تبدیلیٔ تاریخ کی شرمناک کوشش

انتخاب ساجدہ پروین
بشکریہ معارف فیچر
اسلامی ریسرچ اکیڈمی

گزشتہ سال جنوری کے پہلے ہفتے میں سینٹرل دہلی کے ایک پُرشکوہ مکان میں بھارتی حکومت کی ایما پر کچھ اسکالر جمع ہوئے، ان کا مقصد تھا کہ بھارت کی تاریخ کو ازسرنو ترتیب دیا جائے۔ رائٹرز کو اس کمیٹی کے بعض ارکان کے ساتھ بات چیت اور اس اجلاس کی کارروائی کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ اس اجلاس کا مقصد آثارِ قدیمہ، ڈی، این اے اور دیگر حوالوں سے یہ ثابت کرنا ہے کہ ہزاروں برس قبل اس خطۂ زمین پرآباد ہونے والے لوگ دراصل ہندو ہی تھے۔اور اس وقت بھارت میں جو ہندوموجود ہیں،وہ سب انہی کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ کہ ہندوؤں کی مقدس کتاب محض فرضی قصے کہانیوں پرنہیں بلکہ تاریخی حقائق پر مبنی ہے۔

۱۴؍ اسکالروں پر مشتمل کمیٹی کے ارکان اور مودی حکومت کے بعض وزرا سے گفتگو کے بعدیہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ ایک ارب ۳۰ کروڑآبادی کے اس کثیرالمذاہب ملک کو قطع نظراس بات سے کہ سیاسی قوت کس کے پاس رہی، ہندو قوم پرست ملک ثابت کریں۔ وہ یہ حقیقت تسلیم کرنے سے انکاری ہیں کہ بھارت ہمیشہ سے مختلف مذاہب اور نظریات کے پیروکاروں کا ملک رہا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ بھارت کے بنیادی تشخص میں ان کے نظریات اور خواہشات کے مطابق تبدیلی ضروری ہے۔ وہ اس بات پرمصر ہیں کہ بھارت صرف ہندوؤں کا ملک ہے اور ہندوؤں ہی کے لیے ہے۔ ہندو قوم پرست دراصل اس عمل کے ذریعے ملک کے اس کثیرالثقافتی بیانیے کو چیلنج کر رہے ہیں جس کے تحت یہ ملک برطانوی راج بلکہ اس سے بھی پہلے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا ملک رہا ہے اور وہ اس حقیقت کو بھی تسلیم نہیں کرنا چاہتے کہ بھارت بڑے پیمانے پر مہاجرین، فاتحین اور مذہبی گروہوں کا مرکزتھا۔

اس وقت بھی بھارت میں ۲۴ کروڑ سے زائد غیر ہندو قومیں آباد ہیں، جو اس کی آبادی کا ۲۰ فیصد ہیں۔ اس کمیٹی کے سربراہ ’’کے این ڈکشٹ‘‘ نے رائٹرز کو بتایا کہ ہمیں قدیم بھارت کی تاریخ کے بعض حصوں کو تبدیل کرنے کی ہدایت ملی ہے۔ مرکزی وزیر ثقافت مہیش شرما نے تصدیق کی کہ کمیٹی جو کام کر رہی ہے، وہ ہمارے ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے، یعنی بھارت کی تاریخ پر نظرثانی کرنا۔

۲۰۱۴ء میں نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد بھارتی مسلمان مسلسل مذہبی بنیاد پرامتیاز، عدم مساوات اور تشدد کا شکار ہورہے ہیں۔ جماعت مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی کاکہنا ہے کہ بھارت کی پوری تاریخ میں مسلمانوں کو اس قدر حقیر نہیں سمجھاگیا، جتنا کہ اس وقت سمجھا رہا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ مودی حکومت چاہتی ہے کہ بھارتی مسلمان اس ملک میں دوسرے درجے کے شہری بن کر رہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے بھی درخواست کی گئی تھی کہ وہ اس پر اپنی رائے کا اظہار کریں لیکن انھوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔

بھارت کی انتہا پسند جماعت آر ایس ایس کا خیال ہے کہ انہی تاریخی اور نظریاتی معاملات کی بنیاد پر ۲۰۱۴ء میں بھارتی جنتا پارٹی نے تاریخی کامیابی حاصل کی تھی۔ آر ایس ایس پوری شدت سے زور دے رہی ہے کہ ۱۷ کروڑ ۲۰ لاکھ بھارتی مسلمانوں سمیت ملک میں بسنے والے تمام غیر ہندوؤں کو بہرصورت تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کے آباء اجداد ہندو تھے۔

واضح رہے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بچپن ہی سے آر ایس ایس کے رکن ہیں۔ وزیر ثقافت مہیش شرما بھی واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ طویل عرصے سے آر ایس ایس کے وفادار کارکن ہیں۔

آرایس ایس کے ترجمان منموہن واڈیا نے رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں ثقافتی اور نظریاتی تبدیلی کے لیے ہمیں اپنی تاریخ پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ آر ایس ایس کے شعبہ تحقیق و تاریخ کے سربراہ پانڈے نے کہاکہ اب وقت آگیا ہے کہ ہندوستان کی عظمتِ رفتہ کو بحال کیا جائے اور اس بات کو تسلیم کروایا جائے کہ ہندو تہذیب ایک حقیقت ہے نہ کہ محض فرضی کہانیوں اور افسانوں پر مشتمل روایات۔

وزیر ثقافت شرما نے رائٹرزسے گفتگو کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ کمیٹی اپنی حتمی سفارشات کو اسکولوں کے نصاب اور علمی تحقیق میں شامل کرنے کے لیے راہ عمل تجویز کرے گی اور اسے نصاب کا حصہ بنا لیا جائے گا۔ ہندو قوم پرست اور مودی حکومت کے بعض اہم ارکان اس بات پر مصر ہیں کہ موجودہ ہندو ان ہی لوگوں کی نسل ہیں جو ابتدا سے اس ملک میں رہتے تھے۔

مشہور بھارتی تاریخ دان وامیلا تھاپر کا خیال ہے کہ ’’یہ سوال بہت اہم ہے کہ اس خطے پر سب سے پہلے کون آباد ہوا؟ کیونکہ ریاست میں بحیثیت شہری ہندو برتری برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس بات کو ثابت کیا جائے کہ ہندو ہی اس ریاست کے حقیقی وارث ہیں۔ تاہم بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو سیکولر نظام اور تحمل و برداشت کے حامل نظریات کے داعی تھے، ان کا کہنا تھا کہ یہ خیال گمراہ کن ہے کہ ہندو ثقافت ہی دراصل بھارتی ثقافت ہے۔ یہاں یہ حوالہ ضروری ہے کہ بھارتی آئین میں واضح طور پر تحریر ہے، ’’مذہب کی بنیاد پر کسی شہری سے کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا، نیز اقلیتوں کو مکمل تحفظ اور آزادی حاصل ہوگی‘‘۔ اس آئین پر ۱۹۵۰ء میں نہرو نے بھی دستخط کیے تھے۔

کانگریس پارٹی کے معروف رہنما ششی تھرور نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ہندو انتہا پسند دراصل ملک کی تسلیم شدہ تاریخ کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کی یہ کوشش نہ صرف حقائق کے منافی ہے بلکہ بھارت کے بنیادی تشخص کو بدلنے کے مترادف ہے‘‘۔ ششی تھرور کا کہنا ہے، گزشتہ سات دہائیوں سے ہندوستانی مذہبی ہم آہنگی سے رہتے چلے آرہے ہیں۔ ہندوستان میں محض ہندوؤں کی تہذیبی اور ثقافتی برتری کو ثابت کرنے کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔

وزیر ثقافت شرما نے رائٹرز کو بتایاکہ کمیٹی کی حتمی سفارشات کو پارلیمان میں پیش کیا جائے گا اور وزارتِ افرادی وسائل کو قائل کیا جائے گا کہ ان سفارشات کو اسکولوں کے نصاب کا حصہ بنا لیا جائے۔ یاد رہے یہ وزارت بھی آر ایس ایس کے وزیر پرکاش جاوادیکر کے ما تحت ہے۔ پرکاش نے فخریہ لہجے میں کہا کہ ہم ان سفارشات کو انتہائی سنجیدگی سے لیں گے، ہماری ملکی تاریخ میں پہلی حکومت ہے جو پوری جرأت کے ساتھ نصاب پر نظرثانی کا عمل شروع کر چکی ہے۔

(ترجمہ: محمودالحق صدیقی)

اپنا تبصرہ لکھیں