بے جی آپ کو سلام

باعث افتخار
انجینئر افتخار چودھری

حصہ اول
ربیعہ یونیورسٹی گئی ہوئی تھی تھیلے ہاتھ میں لئے واپس ہوئی تو پتہ چلا آج مدر ڈے ہے بھائیوں نے اسے کچھ رقم دی تو اماں کے لئے سوٹ اٹھا لائی اور ساتھ میں ابو کے لئے بھی ایک سوٹ لے آئی ہے لو اپنی عید ہو گئی۔بیٹے اللہ کی نعمت اور بیٹیاں ماں باپ کے دلوں کی رونق ہیں۔میری بے جی کو اس دنیا سے گزرے تقریبا سترہ سال ہو گئے ہیں۔ آج سب اپنی ماؤں کو محبت کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔سال ۹۱۰۲ اس وقت ایک دو راہے پر کھڑا ہے۔ میں ان تلخ دنوں کو یاد کر کے کانپ جاتا ہوں پاکستان میں مارشل لاء تھا سال ۲۰۰۲ جو بولتا اس کی زبان کھینچ لی جاتی تھی سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ عروج پر تھا وہاں جدہ میں سب سے پہلے پاکستانی اندر ہو رہے تھے۔وہاں تو ہے ہی مطلقالعنانیت لیکن یہاں سے گئے سفیر پاکستانی جو ریٹائرڈ جرنیل تھا اس نے ان پاکستانیوں کو دھڑا دھڑا جیلوں میں بھجوایا جو اس کے خلاف چسکتے تھے۔جمہوریت قربانیاں مانگتی ہے تو میرے پاس قربانی کے لئے ماں بھی نہیں ہے میں اپنے ملک کو کیا دوں گا۔لویو موم کے چرچے ہیں۔مجھے ایک دوست کی بات بہت اچھی لگی انہوں نے کہا ہم تو سارا سال مدر ڈے مناتے ہیں یہ تو وہ مناتے ہیں جو ماؤں کو اولڈ ھومز میں چھوڑ آتے ہیں۔میں نے دیکھا کہ کچھ عرصہ سے ہم بہت سے ایسے دن منا ہے ہیں جو ہمارے وقتوں میں نہیں ہوا کرتے تھے۔مادر ڈے فادر ڈے بیٹی کا دن ویلینٹائن ڈے یہ سب ہے کیا۔مجھے دقیانوسی نہ سمجھئے گا یہ ایک فنانشل ایکٹیوٹی ہے۔پیسے کی حرکت ایک جیب میں سے دوسرا۔ اس رات ہمارے بیٹے نے بھی کیک کاٹا بیٹی نے امی کے لئے ایک چار ہزاری سوٹ خریدا۔اس ساری ایکٹیوٹی میں ایک مسکین فادر تھا جس کی جیب کو دوطرفہ نقصان ہوا۔ہم پرانے لوگ ہیں لیکن ہم بھی اسی دور میں جینا چاہتے ہیں۔بیگم نے شکایتانہ انداز میں کہا پچھلے سال جدہ میں تھی بچوں نے صبح سویرے کہا کہ ماں جی بس بہت ہو گیا اب آپ نے بیڈ سے قدم نہیں نیچے کرنا آج سار کچھ ہم کریں گے باہر جائیں گے کھائیں پیئں گے موج ہو گی مستی ہو گی۔میں نے محسوس کیا پاکستان آنے کے بعد مادر فرزندان چودھری افتخار پر بڑے ستم ہو رہے ہیں۔وہاں تا دیر جاگنا اور اسی کی نسبت سے ظہر کے وقت اٹھنا اور یہاں علی الصبح ا ٹھ جانانہ بھی موڈ ہو تو تو اللہ ماری گھنٹیاں۔۔۔۔کوئی حال پوچھنے آ جاتا ہے تو کوئی دودھ دینے مانگنے والے بھی گھنٹی بجا کر دست سوال دراز کرتے ہیں۔
خیر یہ معاملات تو چلتے ہی رہتے ہیں۔آج خیال آیا ساری دنیا کی مائیں موضوع بنی رہیں۔سب نے حصہ بقدر جثہ اپنی اپنی امیوں ماؤں کو خراج تحسین اور عقیدت پیش کیا پھول لائے کیک کاٹے سوچا میں بھی اپنی ماں کے بارے میں قلم اٹھاؤں بے جی کے بارے میں لکھوں گرچہ ان کی حیات پر پاکستان کے قومی اخبارات میں کالم لکھ چکا ہوں۔ ایک ہمارے دوست ہیں جن کے قومی اخبارات میں کالم چھپتے ہیں کمال کے لکھاری ہیں بس موصوف اسیر زلف نواز نہ ہوتے تو ہم انہیں موڈوں پر اٹھائے پھرتے اس کے باوجود وہ ہمار ے ہی ہیں ا ن کی خوبصورت تحریریں قاری چاہے وہ عزیزیہ جدہ میں رہتا ہو یا اسپانیہ کے شہر جبرالٹر میں بھائی انہیں رائے ونڈ لے جاتے ہیں بس با با یہی آپ کی اور میری منزل مراد ہے۔
بے جی کے بارے میں او جانے کالم نہ صرف انہیں پسند آیا بلکہ مرحوم مجید نظامی نے بھی سراہا۔

جاری ہے

اپنا تبصرہ لکھیں