جاب کے ذمہ دارخود تارکین وطن
چلی کی آرگنائیزیشن کے سربراہ لیڈزمانے نارویجن اخبار آفتن پوستن کے ساتھ گفتگو کے دوران پچھلے بیس برسوں کی معاشرتی میل جول کی سیاست کے بارے میں گفتگو کی۔اخبار کی گفتگو محور اس بات میں تھا کہ پچھلے کئی برسوں سے اسٹیٹ نے بیروزگاری پر قابو پانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں مگر بیروزگاری کی شرح تارکین وطن میں اکثریتی گروپ کی نسبت تین گنا ذیادہ ہے۔لیڈزما کا کہنا ہے کہ کئی تارکین وطن اپنی کم مائیگی کی احساس کی وجہ سے نارویجن معاشرے کے دروازے اپنے آپ پر بند کر لیتے ہیں۔یہ ہمیشہ نسل پرستی کی وجہ سے نہیں ہوتا۔جبکہ ان کے خیال میں یہ نسل پرستی ہے۔مارکوس لیڈزما نے اس مسلہ کے حل کے لیے یہ تجویز پیش کی کہ اداروں کو ملازمت کے لیے گمنام درخواستیں موصول کرنی چاہیئیںکیونکہ یہ ایک کھلم کھلا مسئلہ ہے کہ تارکین وطن ی درخواستیں محض انکا نام دیکھ کر ہی مسترد کر دی جاتی ہیں۔لیدزما بائیس برس پہلے ناروے اس لیے آئے تھے کہ انہیں ایک نارویجن لڑکی سے محبت ہو گئی تھی۔اس وقت سے یہ اوسلو میں اپنے خاندان کے ساتھ سیٹل ہیں۔انہوں نے اوسلو ہائی اسکول سے لائیبریرین کی تعلیم حاصل کی۔انہوں نے اپنے انٹر ویو میں تارکین وطن سے استدعا کی کہ وہ صبر و تحمل سے کام لیں۔یہ وقت ہے زبان سیکھنے اور اپنی قابلیت میں اضافہ کرنے کا۔تارکین وطن کو اپنی قابلیت اور اہلیت کو اس ملازمت کے تناظر میں دیکھنا چاہیے جس کے لیے وہ درخواست دے رہے ہیں۔انکا کہنا ہے کہ تمہیں اپنے اس پراجیکٹ کا سربراہ خود ہی ہونا چاہیے۔اکثر انفرادی تارکین وطن کے لیے ان کے مذہبی اعتقادات ان کے راستے میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔انہیں کھلے دل سے اس بات کو تسلیم کرنا چاہیے کہ فرم کی سربراہ ایک عورت بھی ہو سکتی ہے۔
Its informative n good advises hope to Get more to hv realistic guidance
Yes Musarrat Api i agree with your openion .
thanks
shazia