دو کمروں میں ساری دنیا آباد تھی۔ ہم پانچ بھائی بہن بڑے عیش سے رہ لیتے۔ چھوٹے سے دالان میں ایک طرف ابّا کا تخت تودوسری طرف امی کی مستقل جانماز ہوا کرتی۔ ایک چھوٹا سا کمرہ اور تھا جو مہمانوں کے کام آتا۔ کیونکہ اکثر خالہ، چاچی پھوپھو وغیرہ بچوں کے ساتھ آجاتیں اور دو چار روز سے پہلے نہ جاتیں لیکن مہمانوں سے گھر میں کتنی برکت اور رونق ہوا کرتی۔ کمروں میں ہی دستر بچھتے اور بستر بھی۔ صبح کو سارے بونتے تکیئے سمیت گول کرکے مچان پر چڑھادیئے جاتے۔
اللہ نے پھردن پھیر دیئے اور ترقی ہوئی۔ ایک کشادہ ہال اور پانچ چھ کمرے بن گئے۔ لیکن ایک کمرے پر صوفوں، قالین اور فانوس نے قبضہ کرلیا تو دوسرے پر ڈائننگ ٹیبل نے۔ مچانیں نہ رہیں اسلئے ایک کمرے کو اسٹور روم بنا دیاگیا۔ ہر ایک نے ایک ایک کمرے کی ریاست پر مغل شہزادوں کی طرح خود مختاری کا اعلان کردیا۔ ٹی وی کیلئے ہال سے زیادہ مناسب جگہ کوئی نہ تھی اسلئے امی ابّا کو ایک کمرے میں دھکیلنا ضروری تھا۔ مکان چھوٹا پڑنے لگا مہمانوں کیلئے کوئی اور کمرہ فارغ کرنا مشکل تھا۔ مہمان بھی سمجھ گئے اور انہوں نے آنا چھوڑ دیا۔
علیم خان فلکی ۔ جدہ