ڈاکٹر جاوید جمیل
مانا کہ ہمیں کچھ وقت لگا، پھر ساری حقیقت جان گئے
تم لاکھ چھپا لو چہرے کو، ہم خوب تمہیں پہچان گئے
سینے میں بسا کر رکھیں گے، پلکوں پہ بٹھا کررکھیں گے
اب زیست میں داخل ہو جاؤ، ہر شرط تمھاری مان گئے
جب آئے تو دل نے یہ سمجھا، گھرانکا ہے وہ گھر کے ہیں
دو دن بھی نہ گزرے تھے لیکن معلوم ہوا مہمان گئے
کہنے کو دھڑکتا اب بھی ہے، کہنے کو تڑپتا اب بھی ہے
دل لیکن خالی خالی ہے، جو اس میں تھے ارمان گئے
عادات میں حیوانوں جیسے، اطوار مشینوں کی مانند
یہ دنیا کب انسانوں کی، اس دنیا سے انسان گئے
“منکر“ کے خلاف آواز نہیں، “معروف“ کے دلدادہ بھی نہیں
اسلام کہیں باتوں میں تو ہے، سینوں سے مگر ایمان گئے
جاوید گئی دل سے حسرت، ہمت بھی گئی، جرات بھی گئی
کیوں جیتے ہیں معلوم نہیں جب جینے کے سامان گئے
جب آئے تو دل نے یہ سمجھا، گھرانکا ہے وہ گھر کے ہیں
دو دن بھی نہ گزرے تھے لیکن معلوم ہوا مہمان گئے
Bht hi aala janab dil khush ho gaya