💕ہمارے ملک کے ایک نامور سیاست دان کو آصف علی زرداری نے کھانے کی دعوت دی‘ یہ دعوت پر پہنچے تو ٹیبل پر درجنوں قسم قسم کے کھانے لگے تھے‘ان کے بقول میں نے اپنی پلیٹ اٹھائی اور مختلف قسم کے کھانے اپنی پلیٹ میں ڈالنے لگا۔ اتنی دیر میں زرداری صاحب کا سیکرٹری آیا اور ان کا کھانا ان کے سامنے رکھ دیا‘ چھوٹی چھوٹی کولیوں میں تھوڑی سی بھنڈی‘ دال‘ ابلے ہوئے چاول اور آدھی چپاتی تھی‘ زرداری صاحب نے چند لقمے لیے اورخانساماں ٹرے اٹھا کر لے گیا‘ میں نے ان سے ان کی سادہ خوراک کے بارے میں پوچھا تو وہ ہنس کر بولے ’’میری خوراک بس بھنڈی اور سادہ چاول تک محدود ہے‘ میں ان کے علاوہ کچھ نہیں کھا سکتا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیاآپ گوشت نہیں کھاتے‘‘ وہ مسکرائے اور بولے ’’میں گوشت کھا ہی نہیں سکتا‘‘
میں کھانا کھا کر واپس آگیا لیکن آپ یقین کریں میں اس کے بعد جب بھی کھانا کھانے لگتا ہوں تو مجھے زرداری صاحب کی ٹرے یاد آ جاتی ہے اور میں کھانا بھول جاتا ہوں۔
ارشاد احمد حقانی پاکستان کےسینئر صحافی اور کالم نگارتھے‘ روزنامہ جنگ میں کالم لکھتے تھے‘میں نے ان سے لکھنا سیکھا‘ شاہ صاحب نے بتایا میں 1998ء میں ایران جا رہا تھا‘ ارشاد احمد حقانی سے ملاقات ہوئی‘ انہوں نے پوچھا‘ کیا آپ مشہد بھی جائیں گے؟ میں نے عرض کیا ’’جی جاؤں گا‘‘ انہوں نے فرمایا ’’آپ میرے لیے وہاں خصوصی دعا کیجیے گا‘‘میں نے وعدہ کر لیا لیکن اٹھتے ہوئے پوچھا ’’آپ خیریت سے تو ہیں؟‘‘ حقانی صاحب دکھی ہو کر بولے ’’میری بڑی آنت کی موومنٹ رک گئی ہے‘ پاخانہ خارج نہیں ہوتا‘ میں روز ہسپتال جاتا ہوں اور ڈاکٹر مجھے بیڈ پر لٹا کر مشین کے ذریعے میری بڑی آنت سے پاخانہ نکالتے ہیں اور یہ انتہائی تکلیف دہ عمل ہوتا ہے‘‘ شاہ صاحب نے اس کے بعد کانوں کو ہاتھ لگایا‘ توبہ کی اور کہا ’’ہمیں روز اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے‘ ہم اپنے منہ سے کھا بھی سکتے ہیں اور ہمارا کھایا ہوا ہمارے پیٹ سے نکل بھی جاتا ہےورنہ دنیا میں ہزاروں لاکھوں لوگ اپنی مرضی سے کھا سکتے ہیں اور نہ نکال سکتے ہیں‘‘
یہ بات سن کر مجھے بے اختیار چودھری شجاعت حسین یاد آگئے‘ چودھری صاحب خاندانی اور شان دار انسان ہیں‘ میرے ایک دوست چند دن قبل ان کی عیادت کے لیے گئے‘ چودھری صاحب خوش تھے اور بار بار اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہے تھے‘ میرے دوست نے صحت کے بارے میں پوچھا تو چودھری صاحب نے جواب دیا ’’میں بہت امپروو کر رہا ہوں‘ میں اب اپنے منہ سے کھا بھی لیتا ہوں اور اپنےپائوں پر کھڑا بھی ہو جاتا ہوں‘‘ دوست نے پوچھا ’’ آپ کی حالت اس سے پہلے کیسی تھی؟‘‘ چودھری صاحب بولے ’’میری ٹانگیں میرا بوجھ نہیں اٹھاتی تھیں اور میرے پیٹ میں ٹیوب لگی ہوئی تھی‘ ڈاکٹر مجھے اس کے ذریعے کھلاتے تھے‘ میں منہ کے ذائقے کو ترس گیا تھا‘ الحمد للہ میں اب تھوڑا تھوڑا کر کے کھا بھی لیتا ہوں اور چل پھر بھی سکتا ہوں‘‘
میں بینک کے ایک مالک کو جانتا ہوں‘ یہ صبح جاگتا ہے تو چار بندے ایک گھنٹہ لگا کر اسے بیڈ سے اٹھنے کے قابل بناتے ہیں‘ یہ اس کے پٹھوں کا مساج کر کے انہیں اس قابل بناتے ہیں کہ یہ اس کے جسم کو حرکت دے سکیں‘ اس کی گاڑی کی سیٹ بھی مساج چیئر ہے‘ یہ سفر کے دوران اسےہلکا ہلکا دباتی رہتی ہے اوران کے دفتر اور گھر دونوں جگہوں پر ایمبولینس ہر وقت تیار کھڑی رہتی ہے‘ آپ دولت اور اثرورسوخ دیکھیں تو آپ رشک پر مجبور ہوجائیں گے اور آپ اگر اس کی حالت دیکھیں تو آپ دو دوگھنٹے توبہ کرتے رہیں‘
اسی طرح پاکستان میں ہوٹلز اور موٹلز کے ایک ٹائی کون ہیں‘ صدرالدین ہاشوانی‘ یہ پانچ چھ برسوں سے شدید علیل ہیں‘ ڈاکٹر اورفزیو تھراپسٹ دونوں ہر وقت ان کے ساتھ رہتے ہیں‘ ان کے پرائیویٹ جہاز میں ان کے ساتھ سفر کرتے ہیں‘ فزیو تھراپسٹ دنیا جہاں سے ان کے لیے فزیو تھراپی کی مشینیں تلاش کرتے رہتے ہیں‘ مجھے جرمنی کے شہر باڈن جانے کا اتفاق ہوا‘ یہ مساج اوردیسی غسل کا ٹاؤن ہے‘ شہر میں مساج کے دو دو سو سال پرانے سنٹرہیں اور دنیاجہاں سے امیر لوگ مالش کرانے کے لیے وہاں جاتے ہیں‘ چھ چھ ماہ بکنگ نہیں ملتی ‘ آپ وہاں لوگوں کی حالت دیکھیں تو آپ کی نیند اڑ جائے گی‘ مریض کے پروفائل میں دس دس بلین ڈالر کی کمپنی ہوتی ہے لیکن حالت دیکھیں گے تو وہ سیدھا کھڑا ہونے کے قابل بھی نہیں ہوتا‘ہم انسان ایک نس کھچ جانے کے بعد اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں رہتے‘ ہم چمچ تک نہیں اٹھا پاتے اور نگلنے کے قابل نہیں رہتے‘ یہ ہماری اصل اوقات ہے۔
تو پھر کس بات کا غرور اور فخر
توبہ کرتے رہیں معافی مانگتے رہیں
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے رہیں
اور اس کے سامنے اپنا سر جھکاتے رہیں