زبیر حسن شیخ
بقراط کی دعوت پر آج ہم اور شیفتہ ظہرانہ پر روانہ ہوئے …. راستہ بھر بقراط امریکہ میں مقیم اپنے بیٹے کے اعمال سیاہ پر روشنی ڈال ڈال کر چمکانے کی کوشش کرتے رہے …..بتاتے رہے کہ کیسے وہ اعلی تعلیم کی غرض سے وہاں جا کر خود غرض ہو گیا اور پھر پلٹ کر کبھی نہیں دیکھا… کیونکہ وہاں پلٹ کر دیکھنے کی سخت مما نعت ہے …. راستہ بھر وہ اپنے اکلوتے کی عاشقی اور مختلف شا دی خانہ بربادیوں کی داستان بھی سناتے رہے… اور یہ بھی بتاتے رہے کہ بلآخر تھک ہار کر اس نے اب شا دی نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنا گھر ہی بسا لیا ہے….. اورتیسری صنف کے چند نوجوانوں کو اپنی پناہ میں لے کر ایک کثیر سرکاری امداد حاصل کر بیٹھا ہے …..اور یہ بھی کہ اسی خوشی میں اس نے بقراط پر ‘سرپرائیز گفٹس’ کی بارش کر دی ہے جس میں آج ظہرانہ کی دعوت پیش پیش ہے …. شیفتہ کو تکتے ہوئے دیکھ بقراط نے تصفیہ کر دیا کہ حضور ‘سرپرائیز گفٹس’ سے ہمارا مطلب ان تحفوں سے ہیں جنہیں آپ ‘حیرت ناک’ کہہ سکتے ہیں … فرمایا اماں تمھاری مراد خوفناک سے ہونگی … بقراط نے کہا… حضور پتہ نہیں ہوٹل پہنچ کر دیکھتے ہیں، یہ دیکھیے کچھ ‘گفٹ کوپنس’ امریکہ سے بذریعہ ای میل بد بخت نے ارسال کیے ہیں ، جسے سا ری عمر ہم کمبخت کہتے رہے
گا ڑی ایک بے حد اعلی معیاری اور شاندار ہوٹل کے پورچ میں جا کر رکی تو دیکھا کہ ہوٹل کا نام …..” امریکہ ان انڈیا” لکھا تھا …. صدر دروازے پر ایک بڑا سا اشتہار دمک رہا تھا جس پر انگریزی میں کچھ لکھا دیکھ کر شیفتہ نے سوالیہ نگاہ اٹھائی … بقراط نے کہا حضور لکھا ہے ….” تمھارے باپ کا دن ہے آج ” …. فرمایا یہ کیا تک ہو ئی ….. بقراط نے کہا حضور تک نہیں یہ انگریزی کا اردو ترجمہ ہوا ہے… انگریزی میں یہ جملہ اتنا برا نہیں لگتا… سناں …. شیفتہ نے کہا اب رہنے دیجیے….. آگے بڑھے تو عین دروازے پر ایک اور اشتہار چسپاں دیکھا…… بقراط کی بانچھیں کھلتی دیکھ شیفتہ سے رہا نہ گیا ….. فرمایا… ہم اس کا ترجمہ سننا گوارا نہیں کرتے لیکن تمھارے چہرے پر دوپہر کے بارہ بجتے دیکھ پوچھنا ضروری سمجھا کہ ایسی کیا بات ہے اس اشتہار میں … کہا حضور لکھا ہے … یہ ہمارا امریکہ ہے….آئیے خوب کھائیے… بل تمہارے بچے ادا کریں گے…. یہ سنتے ہی شیفتہ نے کہا ہمیں تو کچھ شبہ ہے اس حیرت ناک دعوت پر….. کہیں ناک میں مرغ دم نہ کردے ….. بقراط نے پھر ایک بار شان سے امریکا سے بھیجے ہوئے کوپنز کو لہرایا اور ہم سب ہوٹل کے اندر لاونج میں جا پہنچے … خوش آمدی دستے نے ہمیں دیکھ کر مسکراہٹ بکھیری اور وہ بقراط کے مغربی لباس تک ہی پہنچ پائی، شیفتہ تک نہیں پہنچ سکی … آگے بڑھے تو ایک انتہا ئی خوش لباس جوڑے کو مسکراتے پایا جو ایکدوسرے کی قربت میں مخمور و مسرور لگ رہا تھا، گرچہ ایک حد فاضل قائم رکھی تھی لیکن پھر بھی انہیں دیکھ کر محسوس ہورہا تھا کہ یہ دونوں تمام حدیں پھلانگ چکے ہونگے….. فرمایا.. میاں کہیں آپ ہمیں دھوکے سے کسی کی دعوت ولیمہ میں تو نہیں لے آئے… اس سامنے کھڑے مسکراتے جوڑے کو دیکھ کر ہمیں تو یہی محسوس ہو رہا ہے… بقراط نے کہا… حضور یہ اس ہوٹل کے مینیجرز ہیں…. قریب پہنچتے ہی دو دونوں گردن ہلا ہلا کر مسکرانے لگے اور انگریزی میں بقراط کو کچھ اس طرح سمجھانے لگے کہ شیفتہ سے رہا نہ گیا … فرمایا اماں ہو کیا رہا ہے .. کہا حضور یہ پوچھ رہے ہیں کے حالات حاضرہ کے تحت یہاں اکل و طعام کی دو محفلیں ہیں ایک کا نام ہے “فیفا لاونج” جو فٹبال ورلڈ کپ کے شایقین کے لئے ہے اور دوسرے کا نام ہے ” فادرزلاونج ” … جس کے لئے ہم لوگ یہاں آئے ہیں….. شیفتہ نے فرمایا میاں جب یہ کہہ رہے ہیں کہ تمھارے باپ کا دن ہے آج تو پہلے فیفا لاونج کا کچھ مزہ چکھ لیتے ہیں… یہ سن کر جوڑے نے کورس میں کہا حضور آپ کسی بھی لاونج میں بیٹھیے… دونوں مینوز کا مزا لیجیے … شیفتہ نے مسکرا کر کہا .. جی جی شکریہ.. آج ہمارے باپ کا دن جو ہے … بہرحال نشست پیش کرنے کے فورا بعد مختلف مینو کارڈز سامنے رکھ دیے گئے اور خوش آمدید کہنے کے ساتھ کچھ عرق رنگیں سے بھرے مرصع و مرقع کاسے بھی میز پرلا کر رکھ دئے گئے……. سوں سوں کی آواز آنے پر ہم نے تعاقب میں نظریں دوڑائی تو وہ شیفتہ کی ناک پر جا کر رک گئی… بقراط نے ان کا مدعا سمجھ کر کہا حضور…وہ دیکھیے ایک جگہ لکھا ہے کہ …. شیفتہ نے ٹوکا اور کہا بہتر ہے آپ ترجمہ کر کے بتائیں، بڑی کوفت ہو تی ہے، بقراط نے کہا … لکھا ہے ‘باپ کو آج نشہ کرنا ممنع ہے….’ فرمایا اس تحریر سے یہ “آج” نکال دیتے تو بہتر تھا…..
مینو کارڈز پر بقراط نے نظریں ڈال کر شیفتہ سے پوچھا کیا کیا کھائیے گا… فہرست پڑھ کر سناں یا اسکا ترجمہ… شیفتہ نے کہا اب اس ترجمہ سے بھی گزر جاتے ہیں .. کہیے… بقراط نے فہرست پڑھنا شر و ع کی …. فیفا لانج میں پیش ہے “برازیلین شوخی” برطانوی تندوری… اسپینش انڈے…. اطالوی چوزہ….. فراںسی بکری ….. چائینیز کیڑے، امریکی یوروپی دیوانی ہانڈی… روسی کٹا کٹ.. اور مشرقی شوربہ …. یہ سب سنتے ہی شیفتہ لا حول پڑھنے لگے….. بقراط نے کہا ٹھیک ہے تب “فادرز لاونج” کے مینو سے ہی کچھ منگوا لیتے ہیں….. شیفتہ نے گردن ہلا کر اجازت دی….. اور بقراط نے ترجمے کے ساتھ پڑھنا شروع کیا ……باپ کا انڈا… باپ کے پائے… باپ کا جگر…. شیفتہ نے مسکرا کر کہا … ذرا ان سے پوچھیے باپ کا مغز ہے یا نہیں….. بقراط نے پاس کھڑے ہوئے بیرے کو بلا کرانواع و اقسام کھانے کا حکم دیا اور بیرے نے اپنے ما تحت کو لکھ کر فہرست تھما دی ……. بقراط نے شوخی سے پوچھا… جناب باپ کا مغز ملے گا.. اس نے کہا … معاف کیجیے گا … ابھی ابھی ملک کے چند سیاسی رہنما آئے ہیں …. اور اشارے سے دور بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا …جناب اب یہ ڈش ختم ہو گئی ہے……. بقراط نے اطراف میں نظریں دوڑا کر پوچھا … وہ بائیں طرف بیٹھے ہوئے مغربی مہمان رو کیوں رہے ہیں؟ بیرے نے کہا جناب فیس بک پر اپنے والد کا اتا پتا تلاش کر رہے تھے اور ابھی تک کوئی دعویدار سامنے نہیں آیا ہے، اس ہوٹل میں ایسا یہ پچاسواں واقعہ ہوا ہے آج … پتانہیں امریکہ میں کیا ہورہا ہوگا …. بقراط نے پوچھا اور وہ جو بائیں طرف کے اہل مغرب بیٹھے خوشی سے اتنے ہنس کیوں رہے ہیں … اس نے کہا…. ابھی ابھی انہیں ہندوستان میں کسی نے گود لیا ہے….. کھانا میز پر لگتے ہی ہم سب ٹوٹ پڑے اور خوب شکم سیر ہو کر کھایا… بقراط کی ڈکا ریں تھیں کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتی تھیں …. اور شیفتہ تھے کہ ہر نوالہ ڈر ڈر کر حلق میں اتار رہے تھے… ہر ایک نوالے پر بقراط کی طرف خشمگیں نگاہوں سے دیکھ لیتے…. ان کی آنکھوں میں بے یقینی کی کیفیت صاف جھلک رہی تھی….. ابھی گلاب اور نیمو کے عرق میں ہم لوگوں نے اپنے ہاتھ دھوکر خشک کئے ہی تھے کہ حلق خشک ہوگیا … بیرا بل لے کر آگیا … اور مسکرا کر میز پر رکھ دیا… بقراط نے حیرت سے پوچھا جناب یہ کیا ہے … ہمارے بیٹے نے کو پنز بھیجا ہے امریکہ سے ….. جس پر جلی حرفوں میں لکھا ہے … باپ کا دن ہے … خوب کھا پیو..بل بچے ادا کریں گے …. ہوٹل کی دیواروں پر بھی آپ لوگوں نے لکھ کر لگایا ہے… یہ کیا مذاق ہے ….. بیرے نے کہا … آپ نے کوپنز کی پشت پر پڑھا نہیں کہ کیا لکھا ہے … بقراط کے غصے سے دیکھنے پر اس نے کہا … لکھا ہے “ڈونڈ مائینڈ…سرپرائیز.. سرپرا ئیز .اٹ از فادرزڈے”… شیفتہ نے ہماری طرف کچھ یوں دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں… اب آپ ہی کھانے کا کچھ حق ادا کرتے ہوئے بہتر ہے ترجمہ کر دیجیے…. ہم نے کہا حضور اس کے یہ معنی ہوئے کہ ” تکلف بر طرف…تمہارے باپ کا دن ہے آج” یعنی اب اولاد جو چاہے کریگی…. بیرے نے بقراط سے کہا… جناب اب آہیں نہ بھرئیے اور غصہ تھوک دیجیے …. یہ سب ایک مذاق ہے جو امریکی بیٹے اپنے باپ سے کر رہے ہیں …… یہ بل آپ اپنے باپ کا سمجھ کرہی ادا کیجیے ….. اور ہاں اپنی امریکی اولاد کو اب فیس بک پر تلاش نہ کیجیے کیونکہ وہ اپنی اولاد کے ساتھ وہاں باپ کا دن منا رہی ہے اور خوب منا رہی ہے اور بل بھی ادا کر رہی ہے… ہماری ہوٹل میں یہ آج کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ایسے ہر سال ہوتا ہے یہاں … یہ امریکی تہذیب و ثقافت کا حصہ ہے اور ہمیں اس کا خیال رکھنا پڑتا ہے … اسی سے ہماری روزی روٹی چلتی ہے… بلکہ آج کل دنیا میں اکثر لوگوں کی اسی سے چلتی ہے…….. ان واقعات کو اب سب ہنسی خوشی قبول کرتے ہیں… لوگ خوش ہونے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں ….. اب کیا کریں فطری طور پر کو ئی خوشی کہاں ملتی ہے … خوشیوں کو بنانا پڑتا ہے صاحب…. اور یہ کوئی امریکیوں سے سیکھے… کوئی ایک ایسا دن ہے جو وہ نہ مناتے ہوں …..بھلے مصنوعی خوشیاں ہیں لیکن دیکھیے کیسے بنا رہے ہیں اور فروخت بھی کر رہے ہیں …ایک یہی چیز با قی بچی تھی دنیا کو امریکیوں سے خریدنے..غموں کا سودا کر کے وہ تھک چکے ہیں …. ویسے اب ان کے پاس بھی فروخت کرنے کچھ کہاں بچا ہے…… چلیے اب ادا کیجیے اپنے باپ کا بل … باپ کا دن ہے آج… ٹال مٹول مت کیجیے …. ہر ایک کا باپ ہوتا ہے ….. آپ کا بھی کو ئی باپ ہوگا…. مفت خوروں کو یہ پتہ چلنا چاہیے…. بقراط نے شیفتہ کی طرف شرمندگی سے دیکھا اور انہوں نے مدعا سمجھ کر بل ادا کیا …. اور کہا میاں آج کل کی اولاد نے اپنے باپ کو زندگی سے ایسے باہر کردیا ہے جیسے تہذیب کے فرزندوں نے ادب سے دین کو……