تحریر شازیہ عندلیب
نازک خرام،دراز قد،دراز گیسو اور کھلتی رنگت کی مالک تائی جی فاطمہ ہمیشہ سے میری پسندیدہ شخصیت رہی ہیں۔انکے نازک لبوں پرہمہ وقت ایک دلنشیں مسکراہٹ کھیلتی رہتی۔تائی جی کی نو اولادیں تھیں جبکہ دسواں بیٹا بقول بزرگوں کے نظرلگنے سے فوت ہو گیا۔ مگر میں ہمیشہ حیران ہوتی تھی کہ تائی جی اتنی خوبصورت تھیں مگر انہیں کبھی نظر نہیں لگتی تھی۔وہ صرف ظاہری حسن کی ہی مالک نہیں تھیں بلکہ ان کی خوش اخلاقی اور تدبر کی مثال خاندان میں ملنا مشکل تھی۔ہمیشہ بڑی شائستگی اورتحمل سے بات کرتی تھیں۔میں نے انہیں کبھی غصہ میں بھی بلند آواز سے بولتے نہیں دیکھ اتھا۔اسّی سال کی عمر میں بھی انکے دراز بال کالے اور چہرہ جھریوں سے پاک تھا۔انکی ستواں ناک میں ہمیشہ ایک لونگ لشکارے مارتی اور لبوں پہ ایک دلفریب مسکان سی کھیلتی رہتی تھی۔انکے پاس صحت اورطویل جوانی کے بہت سے نسخے تھے۔وہ اکثراپنے لمبے بالوں کا راز آملے اور لسی کا استعمال بتایا کرتی تھیں۔وہ بتاتی تھیں کہ وہ بچپن سے ہی صبح خالی پیٹ لسی کے ساتھ آملے کا مربّہ کھاتی تھیں۔ آملہ پراڈکٹ ان کی خوراک کا اہم حصہ تھیں۔ادھر تایا جی انواع اقسام کے چورن بنانے میں مہارت رکھتے تھے۔تائی جس قدر حلیم المزاج تھیں تایا جی کی طبیعت میں وہ حلاوت تو نہ تھی لیکن اس کے باوجود یہ ایک خوبصورت محبت بھری جوڑی تھی۔تایا جی تو تائی جی کے فین تھے۔انہوں نے باقی تایوں کے برخلاف کبھی تائی جی کی برائی نہیں کی تھی نہ ہی کبھی ان کا کسی قسم کا اختلاف سننے میں آیا۔حالانکہ اللہ نے آدھی درجن کے لگ بھگ تائیوں سے نوازا تھا۔مگر باقی تائے اکثر اپنی بیگمات کے بارے میں تنقیدی تبصرے کرتے رہتے تھے۔اصل میں میرے چچا کوئی نہیں تھے۔اس لیے کہ میرے ابو تیرہ بہن بھائیوں میں سب سے آخری نمبر پر تھے۔امی بتاتی ہیں کہ میرے ابو کے بعد بھی دادی جی کے جڑواں بیٹے پیدا ہوئے تھے جو کہ جانبر نہ ہو سکے۔مگردادی جی کو انکا غم ایسا لگا کہ وہ جلد ہی داغ مفارقت دے گئیں۔
البتہ تائی جی فاطمہ زندگی کی نوے بہاریں دیکھ کردنیا سے رخصت ہوئیں۔تایا جی تائی جی سے کچھ برس پہلے ہی وفات پا گئے تھے۔وہ اس قدر نیک تھے کہ انکی وفات کے بعد بھی ان کے کمرے سے طویل عرصے تک تلاوت کی آواز آتی رہتی تھی۔جب تایا جی کے سب سے بڑے پوتے کی شادی کا وقت قریب آیاتو تایا جی کی طبیعت سخت خراب ہو گئی۔انہوں نے اللہ سے دعا کی ان کی سب اولادیںبھی ان کی زندگی کی دعا کرنے لگیں ۔تایا جی پھر سے صحتمند ہو گئے۔انہوں نے اپنے پوتے کی شادی اٹینڈ کی اور بتایا کہ ہم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ ہمیں اپنے پوتے کی شادی تک کی مہلت دے۔پھر اللہ نے ان کی سن لی اور وہ پوتے کی شادی کے ایک ماہ بعد فوت ہوئے۔یہ ہیں اللہ کے پیاروں کی پیاری باتیں۔
میں جب بھی تائی جی سے ملنے جاتی وہ مجھے لکھنئو کی خوبصورت ناریوں گلیوں اور ماحول کی باتیں اور میرے ابو کی شرارتیں بتایا کرتی تھیں۔وہ کہتی تھیں کہ اس زمانے میں آج کی طرح بیوٹی پارلر نہیں ہوتے تھے اور جب لڑکیاں ہنستی تھیں تو ان کی رنگت گلابی ہو جاتی تھی۔جب انہیں غصہ آتا تو لال ہو جاتی تھیں۔میں سوچتی کتنی آسانی تھی ان لڑکیوں کے لیے جب کسی دن کی پارٹی میں جانا ہوتا تو ہنس کر گلابی ہو جائیں اورجب رات کا فنکشن ہو تو غصے سے لال ہو جائو۔مگر میں جب ناروے آئی تو دیکھا کہ یہاں جب مائینس بیس درجہ حرارت پر بارف باری میں باہرجائیں تو تب بھی لڑکیاں تو کیا قدرت ہر شخص کے چہرے پر میک اپ کر دیتی ہے رنگت لال اور گلابی کر کے ۔جب کہ موسم گرماء میں جو لوگ ساحلوں پر اپنی رنگت برائون کرنے کی غرض سے دھوپ سینکتے ہیں وہ ایسے سرخ ہو جاتے ہیں جیسے گوشت روسٹ ہوتا ہے۔تب مجھے تائی جی کی وہ معصوم باتیں یاد آ جاتی تھیں۔
تائی جی کے حلم اور برد باری کی مثال ان کے بعد خاندان میں دیکھنے کو نہ ملی۔البتہ ان کے اوصاف ان کے بڑے بیٹے میں پائے جاتے ہیںجن کی شخصیت مثالی ہے۔اور انہیں ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے ۔وہ فیملی میں اور اپنے حلقے میں بہت مقبول ہیں۔یہ تائی جی کی تربیت کا ہی نتیجہ ہے کہ ان کے سارے بچے ہم تینوں بہن بھائی کے کے ساتھ بہت محبت اور شفقت سے پیش آتے ہیں۔گو کہ تائی جی اب اس دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کی خوبصورت یادیں ہمیشہ دل و دماغ کو طراوٹ بخشتی رہیں گی۔اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے آمین۔
بہت خوبصورت تحریر۔ یہ حقیقت ہے اس سے قبل خاندانوں میں گلے شکوؤں کے باوجود باہیمی اتفاق و محبت مثالی ہو تا،مغربی تہذیب کے زیرِ اثر آج ہم اپنی نسلوں کو یہ خاندانی رویات منتقل نہیں کر پا رہے۔
ساجدہ صاحبہ آرٹیکل پڑہنے اورسراہنے کا بہت شکریہ۔
آپ کی بات ایک حد تک درست ہے کہ آجکل ایسے پر خلوص لوگ ناپید ہوتے جا رہے ہیں ۔لیکن پھر بھی کچھ لوگ ابھی باقی ہیں جہاں میںالبتہ بہت کم ۔یہ ایک معاشرتی بگاڑہے ۔جس کی کچھ ذمہ داری ہم پربھی عائد ہوتی ہے۔اگرہم لوگ ارادہ کرلیں اور اپنے بچوںکی تربیت خاص خطوط پرکریں باہمی اتفاق و سلوک کو انکی تربیت کا حصہ بنائیں بچوں کے سامنے بڑے اپنے اختلافات نہ ظاہر کریں تو باہمی محبتوں کے چشمے پھر سے جاری ہو سکتے ہیں۔
شکریہ
بہت ہی خوب
آج کل توآنکھیں ترس گئی ہیں ایسے افراد کو دیکھنے کے لیئے ۔ ہر جانب بناوٹی چہرے ، تلخ و شوخ زبانیں اور دورنگا کردار نظر آتا ہے ۔ معاشرے میں موجود ایسی ہستیاں ایک ایک کر کے کم ہوتی جا رہی ہیں ۔جہاں ایسے لوگ مو جود بھی ہوتے ہیں تو وہ معاشرے سے الگ مھسوس ہوتے ہیں وہ کسی اور دنیا کی مخلوق لگتے ہیں۔ مادیت کے دور میں ہم سب مادہ پرست ہوتے جارہے ہیں۔ ۔ اللہ تعالی ہمیں روحانیت کی طرف مائل کرے اور اعلی اخلاقی اقدار کا آئینہ دار بنائے آمین۔
نہیں عتیق صاحب آپ تو بہت ہی مایوس نظر آ رہے ہیں۔بس ڈھونڈنے والی آنکھ ہونی چاہیے یہ لوگ آپ کو اپنے آس پاس ہی کہیں نہ کہیں مل جائیں گے۔اتنی مایوسی اچھی نہیں ہوتی۔آپکی تو تحریریں ہی بہت حوصلہ والی ہوتی ہیں آپ ایسی باتیں نہ کیا کریں ۔۔۔کوئی بنے نہ بنیں آپ اور ہم ایسے بن کے دکھا دیتے ہیں تو لوگ بھی ایسے بن جائیں گے۔۔۔
ویسے بھی خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے۔کیا خیال ہے ؟؟
سبحان اللہ شاذیہ عندلیب صاحبہ کیا حسین و یادگار خاکہ لکھا ہے۔ اب تو آپ کی تائی صاحبہ مجھے بھی ہمیشہ یاد رہیں گی۔بہت بہت داد قبول فرمائیے اور مزید تخلیقات سے نوازتے رہئیے۔
فریاد آزر
واه واه سبحان اللہ شازیہ کیا خوبصورت نقشہ کھینچا ہے آپنے اپنی تائی جی کا اور باقی خاندان کا۔۔
بہت لطف آیا ۔۔
لکھتی رہیں ۔۔ دعائیں
عابدہ