رحمان مذنذب
اہل استطاعت کے لیے خواب گاہ کو مثالی بنانا مشکل نہیں۔ان کے خادم ڈاکٹروں طبیبوں کے زیر ہدائیت صحیح قسم کے بچھونوں سے خوابگاہ کو آراستہ کر لیتے ہیں۔اسکا درجہء حرارت بھی حسب منشاء رکھا جاتا ہے۔لباس بھی آرام دہ ہوتا ہے لیکن نیند پھر بھی نہیں آتی۔
سکون آفریں ادویہ بھی نیند کی قاتل ہیں۔کارخانہ داروں نے جہاں مالی مفاد کی خاطر سگریٹون کی تشہیر کی۔۔۔ انکا جال پھیلایا۔۔۔ اور لوگوں کو انکا عادی بنایا۔اسی طرح سکون بخش ادویہ کا معاملہ ہے ہر سال اسپرین کی اربوں ٹکیاں استعمال میں آتی ہیں۔نیند کو بھگانے اور بے خوابی لانے میں اسکا بھی ہاتھ ہے۔اسپرین کے علاوہ اور بھی ایسی ٹکیاں ہیں جو بڑی ب تکلفی سے کھائی جاتی ہیں۔
ان سکون بخش ادویہ کی عادت پڑ جائے اور آدمی ان کے بغیر نہ رہے تو سمجھیں کہ صحت ہاتھ سے گئی۔یہ قوت ارادی کی قاتل ہیں۔
یہ بات سراسر غلط ہے کہ ان ادویہ سے اعصاب کو سکون ملتا ہے وہ ان ادویہ کے مسلسل استعمال سے کام کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں اور ناکارہ ہو جاتے ہیں۔ان سے درد کی شکائیت بھی دور نہیں ہوتی ۔عارضی سی کیفیت ضرور پیدا ہو جاتی ہے جس سے آدمی دھوکا کھا جاتا ہے۔اعصاب کی حسی صلاحیت عارضی طور پر مفلوج ہونے کی وجہ سے عارضی طور پر افاقہ ہوتا ہے۔لیکن مرض کی وجہ جوں کی توں رہتی ہے۔درد کو اس طرھ دبانہ غیر دانشمندانہ عمل ہے۔درد آدمی کو خبردار کرتا ہے کہ آدمی کے جرض میں کمی آ گئی ہے۔اس خرابی کو دور کر دیا جائے تو درد خود بکود دور ہو جائے گا۔پیٹ درد کا مطلب ہے کہ نظام انہضام میں خرابی ہے اسے دور کیا جائے تو درد خود بخود دور ہو جاتا ہے۔درد کمر کا مطلب ہے کہ مخصوص حیاتین کی کمی آگئی ہے۔اسے دور کرنے کا طریقہ درد دور کرنے کی دوا نہیں بلکہ حیاتاین کا ستعمال ہے۔تاہم جب درد نا قابل برداشت ہو جیسے پیٹ کا درد قولنج کا درد تو ڈاکٹر کے مشورے سے درد دور کرنے کی دوا لینی چاہیے اس کے بعد اصل مرض کا علاج کرنا چاہیے۔درد کش دوائیں مسلسل استعمال کی جائیں تو طبیعت میں افسردگی آ جاتی ہے۔اس کے علاوہ اعضاے شکنی کی عادت پڑ جاتی ہے۔انکی لت پڑ جائے تو نشہ توٹنے پر دوبارہ طلب پیدا ہوتی ہے۔ہاتھ پاؤن توٹنے لگتے ہیں ۔بیزاری اور بے دلی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔مزید خون میں تیزابیت کی وجہ سے نئے نئے عوارض پیدا ہوتے ہیں۔
درد کش ادویہ کے نقصانات
ان کے استعمال کے بڑے نقصانات یہ ہیں کہ ایک تو انکی لت پڑ جاتی ہے دوسرے مقدار بڑہتی رہتی ہے۔قبض کی شکائیت لاحق ہو جاتی ہے۔قبض کو املامراض کہا جاتا ہے۔کیونکہ اس سے پورے جسم کا نظام بدل جاتا ہے۔بے چینی بے آرامی اور انتشار سے فراغت نہیں ملتی۔کام میں جی نہیں لگتا۔درد کش ادویہ زہریلی ہوتی ہیں۔بدن میں زہر جمع ہوتا رہتا ہیاور آدمی کو ٹھکانے لگانے کے کام آتا ہے۔تیزابیت کی ذیادتی کی کئی وجوہ ہیں۔
ضرورت سے ذیادہ جذباتی ہونا
زود رنج ہونا
فوراً بھڑک اٹھنا
ذرا ذرا سی بات پر پریشان ہونا
فوراً بھڑک اٹھناپریشان اورفکر مند رہنا تیزابیت میں اضافہ کا باعث ہے۔
جذبہ ایک اچھی چیز ہے لیکن اسے بے لگام کر دیا جائے کنٹرول نہ کیا جائے تو نتیجہ اچھا نہیں نکلتا۔جو شخص ہر وقت مشتعل رہے،بدمزاجی کا ثبوت دے وہ گویا اپنے اعصابی نظام سے کھیلتا ہے،اور آگ میں دھکیلتا ہے۔اس طرح خلیے اور بافتیں بری طرح سے متاثر ہوتی ہیں اور دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے ۔صبر وسکون سے عاری لوگ اپنی جان کو کطرے میڈالتے ہیں۔ان حالات میں بے خوابی اور دوسری بیماریاں ہجوم کی صورت میں حملہ آور ہوتی ہیں اور جینا دو بھر ہو جاتا ہے۔
بوریت بھی تخریب کار ہے۔اکتائے ہوئے رہنا زندگی کی لطافت کو کم کر دیتا ہے۔اکتاہٹ میں کون میں شکر کی مقدار فوراً گھٹ جاتی ہے۔بے دلی اور تھکن پیدا ہوتی ہے۔ایسے میں لوگ سگریٹ نوشی کرتے ہیں جس کا اثر جگر پر پڑتا ہے۔اور عارضی طور پر خون میں شکر کی رسد بڑھ جاتی ہے لیکن اس سے نیند جاتی رہتی ہے۔
سگریٹ کافی چائے اور دیگر مھرک منشیات نیند کی قاتل ہیں ان سے بچنا چاہیے۔ایسی نیند جو منشیات سے آئے انسانی اعضاء کو ناکارہ کر دیتی ہے۔شراب انسان کو نیند نہیں بے ہوشی دیتی ہے۔اور یہ بے ہوشی بالآخر انسان کو قبل از وقت قبر تک پہنچا دیتی ہے۔