نیند کے بنا زندگی کیسی ہوتی ہے۔
یہ ہے موضوع پروفیسر اور محقق آندرس Anders Bortne ۔تحقیقی ادارے کے مطابق ان سومنیا یا بے خوابی کےض کی وجہ سے لوگوں کی صحت بہت ذیادہ متاثر ہوتی ہے۔کتاب میں مصنف نے بے خوابی کے بارے میں گفتگو کی ہے کتاب کا نام ہے بے خوابی۔ہزاروں جاگتی راتیں اور ایک حل۔مصنف نے کہا کہ سونے کے لیے ہمیں امن و سکون کی ضرورت ہوتی ہے۔مصنف خود کئی برس تک بے خوابی کا شکار رہے ہیں۔انہوں نے سترہ برس تک بے خوابی سے متاثر رہے۔انکا کہنا ہے کہ ہم میں سے پندرہ فیصد افراد اس مرض سے متاثر ہوتے ہیں۔عوامی ہیلتھ سینٹر کے مطابق کوئی بھی شخص کسی بھی عمر میں بے خوابی کے مرض سے متاثر ہو سکتا ہے۔
مصنف کا کہنا ہے کہ کم نیند کی وجہ سے میں بہت سست ہو گیا تھا۔مصنف بورٹنے نے بے خوابی کے علاج کے لیے نیند کی گولیاں،یوگا،آکو پنکچر، جڑی بوٹیاں،مراقبہ اور سائیکالوجسٹ کے ساتھ ساتھ تمام ممکنہ طریقے آزما لیے۔پھر مصنف نے نیند میں مد کے لیے ایک اسکول جو کہ اوسلو میں لو ونگس برگ ہسپتال کے قریب واقع ہے Lovisenberg Diakonale Sykehus کو جوائن کیا وہاں مصنف نے سونے کے لیے مختلف سرگرمیوں کے بارے میں سیکھا۔
مصنف اس سے پہلے بھی دو کتابیں لکھ چکے ہیں۔انکا کہنا ہے کہ بے خوابی کے بارے میں لکھی جانے والی کتاب کو بہت پسند کیا گیا ہے اور لوگوں نے ان سے نیند لینے کے طریقوں کے بارے میں رابطہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں تفریحات اور مشاغل ہماری نیند اڑا دیتے ہیں۔ناروے میں نیند کے معمولات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا جبکہ اسپین میں دوپہر کو نیند کا وقفہ دیا جاتا ہے لیکن ناروے میں دوپہر کی نیند کو برا سمجھا جاتا ہے۔آپکو ملازمت پر لازمی جانا پڑتا ہے بے شک آپ کی نیند پوری نہ ہوئی ہو۔اگر کسی کو انسومنیا کے مرض کی تشخیص ہو جائے اسے اسکی کوئی رعائیت نہیں ملتی بلکہ کئی ڈاکٹر تو اس مرض کی تشخیص ہی نہیں کرتے اس کے بجائے مریض کو ڈپریشن یا تھکن کا مرض تشخیص کر دیتے ہیں۔یہ درست نہیں کہ سومنیا کے مریض کو کوئی اور مرض تشخیص کیا جائے۔سیورٹ نے کہا کہ ہم نے اس مسلے کو سنجیدگی سے لیا ہے۔