تنخواہ
(١١ جولائی ٢٠٠٩) شہزاد بسرائ
ریزگاری کبھی کبھار آپ کو ذلیل کروا دیتی ہے ۔ کسی واقف دوکاندار سے اگر کبھی آپ کو پنسل یا ایسی ہی کوئی معمولی چیز لینی پڑ جائے اور آپ کے پاس ہزار یا پانچ سو سے کم کا کھلا نہ ہو تو اکثر دوکاندار کہے گا ۔ ”آپ پھر کبھی دے جائیں اس وقت Change (ریزگاری)کا مسئلہ ہے” ۔
میرے لئے یہ عذاب ہو جاتا ہے کہ اکثر یاد نہیں رہتا اور میں بھول جاتا ہوں ۔اِس لئے کوشش کرتا ہوں کہ کچھ نہ کچھ ریزگاری جیب میں ضرور رہے۔
٩٠ کی دھائی کے اوائل کا زمانہ تھا۔ جمعدار گھر کا کچرا اُٹھانے کے عوض ہر ماہ 5روپے لیتا تھا۔ اکثر یہ ہوتا کہ وہ ہر ماہ پہلی ہی تاریخ کو آجاتا اور آواز دیتا
”باجی کچرا دے دیں اور تنخواہ بھی”۔
مگرعموماََ ہمارے پاس کھلا نہ ہوتا اور اُسے اگلے دِن آنے کا کہ دیتے۔ غالباً یہ کوئی چوتھا لگاتار واقعہ تھا کہ وہ آتا اور ہمارے پاس کھلے 5روپے نہ ہوتے تو اسے دوبارہ آنے کا کہہ دیتے۔ کئی دفعہ تو یوں ہوتا کہ اگلے دن بھی کھلے نہ ہوتے اور اسے پھر کل آنے کا کہہ دیتے ۔میں بیگم کو کوستا کہ تم کیوں نہیں کچھ ریز گاری الگ سے رکھ چھوڑتی۔ نہ صرف خاکروب کو لوٹانا پڑتا ہے بلکہ اکثر فقیر کو بھی دروازے سے صرف اس لئے واپس خالی ہاتھ جانا پڑتا ہے کہ کھلا نہیںہے۔وہ آگے سے ترکی بہ ترکی جواب دیتی کہ آپ جب سودا سلف لے کے آتے ہیں تو ساتھ کھلا بھی لایاکریں۔
”اچھا تمہیں لڑنے کا بہانا چاہئے ۔حد ہوتی ہے کہ تم صرف ایک پانچ کا کھلا الگ نہیں رکھ سکتی تاکہ کم از کم کچرا اُٹھانے والے کو تو واپس نہ بھیجنا پڑے۔ مجھے تو شرمندگی ہوتی ہے پچھلے ماہ بھی اسے کم از کم دو دفعہ دوبارہ آنے کا کہنا پڑا اور یہ کوئی 3-4ماہ سے ہو رہا ہے۔ یہ تمہاری Mismanagement ہے۔ کل پھر پہلی تاریخ ہے اور کل ہرگز اسے ہر دفعہ والا جواب نہ نہیں ملنا چاہئے ۔حد ہوتی ہے کہ ایک 5روپے کی وجہ سے ذلیل ہونا پڑتا ہے ”۔
ایک دفعہ میں نے سوچا بھی کہ جمعدار کواکٹھے 100روپے ہی دے دیتا ہوں۔ڈیڑھ سال کا ایڈوانس اور یہ ہر ماہ 5روپے کا کھلا ڈھونڈنے اور جمعدار کو دوبارہ آنے کا کہنے سے جان چھٹ جائے۔ مگر بیگم نہ مانی۔
مگراس دفعہ مہینے کے آغاز ہی میں، میں نے اعلیٰ پلاننگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک 5روپے کا نوٹ الگ سے TVکے اوپر رکھ دیا اور پھر بیگم کو کئی مرتبہ تاکید بھی کر دی کہ اِدھر اُدھر نہ ڈھونڈنا جمعدار کے لئے 5روپے کا نوٹ TVکے اوپر پڑا ہے۔
مہینے کی پہلی تاریخ تھی اور میں نے اٹھتے ہی TVپہ 5روپے کا نوٹ دیکھا تو اطمینا ن کاسانس لیا۔آج میںدروازے پہ جمعدار کی مخصوص دستک اور آواز (بائو جی ۔تنخواہ دے دیں) کا منتظر تھا۔ باتھ روم میں بھی میرا دھیان دروازے کی مخصوص دستک پہ رہا۔باتھ روم سے نکلتے ہی میں گلی بھی جھانک آیا۔ مگر آج جمعدار ندارد۔ناشتہ کرتے ہوئے بھی میرا دھیان دروازے کی طرف ہی رہا ۔ خلاف معمول آج جمعدار ابھی تک نہ آیاتھا۔
کپڑے بدل رہا تھا کہ دروازہ کھٹکا او رجمعدار کی آواز آئی۔
”باجی کچرا دے دیں”
ہائیں آج اس نے پیسے کیوں نہیں مانگے۔ شاید بھول گیا ہو کہ آج پہلی تاریخ ہے۔ میں نے جلدی سے کپڑے بدلے مگر مجھ سے پہلے بیگم TVسے 5روپے کا نوٹ اٹھا کر جا چکی تھی ۔میں نے اطمینان کا سانس لیا اور بوٹ پہننے لگا۔
بیگم ہنسی سے دوہری ہوتی دوڑتی آئی۔ اس سے بات نہیں ہو رہی تھی ۔
”آخر ہوا کیا؟ بتائو بھی”
”پتا کیا۔ جب میں نے جمعدارکو 5روپے کا نوٹ دیا تو بھلا کیا کہ رہا تھا؟ ”
”ہاں بتائو کیا کہ رہا تھا؟” میں نے بے چینی سے پوچھا
”اچھا توبائو جی کو اِس دفعہ تنخواہ جلدی مل گئی ہے”۔
very Right