کسی مضمون، انشائیہ، شعر یا کہانی کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کر نا ایک فن ہے۔ اس سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نثری اور شعری ادب جو ایک زبان ، ایک ماحول یا ایک جغرافیائی علاقہ میں پیدا ہوتا ہے اُس سے باہر کی دنیا والے بھی واقف ہو جاتے ہیں اور اُس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں، یا کم از کم اُٹھا سکتے ہیں۔
لیکن یہ فن بھی اپنے ساتھ مشکلات رکھتا ہے اور جب تک کہ مُتَرجِم (جیم پر تشدید نہیں ہے، معنیٰ بدل جائینگے) دونوں زبانوں کے محاورے اور علمِ صَرف و نحو پر قدرت نہ رکھتا ہو، ترجمہ اپنی افادیت کھو دیتا ہے۔
ترجمہ کے متعلق انگریزی زبان میں ایک کہا وت ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔
Translation is like a lover. If she is beautiful, she is not faithful; If she is faithful, she is not beautiful.
کسی بھی دو زبانوں کے جوڑے کو لے لیجئے اور آپس میں کئے ہوئے تراجم کو دیکھ لیجئے، یہی صورتِ حال نظر آ ئیگی۔ ہم مثالوں سے یہ بات بیان کرنے کے لئے کچھ نمونے پیش کرتے ہیں۔ آپ خود ہی دیکھ لینگے کہ ترجمہ کے بعد بات کہاں سے کہاں پہونچتی ہے۔
آئیے بات قرآن کے تراجم سے شروع کرتے ہیں۔
قرآن کریم نے بہت سے گذشتہ انبیا کا تذکرہ کیا ہے۔ سب سے زیادہ شرح و بسط کے ساتھ حضرت موسیٰ کا واقعہ بیا ن کیا گیا ہے۔ جب حضرت موسیٰ نے فرعون سے بغاوت کی اور آخر کار بنی اسرائیل کے قبائل کو آزاد کر واکر چلے تو بیچ میں پانی آگیا۔ بنی اسرائیل پریشان ہوئے کہ پانی کو کیسے پار کرینگے۔ ایک معجزہ سے پانی شق ہو گیا اور حضرت موسیٰ اور انکے ساتھی پار اُتر گئے، وغیرہ وغیرہ۔ اب یہ بھی سمجھ لیجئے کہ یہ اور ایسی ہی دوسری قرآنی روایات ہندوستان براستۂ ایران پہونچی ہیں۔ ایرانیوں نے جب یہ روایت فارسی میں بیان کی تو کہا موسیٰ اور ان کی قوم دریا پار اتر گئے۔ ہندوستان میں جب یہ روایت پڑھی گئی تو یہاں کے لوگوں نے کہا، مصر میں سب سے مشہور دریا تو دریاے نیل ہے۔ ہو نہ ہو حضرت موسیٰ اور انکی قوم دریاے نیل کو پار کرکے گئے ہونگے۔ چنانچہ اکثر اردو کی تفاسیر میں آپکو یہ کچھ لکھا ہوا ملے گا۔ البتہ یہ اردو کے مُفَسّرین (یہاں سین پر تشدید ہے) اپنی سادگی میں ایک بات بالکل بھول گئے ۔ یہ تو انہوں نے پڑھا تھا کہ فرعون کا محل دریاے نیل کے کنارے تھا، اور حضرت موسیٰ کی والدہ نے اپنے نو زائیدہ بیٹے کو اللہ کے حکم سے ایک ٹوکری میں بٹھا کر یا لٹا کر دریاے نیل ہی میں بہا دیا تھا اور ایسے ہی وہ ٹوکری زوجۂ فرعون کے ہاتھ آگئی تھی اوریوں حضرت موسیٰ کی پرورش فرعون کے محل میں ہوئی تھی۔ لیکن انہوں نے کبھی یہ زحمت نہ کی کہ ذرا مصر کے نقشہ کو دیکھ لیتے کہ آخر دریاے نیل کو پار کرکے حضرت موسیٰ اپنی قوم کو لیکر کہاں جا رہے تھے۔ دریاے نیل تو مصر کے بیچوں بیچ بہتا ہے۔ حضرت موسیٰ کو تو اپنی قوم کو مصرسے نکال کر فلسطین لے جانا تھا۔ آخر وہ لوگ دریاے نیل کو پار کرکے کہاں سے کہا جا رہے تھے؟ ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ اپنی قوم کو لیکر مصر سے سینائی کی طرف جارہے تھے۔ راستہ میں بُحیرِ احمر ہے۔ اُسی کا پانی حضرت موسیٰ کے لئے شق ہوا تھا۔
تو یہ بحیرِ احمر، یعنی RED SEA دریا ے نیل میں کیسے بدل گیا؟ قصہ یہ ہے کہ فارسی میں لفظِ دریا سمندر کے لئے آتا ہے۔ فارسی والوں نے اپنے محاورہ میں صحیح ترجمہ کیا۔ اب مشکل یہ ہوئی کہ اردو میں دریا دریا ہی کو کہتے ہیں۔ اور جیسا کہ ہم پہلے یہ بات بیان کر چُکے۔ ہندوستان والوں کے لئے مصر کا سب سے مشہور دریا نیل ہے۔ انہوں نے اپنے حساب سے بڑی ذہانت کے ساتھ پیش قدمی کی اور دریا کو دریاے نیل کر دیا۔ آج بھی ہمکو یہ بات تفصیل سےبیان کرکے ہندوستان؍ پاکستاں کے لوگوں کو یقین دلانے میں کافی دقت ہوتی ہے کہ حضرت موسی ٰ اور انکی قوم کے لئے بحیر احمر نام کا سمندر شق ہوا تھا۔
در اصل سمندر ہندی کا لفظ ہے۔ اصل میں یہ سَمُدر(دال ساکِن ہے) تھا، اردو کا جامہ پہن کر سمندر ہو گیا۔
آئیندہ پوسٹ میں ہم کچھ اوردوسری زبانوں کے تراجم کی بات کرینگے۔
شکریہ۔ مخلص۔ سید محسن نقوی