تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا
پھر کبھی تو تجھے ملا ہوتا
کاش میں سنگ در تیرا ہوتا
تیرے قدموں کو چومتا ہوتا
تو چلا کرتا میری پلکوں پر
کاش میں تیرا راستہ ہوتا
ذرہ ہوتا جو تیری راہوں کا
تیرے تلووں کو چھولیا ہوتا
لڑتا پھرتا تیرے عدووں سے
تیری خاطر میں مر گیا ہوتا
چاند ہوتا میں آسمانوں پر
تیری انگلی سے کٹ گیا ہوتا
تو کبھی تو مجھے بھی تک لیتا
تیرے تکنے پے بک گیا ہوتا
رنگ ہوتا جو سبز گنبد کا
ہر کوئی مجھ کو دیکھتا ہوتا
تیرے مسکن کے گرد شام و سحر
بن کے منگتا میں پھر رہا ہوتا
تیرے نعلین سرپے رکھ لیتا
بخت اپنا جگا لیا ہوتا
آپ آتے میرے جنازے پر
تیرے ہوتے ہی مر گیا ہوتا
ہوتا طاہر تیرے فقیروں میں
تیری دہلیز پر کھڑا ہوتا