیوں کے اکثریتی علاقوں میں بھی بنائی جائیں۔کام کے دوران دلچسپ واقعات کا ذکر کرتے ہوئے بی بی نے بتایا کہ جب خواتین ان کے کام کو سراہتی ہیں تو ان کے جذبوں کو طاقت اور حوصلہ ملتا ہے اور وہ مزید کام کے لیے خود کو تیار پاتی ہیں۔ایک خاتون میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میں نے آپکو رات کو خواب میں دیکھا کہ آپ جنت میں بیٹھی ہیں۔میرے خیال سے میرے لیے اس سے بڑا انعام اور کوئی نہیںَجب میں دیکھتی ہوں کہ ہمارے کام نے ایک عورت کی زندگی بدل دی اسکی زندگی میں آسانیاں پیدا ہو گئیں اسکی سوچ کو ایک مثبت رخ مل گیا یہی ہماری سب سے بڑی کامیابی ہے۔ایک عورت جو کمپیوٹر کے بارے میں کچھ نہیں جانتی مگر ہمارے ہاں کورس کرنے کے بعد جب وہ اپنے بچوں کو ہوم ورک میں مدد کرتی ہے اور میں ایسی عورتوں سے ملتی ہوں جو کچھ عرصہ پہلے کمپیوٹر سے بالکل نابلد تھیں اب وہ کام کر رہی ہیں تو مجھ بہت خوشی ہوتی ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔کمیونٹی کے نام پیغامناروے میںخواتین کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے بی بی نے بتایا کہ یہاں اکثر اکیلی عورتوں کو یہ مسلہ ہوتا ہے کہ کمونٹی والے انہیںفری رہائش نہیںدیتے جو کہ روز بروز بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ہمارے پاس ایسی کئی خواتین آتی ہیں۔کچھ کے مسائل کئی کئی سال چلتے رہتے ہیں لیکن ہماری آرگنائیزیشن نے یہ مسائل بہت کم وقت میںحل کیے۔ایک ایسی ہی خاتون جس کی بچی بیمار تھی ۔وہ دمہ کی مریض تھی اور اسے نئی رہائش چاہیے تھی ۔یہ فیصلہ داکٹر کا تھا لیکن کمونٹی سنٹر والے اس مجبور عورت کو رہائش الا ٹ نہیں کر رہے تھے۔یہ مسئلہ کئی سالوں سے چل رہا تھا لیکن ہم نے اسکا مسلہ صرف ایک ماہ میں حل کر دیا۔ جب ایک عورت کسی دوسرے ملک میں جاتی ہے تو اسے سب سے ذیادہ احساس تنہائی محسوس ہوتا ہے۔خاص طور سے جب عمر ذیادہ ہو جائے اور بچے اپنے اپنے کاموں میں لگ جائیں یہ احساس اور بھی ذیادہ ہو جاتا ہے۔میرا ان کے نام پیغام ہے کہ وہ اپنے آپکو ترقی دینے کے لیے گھروں سے باہر نکلیں۔اگر آپ کام نہیں کرنا چاہتیں نہ کرو لیکن آپکو مقامی زبان آنی چاہیے یہ پتہ ہونا چاہیے کہ ہسپتال مارکیٹ ڈاک خانہ کہاں ہے ۔زندگی میں ذمہ داری کے ساتھ بڑا پن پیدا کریں کسی کی محتاج بن کر نہ رہیں اپنے کام خود کریں۔کئی عورتیں اسطرح کہتی ہیں کہ حساب کتاب یا دیگر معاملات میرے شوہر یا بھائی کو پتہ ہیں کیوں ؟؟کیا اللہ نے آپ کو عقل نہیں دی کیا؟ اپنے معاملات سے خود باخبر رہیں ۔آپ کے اندر آگے بڑھنے کا جذبہ ہونا چاہیے اسی طرح یہ سماج چل رہا ہے۔اپنے حق کے لیے جنگ لڑیں۔یہ جنگ بالکل جائز ہے اپنے آپ پر ظلم و ذیادتی نہ ہونے دیں۔اس لیے کہ حدیث کے مطابق ظلم سہنے والا بھی اتنا ہی گنہگار ہے جتنا کہ ظلم کرنے والا۔