تزکیہ و تربیت ___چند اہم پہلو

ڈاکٹر خالد محمود ثاقب
انسانوں کی تربیت کرنا، ان کی کارکردگی کو بڑھانا، اُنھیں اُوپر اُٹھانا، اُن کی ذات کو زیادہ سے زیادہ مفید بنانا، اُن کی خامیوں کوکم سے کم کرنا اور اُنھیں اس قابل بنانا کہ وہ اپنی کمزوریوں پر قابو پا کر اپنے آپ کو کامیاب بنائیں ___ ہر دور میں معلمین، مصلحین اور مفکرین کی توجہ اور کام کا اہم نکتہ رہا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان کے خالق نے انسان کو سیدھے راستے پر رکھنے کے لیے انبیا کا جو سلسلہ قائم کیا اُس کی بڑی وجہ بھی انسان کی ذات کی اصلاح، اس کا تزکیہ اور زندگی گزارنے کی بنیادی مہارتوں سے اسے آراستہ کرنا تھا۔ ہر پیغمبر کا یہ بنیادی فرض رہا ہے کہ وہ انسانوں کی اصلاح کرے،اُن کی کمزوریوں کو دُور کرنے کی سعی کرے اور انھیں معاشرے کا مفید شہری بناتے ہوئے اپنے رب کا تابع فرمان بنائے تاکہ انسان دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہو۔ اسے دنیا اور آخرت دونوں میں عزت ،سرفرازی اور سکون حاصل ہو اور وہ انجام بد سے بچ سکے۔
تزکیہ اور تربیت جہاں ایک داعی کا اہم ترین فریضہ ہے وہیں ایک بڑا کٹھن، صبر آزما اور حوصلے اور جرأت کا کام بھی ہے ۔اس ضمن میں چند اہم اُمور ایسے ہیں جو اگر داعی کی نگاہ سے اوجھل ہوجائیں تو نہ صرف مایوسی ڈیرہ ڈالنے لگتی ہے بلکہ بعض اوقات داعی کی تمام تر کوششیں اُلٹ نتائج کا باعث بنتی ہیں۔ اس مضمون میں چند ایسی ہی باتوں کی طرف اشارہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس یقین کے ساتھ کہ اگر ان اُمور پر نظر رکھتے ہوئے تزکیہ اوراصلاح کی کوششیں کی جائیں گی تو وہ نہ صرف زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوں گی، بلکہ اس ضمن میں پیش آنے والے مسائل کو بھی کم کرنے کا باعث بنیں گی۔

انسان خوبیوں اور کمزوریوں کا مجموعہ
قرآن مجید میں جہاں انسان کی عظمت کا اقرار و اظہار ہے، وہیں پر اس کی بعض کمزوریوں کی بھی نشان دہی کی گئی ہے تا کہ دونوں پہلو سامنے رہیں۔ ایک طرف اس امرکا اظہار ہے کہ: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ (التین ۹۵:۴ ) ’’ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے‘‘۔دوسری طرف قرآن اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ وَخُلِقَ اْلِانْسَانُ ضَعِیْفاً(النساء۴:۲۸ ) ’’اور انسان کو طبعاً کمزور پید ا کیا گیاہے‘‘۔ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْماً جَہُوْلًا (الاحزاب۳۳:۷۲ ) ’’بے شک انسان ظالم بھی ہے اور جاہل بھی‘‘۔ اَوَلَمْ یَرَ اْلِانْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰہُ مِنْ نُطْفَۃٍ فَاِذَا ھُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ(یٰسین ۳۶:۷۷) ’’کیاانسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اس کو نطفے سے پیدا کیا پس وہ کھلا جھگڑالو بن گیا‘‘۔
ایک طرف قرآن انسان کی عظمت کا اقرار اس طرح کرتا ہے کہ اِنِّی جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ط (البقرہ ۲:۳۰)’’بے شک میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں ‘‘، اور دوسری طرف انسان کی اس کمزوری کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ: وَلَقَدْ عَھِدْنَآ اِلآی اٰدَ مَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا (طٰہٰ ۲۰:۱۱۵) ’’اور تحقیق ہم نے اس سے پہلے آدم ؑ سے عہد لیا لیکن وہ بھول گیا اورہم نے اس میں عزم نہیں پایا‘‘ ۔کہیں اس بات کا تذکرہ ہے کہ: اَلَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوّٰلکَ فَعَدَلَکَ (الانفطار۸۲:۷)’’جس نے تمھیں پیدا کیا نک سک سے درست کیا اور ٹھیک ٹھیک متناسب بنایا‘‘، اور کہیں یہ کہا گیا ہے کہ: وَکَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا (بنی اسرائیل ۱۷:۱۱) ’’اوربے شک انسان بڑا جلد باز ہے‘‘۔ وکَانَ الْاِنْسَانُ کَفُوْرًا (بنی اسرائیل ۱۷:۶۷) ’’اورانسان واقعی بڑا ناشکرا ہے‘‘۔ وکَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا o(بنی اسرائیل۱۷:۱۰۰) ’’واقعی انسان بڑا تنگ دل واقع ہو ا ہے‘‘۔
کسی بھی داعی اور مصلح کے لیے اور بالخصوص جو افراد قیادت کے منصب پر فائز ہوتے ہیں اُن کے لیے اس بات کا سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ہر انسان خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا، تعلیم یافتہ ہو یا اَن پڑھ ،قائد ہو یا کارکن، حتیٰ کہ کسی نیکی یا شر کے کام کا علَم بر دار ہی کیوں نہ ہو، اُس میں خوبیاں بھی ہوں گی اور کمزوریاں بھی۔خوبیوں اور کمزوریوں کے تناسب میں فرق ہو سکتا ہے لیکن یہ بات بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ کمزوریوں اور خامیوں سے پاک صر ف ایک ذات ہے اور وہ خود خالق کائنات ہے۔ سبحان اُسی کی صفت ہے اور وہ اپنی اس صفت میں یکتا ہے۔ اپنی ذات میں ہرخامی، کمزوری اور عیب سے پاک صرف اللہ بزرگ و برتر کی ذات ہے۔ انسانوں میں جو جتنا زیادہ اپنے آپ کو غلطیوں سے پاک رکھتا ہے وہ اتنا ہی اللہ رب العالمین کو محبوب ہے ۔انبیا کی معصومیت بھی ان معنوں میں ہے کہ اگر کبھی بشر ی کمزوری کی بنا پر اُن سے کسی غلطی کا صدور ہونے لگے تو اللہ رب العالمین خود اُن کی حفاظت فرماتا ہے اورانھیں اُس غلطی سے بچا لیتا ہے یا اُن کی اصلاح فرما دیتا ہے۔ سورۂ یوسف میں اللہ رب العالمین اپنی اسی حکمت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: وَلَقَدْ ھَمَّتْ بِہٖ ج وَھَمَّ بِھَا لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْھَانَ رَبِّہٖ ط ( یوسف،۱۲:۲۴)،’’وہ (زلیخا) اس کی طرف بڑھی اور یوسف ؑ بھی اس کی طرف بڑھتا اگر اپنے رب کی بُرہان نہ دیکھ لیتا‘‘۔
یہ غلطی ضروری نہیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے سلسلے میں ہی ہو، بلکہ پالیسی اور طرز عمل کے درست نہ ہونے کے سلسلے میں بھی ہو سکتی ہے۔مثال کے طور پر حضوؐر ایک دفعہ کچھ سرداروں کو دین کی دعوت دے رہے تھے کہ ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہؓ ابن مکتوم نبیؐ سے کچھ پوچھنے کی جسارت کر بیٹھے۔ بشری تقاضے کے تحت حضوؐر کو یہ بات ناگوار گزری تو اللہ رب العالمین نے فوراً اصلاح کرتے ہوئے پوری اُمت کو یہ سبق دے دیا کہ اللہ کے نزدیک وہ زیادہ اہم ہے جو اپنے نفس کا تزکیہ کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ اس طرح کی اور مثالیں بھی قرآن میں موجود ہیں۔مثال کے طور پر قرآن کی یہ آیات سامنے رہیں: یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ( التحریم ۶۶:۱ )،’’اے نبیؐ! جو چیز اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہے آپ اس سے کیوں کنارہ کشی کرتے ہیں؟‘‘ عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ (التوبہ ۹:۴۳ )، ’’اللہ آپ کو معاف کرے۔ آپ نے ان کو کیوں اجازت دی؟‘‘
صحابہ میں حضرت عمرؓ کی مثال کو سامنے رکھیے۔ اُن کا مقام اور مرتبہ یہ ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا لیکن اللہ نے نبوت کا سلسلہ میرے اُوپر بند کر دیا ہے۔ حضرت عمرؓ وہ ہیں کہ جن کی راے کے درست ہونے کی تصدیق کئی مرتبہ خود اللہ رب العالمین نے کی۔ لیکن ذراغور کیجیے کہ جب حضرت عمرؓ تورات کے چند اوراق لیے نبی ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو بارگاہ رسالتؐ سے انھیں کیا جواب ملا۔اسی طرح جب جیش اسامہؓ کے بارے میں حضرت عمرؓ نے خلیفہ وقت کو قائل کرنا چاہا تو حضرت ابوبکرؓ نے انھیں کتناسخت جواب دیا اور وقت نے یہ بات ثابت کی کہ خلیفہ کی بات درست تھی۔حضرت حاطبؓ کاخط والا واقعہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے۔
ان تمام باتوں سے سمجھانا یہ مقصود ہے کہ تزکیہ اور تربیت کرنے والوں کو ہمیشہ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ ممکن ہے کہ بڑے سے بڑا شر رکھنے والا انسان بھی اپنے اندر کوئی خوبی رکھتا ہو اور اُس کی بنا پر اللہ رب العالمین اُس کے لیے ہدایت کے دروازے کھول د ے ،اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی بڑے سے بڑے خیر کے علَم بردار سے کسی غلطی اور کوتاہی یا کمزوری کا ظہور ہو جائے۔ لہٰذاداعی اور مصلح کاکام اپنی جدوجہد کو آگے بڑھانا اور اُسے درست سمت میں رکھناہے نہ کہ کسی کی کمزوری اور خامی کو بہانہ بنا کر مایوس ہو کر بیٹھ رہنا ہے۔
اس چیز کو ذہن میں رکھنے سے دو بڑے فائدے حاصل ہوتے ہیں۔
* اپنی ذات کے حوالے سے: اگر یہ حقیقت سمجھ میں آ جائے تو انسان میں اپنی بعض خوبیوں کو دیکھ کر تکبر اورغرور کا رویہ پیدا نہیں ہو گا، نہ وہ دوسروں کو ہی حقیر سمجھے گا۔ اُس کی نگاہ فوراً اپنی خامیوں پر جائے گی جس سے اُس کے اندر کمزوریوں کو دُور کرنے اور خوبیوں کو پروان چڑھانے کا جذبہ کبھی سرد نہ پڑے گا،نیز اپنی بعض کمزوریوں اور خامیوں کو دیکھتے ہوئے مایوسی اور احساسِ کمتری کا شکار بھی نہیں ہوگا جو انسان کو گمراہ کرنے کے لیے شیطان کااہم ترین ہتھیار ہے۔
* دوسروں کے حوالے سے: ۱۔ ایک یہ کہ جب بندہ سمجھ لیتا ہے کہ غلطیوں سے پاک صرف اللہ کی ذات ہے تو پھر انسانوں میں سے کسی کی محبت اور عقیدت اُس حد سے آگے نہیں بڑھتی جہاں سے شرک اور بت پرستی کے دروازے کھلتے ہیں اور انسان انسانوں کو ہی خالق کے ساتھ شریک ٹھیرا کر اُن کی پوجا اور پرستش شروع کر دیتا ہے ۔پہلی قوموں نے اپنے انبیا کو اسی لیے خدائی میں شریک بنا ڈالا کہ عقیدت حد سے بڑھ گئی تھی۔
۲۔ دوسرا یہ کہ جب انسان ذمہ دار اور قیادت کے منصب پر فائز لوگوں کے غلط فیصلے دیکھتا ہے یا اُس کے سامنے اُن کی کوئی ذاتی کمزوری آتی ہے تو وہ مایوس ہو کر اپنا راستہ تبدیل نہیں کرتا، بلکہ اُن کی اصلاح کی طرف اور زیادہ متوجہ ہو جاتا ہے۔ اس سے تحریکوں میں بددلی نہیں پھیلتی اور نشانات منزل راستے کی گردو غبار میں دھندلے نہیں ہوتے۔
۳۔ اسی طرح جب ایک قائد اور ذمہ دار اپنے ماتحت افراد میں کوئی کمی اور کوتاہی دیکھتا ہے تو جھنجھلاہٹ اور مایوسی کا شکار نہیں ہوتا بلکہ اور زیادہ تندہی کے ساتھ اُن کی اصلاح پر لگ جاتا ہے۔

آئیڈیل بننا / بنانا ممکن نہیں
اگر یہ بات سمجھ میں آ جائے کہ ہر انسان خوبیوں اور کمزوریوں کا مرقّع ہے، تو یہ بات بھی بڑی آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہے کہ ہر انسان کے لیے ہر حوالے سے آئیڈیل بننا یا بنانا ممکن نہیں ہے۔ اسی لیے قرآن مجید یہ واضح کرتا ہے کہ غیر مشروط اطاعت اللہ رب العالمین کے بعد صرف انبیا کی ہے۔ یہ صرف نبی ہوتا ہے جو اپنی اُمت کے لیے آئیڈیل ہوتا ہے۔ اُسی کی پیروی ہی میں انسان کی نجات ہے، باقی سب کی اطاعت اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کے تابع ہو گی ،لہٰذا یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ ہمارے لیے انسانوں میں آئیڈیل ذات صرف رسولؐ اللہ کی ہے۔ اس کے بعد جو جتنا نبیؐ کے قریب ہو گا اتنا ہی ہمارے لیے قابل احترام ہو گا لیکن اُس کا کوئی عمل، حکم یا نظریہ اور راے یہ مقام کبھی نہیں پا سکتا کہ اُس میں اصلاح کی گنجایش نہ ہو ۔ نہ کسی کی یہ حیثیت ہو سکتی ہے کہ وہ اللہ اور رسول ؐ کی ہدایت کے مخالف کوئی حکم دے تواُس کی بھی غیر مشروط اطاعت کرنا ہو گی۔
یہ بھی پیش نظر رہے کہ اس بات کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ ہم آئیڈیل کی طرف دیکھنا یا سفر کرنا چھوڑ دیں۔ ہرگز نہیں، آئیڈیل تو ہوتا ہی اس لیے ہے کہ ہر وقت مرکز نگاہ رہے ۔ہر قدم اُس کی طرف اُٹھے، ہر منصوبہ اُسی کے لیے ہو، لیکن اگر کام میں کمزوری رہ جائے ،کوئی قدم ڈگمگا جائے یا کسی غلطی اور کوتاہی کا صدور ہو جائے تو انسان کسی جھنجھلاہٹ،مایوسی اورشک کا شکار نہ ہو ۔ گویا آئیڈیلزم کا بھوت سر پر سوار کرنا درست نہیں کہ ایسا اور ایسا کیوں ہوا؟ اور چونکہ یہ ہوا ہے لہٰذا ہماری ساری کی ساری محنت اکارت گئی ۔اب تحریک میں پہلے کی طرح روحانیت نہیں رہی، ہم اپنے مقصد سے ہٹ گئے ہیں، یا اب پہلے کی طرح کا اخلاص نہیں رہا وغیرہ وغیرہ، یا اس بنیاد پر کہ کہیں کوئی غلطی نہ ہو جائے، کوئی مسئلہ نہ بن جائے، ہم لوگوں پر تحریک کے دروازے بند کر دیں یا راستہ اتنا پیچیدہ کر دیں کہ کوئی آگے بڑھ ہی نہ سکے۔ یاد رکھیے اگر حضوؐر کی تیار کردہ جماعت میں گروپنگ ہوسکتی ہے تو اب بھی ہو گی۔ اگر اُن میں لڑائیاں ہو سکتی ہیں (باوجود اپنے تمام تر اخلاص کے) تو اب بھی ایسا ہو سکتا ہے ۔اگر نبی ؐ کا تربیت یافتہ فرد کسی موقع پر کمزوری دکھاسکتا ہے تو اب بھی ایسا ہو سکتا ہے اور جس طرح نبیؐ کی جماعت میں چند افراد کو قرآن منافقین کا نام دے سکتا ہے تو یہ مسائل اب بھی پیش آ سکتے ہیں۔ لہٰذا تحریکوں میں آئیڈیلزم نہ کبھی پہلے ہوا ہے نہ اب ہے اور نہ آیندہ ہو گا۔
ایسی صورت حال میں ہمیں کیا کرنا ہو گا؟ یقیناًمنزل کی طرف سفر ہی کامیابی کی کنجی ہے۔اپنی خوبیوں کو بڑھانا ہو گا، غلطیوں کی اصلاح کرنا ہو گی ،کمزوریوں سے صرف نظر کرنا ہو گا، اللہ سے اپنے لیے معافی مانگنا ہو گی اور دوسروں کو خود معاف کرنا ہو گا۔ خوبیوں کی تعریف کرنا ہو گی اور کمزوریوں کی پردہ پوشی کرنا ہو گی ۔اللہ کے رسولؐ نے شاید اسی لیے فرمایا تھا، جو اپنے بھائی کی پردہ پوشی کرے گا ،اللہ قیامت کے دن اُس کی پردہ پوشی کرے گا۔ قرآن بھی کہتا ہے کہ دوسروں کو معاف کرنے والے اُن کی غلطیوں سے صرف نظر کرنے والے اور اُن پر احسان کرنے والے اللہ کو بڑے پسند ہیں ۔اس ضمن میں محترم خرم مرادؒ نے نبی کریمؐ کے بہت سے واقعات نقل کیے ہیں اور بڑی مفید ہدایات دی ہیں (کارکن اور قیادت سے تحریک کے تقاضے، ص ۱۳۳۔۱۳۹)

ہر مسئلہ حل کرنے کے لیے نہیں ھوتا
یاد رکھیے مسائل ہر جگہ ہوتے ہیں۔ مسائل کی نوعیت مختلف ہوتی ہے لیکن مسئلہ تو بہر حال مسئلہ ہے چاہے کسی قسم کا ہو۔ گھروں میں ،گلی محلے میں، اداروں میں اور تحریکوں میں مسائل ہوتے ہیں ۔کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ مسائل قبرستان میں نہیں ہوتے۔ اس لیے کہ وہاں زندگی نہیں ہوتی، جہاں زندگی ہو گی وہاں مسائل بھی ہوں گے۔ یہ مسائل غیروں کے پیدا کردہ بھی ہو سکتے ہیں اور اپنوں کے بھی، بلکہ کچھ مسائل تو انسان خود اپنے لیے پیدا کر لیتا ہے۔
۱۔ بعض مسائل حقیقت میں موجود نہیں ہوتے ،ہم فرض کر لیتے ہیں اور آہستہ آہستہ وہی چیز ہمارے لیے بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔ صرف اپنی سوچ کو بدل لینے سے ہی بہت سارے مسائل حل ہوجاتے ہیں۔اپنی سوچ اور روّیے کو بدل لینا تو بعض اوقات بہت سے حقیقی مسائل کو بھی ختم کر دیتا ہے، لہٰذا سب سے پہلے تو یہ بات سوچنی چاہیے کہ اس مسئلے میں میرا کیا کردار ہے؟ اور میں اس کو کیسے حل کر سکتا ہوں؟مجھے اپنے اندر کیا تبدیلی لانا ہو گی کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے یا آیندہ کبھی پیدا نہ ہو۔ فرض کریں ایک بچہ آپ سے نفرت کرتا ہے۔ اس لیے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ آپ اُس سے نفرت کرتے ہیں اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ آپ اپنے اخلاص کے ساتھ جب اُس کی اصلاح پر توجہ دیتے ہیں تو حکمت عملی میں کسی خرابی کی وجہ سے یہ اخلاص منفی انداز میں آگے منتقل ہوتا ہے۔ آپ لوگوں کے سامنے اُسے جھڑکتے ہیں یا اُسے اُس کے جائز حقوق سے بھی محروم کر دیتے ہیں، یا اُس کے مسئلے کو سمجھنے کے بجاے اپنی راے پر اصرار کرتے ہیں تو ایسی صورت حال میں صرف اپنی سوچ اور روّیے کی اصلاح ہی ممکن ہے کہ بچے کی اصلاح کا سبب بن جائے۔
۲۔ دوسری بات یہ کہ ضروری نہیں ہر مسئلے کو فوراً ہی حل کیا جائے۔ بعض اوقات صرفِ نظر کرنا بھی ضروری ہوتا ہے اور ایسا اس صورت میں تو اور بھی زیادہ ضروری ہوتا ہے کہ جب ایک مسئلے کا ختم کرنا دوسرے بہت سے مسائل کو جنم دینے کا باعث بن جائے۔ عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین کے بارے میں جب آنحضوؐر سے کہا گیا کہ اس فتنے کو ختم کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے، تو محسنِ انسانیت ؐ کا جواب یہ تھا کہ لوگ کہیں گے کہ’’محمد ؐ اپنے ساتھیوں کو مروا رہا ہے ‘‘۔ مقصد یہ تھا کہ اس ایک مسئلے کو ختم کرنے سے کئی دوسرے مسائل جنم لیں گے، لہٰذا آپؐ نے در گزر کرنے کی پالیسی ہی جاری رکھی حالانکہ یہ ایسا شخص تھا کہ جس کی منافقت کے بارے میں کوئی دو راے نہ تھیں۔ نبیؐ کا اس معاملے میں طرزِعمل تو یہاں تک تھا کہ آپ اُس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے بھی اُٹھ کھڑے ہوئے تھے لیکن اللہ رب العالمین نے خود منع فرما دیا: ’’اور آیندہ ان میں سے جو کوئی مرے تو اس کی نمازِ جنازہ بھی تم ہرگز نہ پڑھنا اور نہ کبھی اُس کی قبر پر کھڑے ہونا ‘‘۔(التوبہ ۹:۸۴)
۳۔ پاکستان کی اس وقت کیا صورت حال ہے؟ ہم نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں چند چھوٹے مسائل کو حل کرنے کے لیے غیروں کے کہنے پر اور اُن کی سازش کا حصہ بن کر اپنی ساری قوت جھونک دی، اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ اب وہ چھوٹے مسائل ایک عفریت بن کر ہمارے سامنے ہیں۔ جب تک ہم نے حکمت کے ساتھ اُن مسائل کو حل کرنے اور بعض جگہوں پر صرفِ نظر رکھنے کی پالیسی رکھی ، ہم اطمینان میں تھے اور زیادہ بہتر پوزیشن میں تھے۔ آج نہ گورنمنٹ کی رِٹ باقی ہے نہ ملک سے محبت اور ہمدردی باقی رہی ہے، بلکہ اُلٹا ہم کئی دوسرے مسائل کا شکار ہو گئے ہیں۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ بعض مسائل کو بروقت حل ہونا چاہیے اور مسائل کو جوں کا توں نہیں رہنا چاہیے لیکن ایسا ہم صرف اپنی بساط کی حد تک کر سکتے ہیں۔ ہمیں مسائل کے بجاے امکانات پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ اس لیے کہ جو بندہ صر ف مسائل کو حل کرنے میں ہی اپنی ساری قوت جھونک دیتا ہے، وہ منزل کی طرف سفر نہیں کر سکتا ۔اُس کی پیش قدمی رُک جاتی ہے اور مسائل کے دباؤ کے اندر مستقبل کے لیے سوچنے، منصوبہ بنانے اور آگے کی طرف بڑھنے کا عمل نا ممکن ہو جاتا ہے۔ اس لیے ذمہ داران کو بالخصوص اس چیز کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ماحول دباؤ سے پاک ہو اور شیطان مسائل میں اُلجھا کر ہمیں منزل کی طرف پیش قدمی سے روک نہ دے۔
خرم مراد مرحوم نے اس عنوان پر بڑی خوب صورت بات کہی ہے کہ ’’آپ یہ سمجھ لیں کہ سارے مسائل حل نہیں ہوں گے اور تنظیم کو اپنی قوتوں کا ایک حصہ اگر مسائل کو حل کرنے میں لگانا چاہیے، تو میں یہ کہنے کی جرأت کر وں گاکہ بعض مسائل کو حل کرنے سے انکار کر دینا چاہیے۔ اس لیے کہ وہ مسائل حل کرنے میں جتنی قوت کھائیں گے اُس قوت سے ہم کئی گنا زیادہ قوت اور پیدا کرسکتے ہیں ‘‘۔(تحریک کے تقاضے ،ص ۸۲)
۴۔تزکیہ اور تربیت کا عمل ایک مسلسل عمل ہے۔یہ عمل کسی مشین کا سا عمل نہیں ہے کہ جس کے نتیجے میں ایک مخصوص طرز اور قسم کی شے حاصل ہو جائے۔ یہ ایک مسلسل ہونے والا عمل ہے۔ کسی ایک کتاب کے پڑھنے سے، کسی ایک اجتماع میں شرکت سے، یا کوئی چلہ لگانے سے یہ عمل مکمل نہیں ہوتا۔ تذکیر، تزکیہ اورتربیت ہر وقت ہر جگہ اور ہر فرد کے لیے ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان ایک مستقل اور جامد شے کا نام نہیں ہے۔ یہ گھٹتا او ربڑھتا رہتا ہے۔ حضرت حنظلہؓ کا واقعہ اس بات کی بڑی عمد ہ اور خوب صورت تصدیق کرتا ہے اور معلم انسانیت ؐ کا جواب رہتی دنیا تک کے لیے یہ پیغام دیتا ہے کہ اپنے ایمان کی فکر کرو اور اس فکر سے کبھی غافل نہ ہو۔ نماز روزانہ دن میں پانچ مرتبہ یہ تربیت کرتی ہے ۔روزہ ہر سال پورا ماہ مسلسل ہماری تربیت کرتا ہے۔قرآن کا پڑھنا ہرنماز میں لازمی ہے۔ یہ تمام باتیں اس چیز کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ہمیں کسی بھی مقام پر مطمئن ہو کر بیٹھ نہیں رہنا، بلکہ مسلسل اس کام کو کرتے جانا ہے ۔قرآن نے یہ دُعا بھی سکھائی ہے: رَبَّناَ لاَُ تزِغْ قُلُوبَناَ بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا (اٰل عمرٰن۳:۸)،اے ہمارے رب ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں میں ٹیڑھ پیدا نہ کرنا۔
قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ انسان خطا کا پُتلا ہے۔ اس سے غلطیاں ہوتی ہیں لیکن اگر کوئی غلطی کے بعد سچے دل سے توبہ کرے اور آیندہ نہ کرنے کا عہد کرے اور نیکی کے راستے پر گامزن ہوجائے، تو اللہ اُن گناہوں کو نہ صرف معاف کر دیتا ہے بلکہ انھیں نیکیوں میں تبدیل کردیتا ہے:
اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓءِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنٰتٍ ط وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا (الفرقان۲۵:۷۰)،اور جو کوئی توبہ کرے اور نیک عمل کرے تو یہی لوگ ہیں جن کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں میں تبدیل کر دیں گے اور اللہ بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
قرآن اُن لوگوں کو خوش خبری سناتا ہے جو بار بار پلٹنے والے ہیں:
اَلتَّآءِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآءِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ ط وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ (التوبہ۹:۱۱۲)، اللہ کی طرف باربار پلٹنے والے، اس کی بندگی بجالانے والے، اس کی تعریف کے گُن گانے والے، اس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے، اس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، بدی سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے (اس شان کے ہوتے وہ مومن جو اللہ سے بیع کا یہ معاملہ طے کرتے ہیں) اور اے نبیؐ، ان مومنوں کی خوش خبری دے دو۔
اللہ کا بندے سے رویہ کیا ہے اور انسانوں کا کیا ہونا چاہیے۔ ذرا دیکھیے:
وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءً ا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا (النساء۴:۱۱۰)،اور جو کوئی برائی کا مرتکب ہو یا ا پنے آ پ پر ظلم کر بیٹھے پھر وہ اللہ سے معافی چاہے تو اللہ کو بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا پائے گا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان سے بار بار کسی ایک غلطی کا صدور بھی ہو سکتا ہے اور کسی نئی غلطی کا امکان بھی ہو سکتا ہے۔ یہاں یہ بات کسی کو الجھن میں نہ ڈالے کہ اس طرح تو غلطی کرنے کا کھلا لائسنس مل جائے گا۔ نہیں، توبہ کے سہارے پر کسی مومن کا اپنی غلطی کو دہرانا دُرست نہیں اور نہ ایسی کوئی توبہ قبول ہی ہوتی ہے جس میں مزید گناہ کی خواہش موجود ہو۔ توبہ تو ہوتی ہی وہ ہے جو سچے دل کے ساتھ اور پشیمانی کے جذبے سے ہو، لیکن انسان ہونے کے ناطے یہ تو ہو سکتا ہے کہ انسان سچے دل کے ساتھ توبہ کرے لیکن اُس غلطی کا صدور اُس سے پھر ہو جائے۔
غلطی اور کوتاہی کی عمومی و جوہات میں ایک بڑی وجہ انسان کا بھول جانا ہے (فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا’’پس وہ بھول گیااور ہم نے اس میں عزم نہ پایا ۔ طٰہٰ ۲۰:۱۱۵)۔ لہٰذا تزکیہ اور تربیت کا کام مسلسل کرنے اور ہونے والا کام ہے۔ کسی بھی لمحے اور کسی بھی منصب تک پہنچنے کے بعد اس سے اعراض نہیں برتنا چاہیے، نہ نتائج کے سامنے آنے پر ہی تزکیہ کاکام روک دینا چاہیے۔

غلطیوں اور کوتاہیوں کے عمومی اسباب
بعض اوقات غلطی او ر کوتاہی کے سبب کو دُور کر دینا ہی اصلاح کا سبب بن جاتا ہے۔ اللہ اور اللہ کے رسولؐ نے اس بات پر بڑی توجہ دی ہے کہ اُن اسباب کوکم کر دیا جائے جو غلطیوں اور گناہوں کا سبب بنتے ہیں۔ اگر اسباب کا جائزہ لیں تو چند ایک بڑے سبب درج ذیل ہیں:
* علم کی کمی: بندے کو یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ غلطی کر رہا ہے بلکہ بعض اوقات تو ایک آدمی کسی غلط کام کو ثواب سمجھ کر کر رہا ہوتا ہے۔ ہم اپنے معاشرے سے اس کی بے شمار مثالیں دے سکتے ہیں۔ ایسے عالم میں لوگوں میں شعور اور آگہی پیدا کرنا، انھیں تعلیم سے آراستہ کرنا، اُن کے سامنے حق اور باطل کو کھول کھول کر بیان کرنا بہت ضروری ہے۔ انبیا کی بعثت کا ایک بڑا مقصد یہی قرار پایا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے اُن کی رب کی تعلیمات کو کھول کھول کر بیان کر دیں۔ اسی لیے سچے مصلحین تطہیر افکار اور تعمیر افکار کو اپنی جدوجہد میں ترجیح اول پر رکھتے ہیں۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہ علم کی کمی قرآن اور حدیث کے علم کو عام کیے بغیر دُور نہیں ہو سکتی۔
*بھول جانا:غلطی اور گناہ کی ایک بڑی وجہ انسان کا بھول جانا ہے۔ یہ ایک بشری تقاضا ہے جو ہر وقت اور ہر انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ انسان کو بار بار یاد دلایا جائے کہ اُس کا مقصد زندگی کیا ہے؟اُس نے اپنے رب کے ساتھ کیا وعدہ کیا ہے؟ نماز اس مسئلے کے حل کی بہترین مثال ہے۔ قرآن کی تلاوت اور ذکر اذکار سے اپنی زبان کو تر رکھنا اس کا بہترین علاج ہے۔
* قوت ارادی کی کمی: انسان فطری طور پر کمزور پیدا ہوا ہے ،خود قرآن نے کہا: وَلَمْ نَجِدْلَہٗ عَزْمًا (طٰہٰ ۲۰:۱۱۵) ’’ہم نے اس میں عزم نہیں پایا‘‘۔ مطلب یہ کہ ورغلائے جانے پرانسان ثابت قدم نہ رہ سکا ۔اسی لیے اسلام ہمیں اجتماعی زندگی اور اجتماعی جدوجہد کا درس دیتا ہے تاکہ قوتِ ارادی کی کمی اجتماعیت کی قوت سے دُور ہو جائے ۔
* غلط فہمی: داعین اور ذمہ داران کو یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ بعض اوقات کسی فرد کا ارادہ تو نیکی کا ہوتا ہے لیکن دیکھنے والا اُسے غلط سمجھ رہا ہوتا ہے، یا بندے کا قصور نہیں ہوتا لیکن اُس کا قصور بنا دیا جاتا ہے۔ اسی لیے اللہ رب العالمین نے بڑی واضح ہدایات دی ہیں کہ کسی فاسق کی خبر پر یقین نہ کرو جب تک کہ تصدیق نہ ہو جائے۔ بہت زیادہ گمان نہ کرو ،تجسس اور غیبت نہ کرو ،اور کسی دوسرے پر بہتان نہ لگاؤ (تفصیل کے لیے سورۃ الحجرات)۔
* کبر و غرور، نفس پرستی اور غصہ: یہ اور اسی طرح کی کچھ اور بیماریاں ہیں جو کئی دوسری غلطیوں کا باعث بنتی ہیں، لہٰذا ن کو دُور کرنے کے علاج کی فکر کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے مولانا مودودی ؒ نے تحریک اور کارکن کے آخری باب میں بڑی مفید بحث کی ہے۔

تربیت کی اصل ذمہ داری انسان کی اپنی ہے
قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ انسان کے تزکیے کی ذمہ داری کسی اور پر نہیں بلکہ خود اُس کے اپنے اوپر عائد ہوتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو نہ صرف خیر و شر کی تمیز دی ہے : فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا (الشمس۹۱:۸)،’’پس ہم نے اسے نیکی اور بدی دونوں الہام کردیں‘‘، بلکہ اس کے ساتھ اس بات کا اہتمام بھی کیا ہے کہ دنیا میں اُس کو یاد بھی دلایا جائے: ’’اور کوئی اُمت نہیں مگر اس میں ایک خبردار کرنے والا گزر چکا ہے‘‘۔(فاطر۳۵:۲۴)
قرآن نے اہل جہنم کا ایک مکالمہ بیان کیا ہے کہ’’ وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہم تو اپنے بڑوں اور سرداروں کے پیچھے لگے رہے پس انھوں نے ہمیں سیدھے راستے سے گمراہ کیا۔یااللہ! ان کود گنا عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت کر‘‘(الاحزاب ۳۳:۶۷۔۶۸)۔ اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے۔’’جس وقت کوئی جماعت جہنم میں داخل ہو گی وہ دوسری جماعت کو لعنت کرے گی۔جب سب لوگ اس میں جمع ہو جائیں گے تو پچھلے لوگ پہلے لوگوں کی نسبت کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو ان لوگوں نے گمراہ کیا ،سو ان کو دوزخ کا عذاب دو گنا دے۔اللہ فرمائے گا کہ سب ہی کا دو گنا ہے لیکن تم کو خبر نہیں‘‘۔ (الاعراف ۷:۳۸، ۳۹)
ا نسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اور تربیت نہ ہونے کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھیراتا ہے،حالانکہ کوئی انسان ،کوئی کتاب اور کوئی تقریریا اجتماع کسی دوسرے کی تربیت نہیں کر سکتا جب تک کہ خود انسان کا اپناارادہ نہ ہو ۔یہ تو تربیت کے ذرائع ہیں جو سہولت بہم پہنچاتے ہیں۔ یہ انسان کو منزل کی طرف گامزن رکھنے اور آگے بڑھانے کے لیے مدد گار تو ہیں لیکن ذمہ دار نہیں۔ ذمہ داری انسان کی اپنی ہے۔ خرم مراد مرحوم نے بڑی خوب صورت بات لکھی ہے کہ اس رجحان کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے کہ کوئی فرد اجتماعیت کو اپنی خرابیوں اور کمزوریوں کا ذمہ دار ٹھیرانا شروع کردے کہ چونکہ یہ نہیں ہوا،اس لیے تربیت نہیں ہو رہی۔
نماز کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ: ’’بے شک نماز برائی اور بے حیائی سے بچاتی ہے ‘‘(العنکبوت۲۹:۴۵)۔ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ نماز کی ادایگی کرنے والے انسان بھی بعض اوقات برائیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس میں قصور نماز کا نہیں انسان کا اپنا ہوتا ہے کہ نماز جس مقصد کے لیے تھی اُس نے اس پر توجہ نہ دی۔ اس لیے تربیت کے ذرائع استعمال ہونے چاہییں، اُن سے مدد لینی چاہیے لیکن فرد کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دینا چاہیے۔ ارشاد ربانی ہے: وَلَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَیْھَا ج وَلَا تَزِ رُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَاُخْرٰی ج (الانعام، ۶:۱۶۴) ،’’ہرشخص جو کماتا ہے اس کی ذمہ داری اسی پر ہے۔کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا‘‘۔ تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْخَلَتْ ج لَھَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ ج وَلَا تُسْءَلُوْنَ عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (البقرہ ۲:۱۳۴)، ’’یہ ایک گروہ تھا جو گزر چکا ۔اس کے لیے ہے جو اس نے کمایا۔اور تمھارے لیے ہے جو تم نے کمایا۔اور جو کچھ وہ کرتے رہے تھے اس کے متعلق تم سے سوال نہیں کیا جائے گا‘‘۔ وَمَنْ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفْسِہٖ ط وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ (فاطر ۳۵:۱۸)،’’اور جو شخص بھی پاکیزگی اختیار کرتا ہے اپنے ہی لیے اختیار کرتا ہے۔اور اللہ ہی کی طرف سب کو پلٹنا ہے‘‘۔

ہدایت کا انحصار اللّٰہ کی توفیق پر
یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ ہدایت دینا اللہ کے اختیار میں ہے۔ مَنْ یَّھْدِ اللّٰہُ فَھُوَ الْمُھْتَدِیْ ج وَمَنْ یُّضْلِلْ فَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ (الاعراف ۷:۱۷۸)، ’’جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت یافتہ ہے اور جسے وہ گمراہ کر دے پس وہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں‘‘۔ داعی کا کام کوشش کرنا ہے، اتنی کوشش کہ حق ادا ہو جائے۔ وَجَاھِدُوْ فِیْ اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ ط (الحج۲۲:۷۸)، ’’اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے‘‘۔
یہ درست ہے کہ اچھی تقریر، اچھی مثال، داعی کا اخلاص، داعی کا اپنا طرزِعمل اور اس طرح کے دیگر عوامل کسی فرد کو ہدایت کی طرف لانے کا ذریعہ بنتے ہیں لیکن یہ سب عوامل دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں، اگر اللہ کی طرف سے توفیق اور اعانت نہ ہو۔ نبی ؐ سے بہتر کون سا داعی ہو سکتا ہے؟ آپؐ سے بہتر دلائل کس کے پاس تھے؟آپؐ کے اخلاص پر کون شبہہ کر سکتا ہے؟ کس کو حق ہے کہ آپؐ کے طرزِعمل پر نکتہ چینی کرے لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ ابولہب جو رشتے میں آپؐ کا سگاچچا تھا ایمان نہیں لایا تھا۔ بعض لوگوں کے بارے میں تو اللہ رب العالمین نے واضح اعلان فرمادیا تھا کہ اے میرے نبیؐ آپ ان کی ہدایت کے لیے بہت حریص ہیں لیکن اللہ تو صرف اُس کو ہدایت کی توفیق دیتا ہے جسے چاہتا ہے : ’’(اے محمدؐ)آپ ان کی ہدایت کے لیے کتنے ہی حریص ہو جائیں (مگر)اللہ جس کو بھٹکا دیتا ہے پھر اسے ہدایت نہیں دیتااور ایسے لوگوں کا پھر کوئی مددگار نہیں ہوتا‘‘ (النحل ۱۶:۳۷)۔ اسی لیے اہل ایمان کو ہدایت کی گئی کہ اگر کبھی شیطان کی طرف سے تم کوئی رکاوٹ محسوس کرو، یا وہ تمھیں ہدایت سے ہٹانے کی کوشش کرے تو فوراً اللہ سے مدد طلب کرو بے شک وہ سننے والا بھی ہے اور جاننے والا بھی۔(اعراف ۷:۲۰۰)
جب ذہن میں یہ بات واضح ہو جائے کہ ہدایت صرف اللہ کے اختیار میں ہے تو لوگوں کی اصلاح کے لیے داعی کا نقطۂ نظر اور طرزِعمل یکسر تبدیل ہو جائے گا۔ ا ب اُس کی نفرت مریض سے نہیں مرض سے ہو گی۔ اب کسی فرد کی غلطی کو دیکھ کر اُس کا اضطراب زبان سے اظہار میں اسے محتاط بنا دے گا۔ داعی اپنے رب سے ہاتھوں کو پھیلا کر اپنے بھائی کی اصلاح کے لیے دُعائیں کر رہا ہو گا۔ یہ چیز اُس کی زبان میں شیرینی اور اُس کی حکمت عملی میں اخلاص کی ضمانت بن جائے گی، اور محاسبہ اور احتساب کی محفل نصیحت، ہمدردی، سچائی ،اخلاص اور محبت کی عمدہ مثال بن جائے گی۔

تنقید اور محاسبے کا طریق کار
بعض اوقات اپنے بھائی کی اصلاح کے لیے اختیار کیا گیا طرز عمل بھی بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔ ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ لوگوں کے سامنے اُس کی عزتِ نفس کو ٹھیس نہ پہنچے۔ اس لیے تنقید اور محاسبہ ہمیشہ علیحدگی میں ہونا چاہیے۔ جب تک متعلقہ فرد سے علیحدگی میں بات نہ کر لی جائے اُس کے متعلق کسی دوسرے کے کان میں اُس کی بھنک بھی نہ جانی چاہیے۔
غیبت کی تعریف ہی یہ کہ ہے کہ اپنے کسی بھائی کی برائی اُس کی پیٹھ کے پیچھے بیان کرے جو واقعتا اُس میں موجود ہو۔ اگر برائی موجود ہی نہیں تو یہ بُہتان ہے۔ ذرااندازہ لگائیے قرآن غیبت کو کتنا بُرا فعل قرار دیتا ہے جس کو ہم جوش اصلاح میں بڑے فخر اور تکبّر کے ساتھ کرجاتے ہیں: ’’کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، دیکھو تم خود اس سے کراہت کرتے ہو‘‘ (الحجرات ۴۹:۱۲)۔اس لیے کوشش کی جانی چاہیے کہ کسی کی عزت، وقار اوراحترام میں فرق نہ آئے۔ اگر کسی کی عزت مجروح ہو گی تو اس سے اصلاح کے بجاے اور بگاڑ پیدا ہوتاہے۔ اکثر اوقات دوسرا فرد اپنی غلطی پر ڈٹ جاتا ہے اور تاویلیں پیش کرنا شروع کر دیتا ہے۔ قرآن نے اس کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے: ’’اورجب اُس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو،تو اُسے اپنی عزت کا خیال گناہ پر جما دیتا ہے، پس اُس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے‘‘۔(البقرہ۲:۲۰۶)
انفرادی طور پر بھی بات کرنے کا انداز یہ ہونا چاہیے کہ ایک غلطی فہمی کو دُور کرنا مقصد ہے۔ فرد کو مجرم نہیں ٹھیرانا چاہیے۔ بات اگر اشارے کنائے میں ہو جائے تواور زیادہ بہتر ہے ۔ بڑے سے بڑا مجرم ہی کیوں نہ ہو بات نرمی سے ہونی چاہیے:’’ دونوں فرعون کی طرف جاؤ بے شک وہ سرکش ہو گیا ہے۔ پس اس سے نرمی سے بات کرنا شاید کہ وہ نصیحت حاصل کرے یا ڈر جائے‘‘ (طٰہٰ ۲۰:۴۳۔۴۴)۔ اگر اس سے اصلاح نہ ہو تو کسی ذمہ دار فرد کی مدد لینی چاہیے جو بہتر انداز میں فرد کو متوجہ کرسکتا ہو اور اگراس سے بھی اصلاح نہ ہو تو پھر اجتماعی فورم کا استعمال کرنا چاہیے۔نیز اگر کوئی فرد اپنی غلطی دُور کر لیتا ہے تو کبھی اُس کی سابقہ غلطی کا تذکرہ زبان پر نہیں لانا چاہیے، یہ انتہائی غلط اور فتنہ پیدا کرنے والی بات ہو گی اور اللہ کے نزدیک انتہائی بُرا فعل ہے۔
تزکیۂ نفس، انسانوں کی اصلاح اور ان کی کمزوریوں کو دُور کر کے خوبیوں کو پروان چڑھانا کہ وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ٹھیریں ایک ہمہ گیر اور کٹھن کام ہے جو بہت سے تقاضوں اور حکمت پر مبنی ہے۔ اگر مذکورہ بالا چند اہم اُمور کو پیش نظر رکھا جائے تو اُمید ہے کہ تزکیہ و تربیت کا عمل نتیجہ خیز ثابت ہوگا اور فرد کی تربیت کے لیے بہت سی راہیں کھلیں گی۔

Shazia

اپنا تبصرہ لکھیں